قومی سلامتی کے تصورات۔۔۔۔تحریر نعیم قاسم


اگر ہم قومی سلامتی کے مختلف تصورات پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس ضمن میں جہاں مختلف سیاست دانوں کا الگ الگ نقطہ نظر رہا ہے، وہیں فوجی نظریہ ہمیشہ سے یکساں رہا ہے نوے کی دہائی میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے قومی سلامتی کے تصور کو قومی معیشت میں غیر ملکی قرضوں کے حوالے سے پیش کرتے ہوئے اس کا حل ایک ایسی قومی حکومت کو قرار دیا جو ایک طویل المدت معاشی روڈ میپ تجویز کرے اور اس میں فوج، ایجنسیاں اور مخالف سیاسی پارٹیاں بھی آن بورڈ ہوں آصف علی زرداری زرداری نے پی ڈی ایم کی حکومت میں شہباز شریف کو وزیر اعظم بنا کر اس تصور کو حقیقت کا روپ دینے کی کوشش کی مگر شہباز شریف کی ناقص گورنس اور اسحاق ڈار کی ناکام معاشی حکمت عملی نے قومی سلامتی کے اس تصور کو عملاً غلط ثابت کر دیا وہ تو بھلا ہو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا جس نے نگران دور حکومت میں ڈالر کی بلیک مارکیٹنگ پر کریک ڈاؤن کر کے روپے کی قدر کو قدرے مستحکم کیا وگرنہ مائنس عمران قومی حکومت نے ملک کو دیوالیہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی قومی سلامتی کے متعلق نواز شریف کا ہمیشہ یہ خیال رہا ہے کہ پاکستان ہندوستان کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تنازعات بھلا کر باہمی تجارتی تعلقات اور عوامی سطح پر افراد کا افراد کے ساتھ روابط کو پروان چڑھا ئے جب دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کی فضا اور خیر سگالی کے جذبات بیدار ہو جائیں گے تو پھر تنازعات کو باہمی گفت و شنید کے ذریعے حل کرنا ممکن ہوجائے گا اپنے دوسرے دور اقتدار میں نواز شریف نے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں بریک تھرو کیا اور واچپائی صاحب کو لاہور مینار پاکستان پر بلایا مگر اس وقت کی فوجی قیادت نے کارگل آپریشن کرکے نواز شریف کی اس کاوش کو سبو تاژ کر دیا اور بعد میں نواز شریف کو ٹریپ کر کے اقتدار سے محروم کر دیا اور وہ جیل، جلا وطنی کی سزا بھگتتا رہا عمران خان نے بھی امریکہ اور گلف ممالک کی بالادستی سے نکلنے کے لیے ترکی، ملائشیا، ایران اور روس سے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی جس کی پاداش میں قومی اسمبلی میں عدم اعتماد سے ان کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا کیونکہ ہمارے ہاں کوئی وزیراعظم خارجہ پالیسی کے خدوخال خود طے نہیں کر سکتا ہے اقتدار سے محرومی پر جب عمران خان نے امریکہ اور فوج کی قیادت کو رگیدا اور جذبات میں آکر اسمبلیوں سے استعفے دئیے اور پنجاب، خیبر پختون خواہ میں اپنی حکومتوں کو ختم کیا تو اس پر 9 مئ کے ہنگام کی آڑ میں وہ دو سو سے زائد مقدمات کا جیل میں سامنا کر رہے ہیں سہیل وڑائچ درست کہتے ہیں کہ کوئی لیڈر عوام میں کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو، وہ اقتدار حاصل نہیں کر سکتا ہے جب تک اسکے لیے مقتدر حلقوں میں قبولیت نہ ہو
ہمارے ہاں ریٹائرڈ فوجی جرنیلوں کے خیال میں قومی سلامتی کا تقاضا ہے کہ قومی بجٹ کے دفاعی اخراجات میں روپے کی حقیقی قدر کی بنیاد پر اضافہ کرنا چاہئے جنرل حمید گل کہا کرتے تھے کہ اگر ہمارے پاس مطلوبہ دفاعی صلاحیت کے لیے خاطر خواہ بجٹ نہیں ہو گا تو پھر ہمیں ہندوستان کی بالادستی کو قبول کر نا ہو گا کشمیر کا خیال دل سے نکالنا ہوگا جنرل صاحب کے مطابق ہماری ایجنسیاں ہماری پہلی دفاعی لائن ہیں جو ہمیں دشمنوں سے محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں جب کہ ہماری دوسری دفاعی لائن ہمارے ہمسایہ دوست ممالک اور سیاسی جماعتوں کی حمایت ہے جنرل اسلم بیگ اور جنرل حمید گل کا قومی سلامتی کے حوالے سے یہ وژن تھا کہ افغانستان میں جب طالبان کی حکومت قائم ہو گی تو ہماری دفاع کی سٹریٹجک گہرائی میں اضافہ ہو گا مگر بدقسمتی سے آج یہ خواب کرچی کرچی ہو گیا ہے مشرقی محاذ کے علاوہ مغربی محاذ پر بھی ہماری افغانستان اور ایران کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے ہمارے فوجی ماہرین کی دو ٹوک رائے ہے کہ را، موساد کے علاوہ بعض دوست ممالک کی خفیہ ایجنسیاں بھی پاکستان میں تخریب کاری کی پشت پناہی کر رہی ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ کہ پاکستان اپنے دفاعی حصار کو کسی صورت میں کمزور نہ ہو نے دے اور دفاعی بجٹ کی تخصیص کار کو مالی وسائل کی دستیابی سے مشروط نہیں کرنا چاہیے بلکہ خطرے کے حجم، تھریٹ کے لیول اور دشمن کی صلاحیتوں کے پیش نظر رکھ کر اس کو مختص کرنا ہو گا اگر ہم قومی سلامتی کے فوجی نقط نظر کو زمینی حقائق کی کسوٹی پر پرکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ آج کی دنیا میں سائنس، ٹیکنالوجی، صنعت اور ذرائع ابلاغ کی ترقی کے ساتھ ساتھ ملکی دفاع اور سلامتی کے تصورات میں بھی ارتقا ئی تبدیلیاں واقع ہو چکی ہیں اگر چہ ہندوستان کا دفاع بجٹ کا حجم پاکستان سے بیس گنا زیادہ ہے اور روایتی ہتھیاروں میں اسکو پاکستان پر برتری حاصل ہے مگر پاکستان کی سٹیٹ آف آرٹ نیوکلیئر اور میزائل ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہندوستان ہم پر جنگ مسلط کرنے سے گریزاں ہے اسکا ایجنڈا پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کیے رکھنا ہے کیونکہ پاکستان کو توڑنے سے ہندوستان کے اپنے داخلی استحکام کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے آج کے دور میں دفاع اور سلامتی سے مراد سیاسی اور معاشی مضبوطی کو لیا جاتا ہے ہمیں ہندوستان کی بڑھتی ہوئی جنگی صلاحیتوں سے زیادہ اسکی سائنس، ٹیکنالوجی، سیاسی اور معاشی استحکام کی پرواہ ہونی چاہیے جسکی وجہ سے وہ سپر پاور بن رہا ہے سرد جنگ کے دور میں امریکہ کے مقابلے میں سویت یونین بھی فوجی لحاظ سے سپر پاور تھی اور ایک بڑی نیوکلیئر پاور تھی مگر امریکہ اور مغرب نے اسے مالیاتی طور پر مفلوج کر دیا جس سے وہ ٹکرے ٹکرے ہو گیا سویت یونین کے خلاف پاکستان امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی تھا وار آن ٹیرر میں بھی پاکستان امریکہ کا ساتھی تھا کمیونزم کے خلاف جنگ میں جو افغان گوریلے دنیا کی نظر میں مجاہدین تھے بعد میں انہیں دہشت گرد قرار دے دیا گیا مگر ان پراکسی جنگوں کے خاتمے کے بعد ہماری دفاعی لائن بھی کمزور پڑ گئی امریکہ، روس اور حتی کہ خلیجی مسلمان ممالک کے لیے بھی ہندوستان کی ڈیڑھ ارب آبادی کی مارکیٹ مغرب اور عرب ممالک کے فاضل سرمائے کی کھپت کی مارکیٹ بن گئی حتی کہ چین ہندوستان کے ساتھ تمام تر سرحدی تنازعات کے باوجود اربوں ڈالرز کی تجارت کرتا ہے آج بھارت، افغانستان اور ایران کے جنگی مفادات کا دباؤ ہماری سرحدوں کے اندر سرایت کر چکا ہے جس کی وجہ سے آئے دن بم دھماکے اور تخریب کاری کی واردات ہو رہی ہیں ان بدترین حالات میں ہمیں اس حقیقت کا ادراک کرنا ہو گا کہ جب سیاسی انجینیرنگ کے ذریعے سیاست کو کنٹرول کیا جاتا ہے تو پھر ملک میں نسلی، سیاسی اور فرقہ وارانہ عصبیتوں کی کاشت کا ری ہوتی ہے ریاستی جبر اور سیاسی نا انصافی سے عوام کا بڑے طبقہ نفرت کی گہری کھائی میں جا گرتا ہے عوام تقسیم در تقسیم ہو جاتے ہیں ایسے میں جب کسی ایک سیاسی جماعت، مذہبی اور قوم پرست گروہ کو ظلم، جبر اور نا انصافی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ردعمل میں ان کے دلوں میں ریاست کے خلاف نفرت کے آلاؤ روشن ہو جاتے ہیں تو تب دشمن ایجنسیاں ان مایوس سیاسی عصبیتی گروہوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں جس سے ملک میں دہشت گردی کو فروغ ملتا ہے لہٰذا وہ کڑووں ووٹرز جو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہوتے ہیں ان سے جماعتی بنیاد پر ووٹ کا حق چھین لیا جائے تو جمہوری دھارے سے نکل کر ان نوجوانوں کی اکثریت کے محب وطن رہنے کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں اور وہ مایوس اورفرسٹریشن میں نو مئ جیسے نا قابل معافی کام کر جاتے ہیں جبکہ بلوچستان اور فاٹا میں ایسے مایوس نوجوان علیحدگی پسند تنظیموں کے ایجنٹ بن کر ریاست دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں فرقہ واریت کی آڑ میں بھی تخریب کاری شروع ہو جاتی ہے لہٰذا اس ملک کی قومی سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو کٹ ٹو سائز کرنے کے نتائج ملک وقوم کے لیے خوشگوار نہیں ہوتے ہیں آج کے دور میں سیاست معیشت کے تابع ہے اور مضبوط معیشت ہی عسکری قوت کو توانا رکھتی ہے سیاست دان اپنے مقاصد ڈپلومیسی سے حاصل کرتا ہے وگرنہ عسکریت برائے عسکریت کا نظریہ نہ صرف ملک وقوم کےلیے مضر رساں ہوتا ہے بلکہ قوم کی اقتصادی ترقی کے تانے بانے بھی بکھیر کے رکھ دیتا ہے دیکھتے ہیں کہ کب وہ وقت آئے گا جب ہماری ناکام ریاست، نادہندہ ریاست اور دہشت گرد ریاست جیسے منحوس القابات سے نجات حاصل کر پائے گی