کانگریس کے خلاف ملک گیر ریفرنڈم : تحریر الطاف حسن قریشی


کانگریسی دورِ حکومت مسلمانوں کے لیے زحمت میں رحمت ثابت ہوا، کیونکہ اُن پر یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو چکی تھی کہ اُن کے لیے ہندوؤں سے علیحدگی کے سوا اَور کوئی محفوظ راستہ نہیں۔ خود ہندو لیڈر رَام نندن نے 18؍اکتوبر 1938ء کو ’اسٹار آف انڈیا‘ کلکتہ میں اِس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ ’’کانگریس کی زیادتیاں اور سازشیں شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو پاکستان کے نصب العین کی طرف تیزی سے بہائے لیے جا رہی ہیں۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ جب اکتوبر 1939ء میں کانگریسی وزارتوں نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا، تو قائدِاعظم نے مسلمانوں سے 22دسمبر 1939ء بروز جمعہ یومِ نجات منانے کی اپیل کی اور ہدایات دیں کہ ہندوستان کے طول و عرض میں صوبائی، ضلعی اور مقامی لیگیں کامل نظم و ضبط کے ساتھ جلسے منعقد کریں اور نمازِ شکرانہ ادا کی جائے۔ جلسوں میں منظوری کے لیے جو قرارداد بھیجی گئی اُس کے الفاظ یہ تھے ’’اِس جلسے کی یہ پختہ رائے ہے کہ کانگریسی حکومتیں مسلمانوں اور دِیگر اقلیتوں کے حقوق و مفادات کے تحفظ میں مکمل ناکام رہی ہیں جنہوں نے اُن کی مذہبی اور معاشرتی زندگی مفلوج کر دی ہے۔ اِن حکومتوں نے ایسی فضا قائم کر دی تھی گویا ہندو رَاج قائم ہو گیا ہے، لہٰذا یہ جلسہ مختلف صوبوں میں کانگریسی حکومتوں کے خاتمے پر اپنے اطمینان کا اظہار کرتا ہے اور مسرّت کے ساتھ آج کے دن ڈھائی سالہ ظلم و تشدد اَور ناانصافی کے چھٹکارے پر یومِ نجات مناتا ہے۔‘‘

قائدِاعظم کی اِس اپیل سے کانگریسی قیادت کے تن بدن میں آگ بھڑک اٹھی اور اُس نے اِسے بےوقت اور اِشتعال انگیز اقدام قرار دِیا جو فرقہ وارانہ کشمکش کو تیز کر دے گا۔ اِس کے برعکس پورے ہندوستان میں قائدِاعظم کے اعلان کا زبردست خیرمقدم ہوا۔ قابلِ ذکر بات یہ کہ مسلمانوں کے علاوہ پارسیوں، پست اقوام اور جسٹس پارٹی نے بھی قائدِاعظم کی آواز پر لبیک کہا۔ یوں یومِ نجات ہندوستان کے بڑے شہروں سے لے کر قصبات میں بھی غیرمعمولی جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا۔ آل انڈیا اچھوت ایسوسی ایشن کے ترجمان اَخبار ’نیو اڑیسہ‘ کے ایڈیٹر نے یومِ نجات کو ہندوستان کی تاریخ کا ایک سنہری دن قرار دِیا کہ اُس دن بہت بڑی تعداد میں مسلمان اور ہندو اِکٹھے ہوئے اور ظلم و اِستبداد کے خلاف یومِ نجات منانے پر اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔

شاہی مسجد لاہور میں نمازِ جمعہ کے بعد یومِ نجات کے سلسلے میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ملک برکت علی نے کہا کہ ’’ڈھائی برسوں کے دوران اقلیتی صوبوں میں مسلمانوں کی جان، مال اور عزت و آبرو کا جو حشر ہوا ہے، جلیانوالہ باغ کے ٘مظالم اُس کے سامنے ہیچ ہیں۔‘‘ پارسیوں کی طرف سے ہیوی رستم جی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’آج بلاشبہ جناح ہندوستان کی تمام اقلیتوں کا ہیرو ہے جو تن تنہا کانگریس کے فاشزم کے خلاف لڑ رہا ہے۔ پارسی قوم کو مسٹر جناح کی قیادت پر مکمل اعتماد ہے اور ہم بھی اُس کی فوج میں شامل ہیں۔‘‘

22 ؍دسمبر کو بمبئی میں آئی آئی چندریگر کی زیرِصدارت ایک جلسے میں کریم بھائی ابراہیم نے جو قرارداد پیش کی، اچھوت رہنما ڈاکٹر امبیدکر نے اُس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ’’آج ہندوستان میں برطانوی حکومت کی حیثیت ایک ریسیور کی ہے جس کی تحویل میں فریقین کی جائیداد ہے۔ اگر کانگریس نے اُسے ڈرا دَھمکا کر یا مار پِیٹ سے یہ جائیداد ہتھیا لی، تو کانگریس کا یہ فعل اقلیتوں کے خلاف ایک جرم قرار پائے گا۔‘‘ اُس جلسے کے متعلق ’ٹائمز آف انڈیا‘ نے لکھا کہ بمبئی میں اتنا بڑا اَور اِس قدر پُرامن کوئی اجتماع نہیں ہوا۔

یومِ نجات ہندوستان کے طول و عرض میں جس انتہائی نظم و ضبط اور باوقار اَنداز میں منایا گیا، اُس کے بارے میں روزنامہ ’اسٹیٹسمین‘ کے سابق ایڈیٹر آرتھر مور نے لکھا کہ ’’یہ دن قریب قریب مذہبی عقیدت سے منایا گیا، کوئی ہنگامہ نہیں ہوا اَور ذمےدارانہ لہجے میں شکر ادا کیا گیا۔‘‘ اِس طرح ہندوستان کے مسلمانوں کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اِس واقعے نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ قائدِاعظم نے کس طرح ایک مختصر عرصے کے اندر پورے ہندوستان کے طول و عرض میں اپنا اثرورُسوخ قائم کر کے اِس مقصد پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی تھی کہ وہی مسلمانوں کے واحد اور صحیح نمائندہ ہیں۔ یومِ نجات نے کانگریس کے اِس دعوے کو باطل قرار دِیا کہ وہ تمام ہندوستان کی نمائندگی کرتی ہے۔ یومِ نجات قائدِاعظم کی قیادت کی اِس بنیادی صفت کا بھی مظہر تھا کہ کس طرح اور کب ضرب لگائی جائے۔

یہ عجب اتفاق ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کانگریس کیلئے پسپائی جبکہ قائدِاعظم اور مسلم لیگ کیلئے سیاسی توانائی کا پیغام لیکر آئی۔ 3 ستمبر 1939ء کو برطانیہ جرمنی کے خلاف جنگ میں شامل ہو گیا۔ برطانوی حکومت کی یہ فطری خواہش تھی کہ اِس جنگ میں ہندوستان اُس کا ساتھ دے۔ وائسرائے نے اِس ضمن میں تمام سیاسی جماعتوں سے گفت و شنید کی۔ کانگریس نے اِسے استعمار کی جنگ قرار دِیا۔ اِس موقف کے پیشِ نظر کانگریسی حکومتوں نے اکتوبر اور نومبر میں استعفے دیے۔ مسلم لیگ نے اِس موقع پر وائسرائے سے نرم لہجے میں گفتگو کی اور جنگ میں شرکت کے لیے چند شرائط پیش کیں۔ مسلم لیگ کی وزارتوں نے استعفے بھی نہیں دیے۔ قائدِاعظم کی اپیل پر ملک گیر یومِ نجات کانگریس کے خلاف ریفرنڈم ثابت ہوا۔ اِس طرح کانگریس کے حصّے میں ذلت و رُسوائی آئی جبکہ مسلم لیگ کی سیاسی طاقت میں زبردست اضافہ ہوا۔

ڈھائی سالہ کانگریسی راج نے وہ تمام اندیشے اور خطرات پوری طرح درست ثابت کر دیے تھے جو مسلمان ہندوؤں کی بالادستی کے بارے میں رکھتے تھے اور اِس طرح تمام مسلمانوں کی آنکھیں کھل گئی تھیں اور وُہ مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع ہوتے گئے۔ قائدِاعظم نے کانگریسی راج پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہندو قوم نے اپنا نقطۂ نظر واضح کر دیا ہے کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کے لیے ہے۔ کانگریس یہ کام قومیت کے حسین لفظ میں لپیٹ کر کرتی ہے جبکہ مہاسبھا الفاظ کے چکر میں نہیں پڑتی اور صاف صاف بات کرتی ہے۔‘‘ محمد علی جناح مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے مسلمانوں کے محبوب قائدِاعظم کیسے بنے، اِس کا تفصیلی ذکر آگے آتا ہے۔ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ جنگ