سیاسی انجینئرنگ کے بغیر : تحریر حسین حقانی


کئی مورخین نے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو کیا ہوتا ؟ اہم تاریخی واقعات پر اٹھائے جانے والے اس سوال نے ایک صنف وضع کی ہے جومتقابل تاریخ یا قیاسی تاریخ کہلاتی ہے ۔ اس کے پیچھے تصور یہ ہے کہ اُن اہم واقعات اور فیصلوں کو شناخت کیا جائے جو اگر مختلف ہوتے تو تاریخ کا دھارا بدل سکتے تھے ۔ پاکستان کے حوالے سے متعدد فیصلہ کن موڑ اس فہرست میں جگہ پاتے ہیں جہاں اگر اُس وقت کے ارباب اختیار مختلف آپشن اختیار کرتے یا کوئی اور فیصلہ لیتے تو آج ملک کسی اور سمت گامزن ہوتا۔ اگر 1947 ء میں آزادی کے بعد ریاستی ادارے سیاسی انجینئرنگ سے اجتناب کرتے اور ملکی سیاست اپنی فطری راستے پر رواں رہتی تو کیا ہوتا؟ سیاسی انجینئرنگ کی پہلی کوشش اپریل 1953ء میں گورنر جنرل کے ہاتھوں وزیر اعظم ناظم الدین کی حکومت کی برطرفی اور اکتوبر 1954ء میں دستور ساز اسمبلی کی تحلیل تھی ۔ اس وقت اسمبلی نے ابھی پاکستان کے پہلے آئین کے مسودے کو حتمی شکل دی ہی تھی ۔ اگر یہ دو اقدامات نہ اٹھائے جاتے اور نہ ہی سپریم کورٹ ان کی توثیق کرتی تو پاکستان کے پاس 1954ء میں آئین ہوتا عام انتخابات کا انعقاد ہوجاتا۔سابق مشرقی پاکستان میں 1954 ء کے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے نتائج کے مطابق عوامی لیگ ملک کی واحد سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرتی اور اسکے رہنما، حسین شہید سہروردی وزیر اعظم بن جاتے ۔سہروردی پہلے ہی چھوٹی جماعتوں کیساتھ مل کر چلنے کی صلاحیت کا مظاہر ہ کرچکے تھے جب انھوں نے اے کے فضل حق ، جن کی کرشاک سرامک پارٹی نسبتاً ایک چھوٹی جماعت تھی ، کو مشرقی بنگال کا وزیر اعلیٰ بننے کا موقع دے دیا جب کہ سہروردی کی عوامی لیگ کی صوبائی اسمبلی میں بھاری اکثریت تھی ۔ سہروردی مغربی پاکستان میں چھوٹی جماعتوں کے ساتھ شراکت داری کرکے ایک فعال حکومت تشکیل دے سکتے تھے ۔ اُس وقت عوامی لیگ کی مغربی پاکستان میں بھی خاطر خواہ موجودگی تھی اور اگرچہ پنجاب کی سب سے بڑی جماعت ،مسلم لیگ کو مشرقی بازومیں شکست ہوئی تھی ، پھر بھی وہاں اس کی حمایت موجود تھی۔مسلم لیگ عوامی لیگ کے ساتھ مل کر ایک قومی حکومت بنا سکتی تھی، یا پھر اپوزیشن کی نشستوں پر بیٹھ جاتی ۔ دونوں صورتوں میں وفاقی آئین کے تحت اور دو بڑی قومی جماعتوں کی موجودگی میں ایک پارلیمانی نظام چلنا شروع ہوجاتا۔ 1950ء کی دہائی کی عوامی لیگ اور مسلم لیگ ، دونوں وسیع تر حمایت رکھنے والی سیاسی جماعتیں تھیں ۔ ان کے رہنماؤں کا تعلق معاشرے کے تمام طبقوں سے تھا۔ مسلم لیگ کو پنجاب اور سندھ میں حمایت حاصل تھی، چنانچہ اس کی بالائی صفوں میں زیادہ تر زمیندار تھے ، لیکن اس میں وکلا اورشہری علاقوں سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور افراد بھی دکھائی دیتے تھے ۔ عوامی لیگ کے رہنماؤں میں شاید ہی کوئی جاگیر دار ہولیکن اس کی صفوں میں زمیندار بہرکیف موجود تھے ۔ ان دونوں جماعتوں کے علاوہ نیشنل عوامی پارٹی ملک میں بائیں بازو کی نمائندگی کرتی تھی جب کہ جماعت اسلامی اور نظام اسلام پارٹی اسلام پسندوں کی آوازتھیں ۔ تمام جماعتیں قومی، صوبائی اور ضلعی سطح پرتنظیمیں رکھتی تھیں اور ان کی چوٹی کی قیادت پارٹی کے باقاعدگی سے ہونے والے داخلی انتخابات جیت کر آتی تھی ۔ پاکستان جمہوری راستے پر گامزن ہوسکتا تھا۔لیکن گورنر جنرل غلام محمد کی سیاسی انجینئرنگ کی کوشش جسے آرمی چیف جنرل ایوب خان اور عدلیہ کی بھرپور حمایت حاصل تھی ، نے اس عمل کو پٹری سے اتار دیا۔بایںہمہ اس وقت تک ملکی سیاست کا مکمل طور پر شیرازہ نہیں بکھرا تھا۔اس عمل کا آغاز 1958 ء میں 1956ء کے آئین کی معطلی سے ہوا، اور اس کیساتھ ہی مارشل لا لگ گیا ۔ اس کے بعد آج تک پاکستان سیاسی انجینئرنگ کی کئی ایک کوششیں دیکھ چکا ہے ۔ انھوں نے ملک میں سیاسی ارتقا کے عمل کو مسدود کردیا ہے ۔

کیا ہوتا اگر جنرل ایوب خان، جو بعد میں فیلڈ مارشل بنے ، مداخلت نہ کرتے؟اگر 1959ء کے اوائل میں انتخابات اپنے شیڈول کے مطابق ہوجاتے تو ملک میں دو بڑی جماعتوں، عوامی لیگ اور مسلم لیگ کے درمیان انتخابی معرکہ ہوتا۔ 1954ء میں ہونے والی مداخلت اور بعد میں پیش آنے والے واقعات کے نتیجے میں اسٹیبلشمنٹ کی طرف جھکاؤ رکھنے والی رپبلکن پارٹی وجود میں آئی تھی۔ اس کی بھی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہوسکتی تھی۔ بائیں بازو کی این اے پی اور اسلام پسند عناصر کی آوازیں بھی سنی جاتیں اور ان کے بھی منتخب شدہ نمائندے ملنے والی حمایت کے تناسب سے اسمبلی میںپہنچ جاتے ۔

فرض کریں اگر مسلم لیگ 1959ءکے انتخابات میں کامیاب ہوجاتی تو خان عبدالقیوم خان ممکنہ طور پر وزیر اعظم بن جاتے ۔ لیکن پارٹی کی صفوں میں شامل اور بھی چوٹی کے رہنما وزیر اعظم بن سکتے تھے۔ وزارت عظمیٰ کیلئے عوامی لیگ کی واضح چوائس سہروردی تھے۔ دونوں تحریک آزادی کا تجربہ رکھتے تھے ، دونوں ہی منجھے ہوئے سیاست دان تھے ۔ اسی طرح حزب اختلاف کی صفوں میں بھی سنجیدہ افراد شامل تھے ۔ سیاسی انجینئرنگ کے بعد سامنے والے افراد سے ان کا موازنہ کریں توملک کی سیاسی قیادت کا گرتا ہوا معیار مزید واضح ہوجاتا ہے ۔

ایوب خان نے اپنی مداخلت کا جواز پیش کرتے ہوئے اسے ملک کو درست راہ پر ڈالنے کی ایک مرتبہ کی جانے والی کوشش قرار دیا۔ اُسکے بعد سے ہر سیاسی انجینئر انہی خطوط پر سوچتا ہے:تھوڑی سی انجینئرنگ یہاں ہو جائے، کچھ دباؤ وہاں ڈالا جائے، فلاں کی ترقی روک دی جائے تو اس سے ملک بالآخر استحکام اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔ لیکن سادہ تصورات کہ ’’ ملک کو نیک ، صالح اور ایماندار قیادت کی ضرورت ہے‘‘ اور’’ ہمیں بس بہتر سیاست دان چاہئیں‘‘ سے ایوب دور یا اُنکے بعد میں آنیوالے برسوں میں پاکستان کے مسائل حل نہ ہوئے ۔ اپنی سوانح عمری، ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ (جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی ) میں ایوب خان نے پارلیمانی جمہوریت کی ناکامی اور عوام کی ناخواندگی پر سوالات اٹھائے ہیں ۔ یہی سوالات ہر چند سالوں کے وقفوں سے ہونے والی ہر نئی غیر سیاسی مداخلت کے بعد اٹھائے جاتے رہے ہیں ۔ لیکن سیاسی انجینئرنگ کی پہلی کوشش کے 65سال بعد بھی ملک عالمگیر خواندگی کی شرح یاجاگیر داروں کے اثرو رسوخ کو کم کرنے کیلئے زرعی اصلاحات لانے کی منزل سے کوسوں دور ہے ۔ ملک کو انہی سوالات کا سامنا ہے اور جواب ہنوز ندارد ۔ اگر سیاسی انجینئرنگ سے ان سوالات کا جواب مل سکتا تو اب تک کی گئی متعدد سیاسی انجینئرنگ مختلف سیاسی ماحول پیدا کردیتیں ۔

بشکریہ روزنامہ جنگ