انسان، اشرف المخلوقات ہونے پر سب سے زیادہ اِتراتا اور فخر محسوس کرتا ہے وہ تمام مخلوقات میں افضل شمار کئے جانے کی فضیلت کا تمغہ خوشی سے وصول کرتا ہے مگر اس کے نتیجے میں فرض ہو جانے والی ذمہ داری نبھانے کی کوشش نہیں کرتا۔اسے اپنے ہونے پر بڑا مان ہے، وہ فرشتوں کے سجدوں والی کہانی ہمیشہ خود کو سناتا اور لطف لیتا ہے مگر اس کے پس پشت محرک قوت کو نظرانداز کردیتا ہے۔جس کی بنا پر فضیلت کا معیار طے ہوا تھا۔ وہ اس طرف توجہ کرنے کی زحمت نہیں کرتا کہ اسے فضیلت عطا کرنے والی اکلوتی طاقت عقل تھی جس کے ساتھ سوچنے اور کھوجنے کی صلاحیت بھی عنایت کی گئی تھی۔فلسفیوں، سائنس دانوں اور صوفیوں نے اس خزانے کو برتا اور کائنات کے صحن میں بکھری حیرتوں کو ٹٹولا، پرکھا اور خود کو طاقت ور کرتے گئے۔ سائنسدانوں نے مادی ، دانشمندوں نے اخلاقی اور فلسفیوں نے روحانی کمالات کر کے دنیا کو تہذیب کا گہوارا بنانے کا آغاز کیا۔
بڑی دیر یہ سلسلہ جاری رہا اور آج بھی جاری ہے۔تاہم آج جب کہ انسان نے علمی سطح پر ترقی کی بہت سی منزلیں سرکر لی ہیں تو پھر صورتحال گھمبیر کیوں ہے۔بہت سے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں کہ آخر عقل کا استعمال صرف مادی مفاد تک محدود ہوتا جا رہا ہے۔ انسان نے دیگر سماجی، معاشرتی اور علاقائی معاملات کو سنوارنے کی طرف توجہ کیوں کم کر دی ہے۔ زندگی کا مقصد مادی خواہشات کے حصول تک کیوں رک گیا ہے۔
کیونکہ جب آپ مادی خواہشات تک محدود ہو جاتے ہیں تو پھر استحصال اور نفرتوں کے رویے پنپتے ہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ روحانی اور اخلاقی ترقی کا سفر بھی ساتھ ساتھ جاری رہے۔عقلی انحطاط اور فکری زوال کا سامنا صرف پاکسان نہیں پوری دنیا کی فضاوں پر قابض ہو چکا ہے۔اسی لئے دنیا کے بڑے، لوگوں کی فلاح اور بقا کی بجائے دوسروں کو زیر کرنے پر توجہ اور وسائل جھونک رہے ہیں۔ جس کا اثر انسانوں کی زندگیوں میں پھیلی بے چینی ہے۔ پڑھے لکھے لوگوں کے رویوں میں منفی بدلاؤ کے پیچھے کمی کہاں ہے؟ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ یہ کمی سوچ میں ہے،عقل کے غلط استعمال میں ہے۔ عقل تو ایک آلہ ہے، ہتھیار ہے اس کا استعمال انسان کے اختیار میں ہے۔اندھا دھند بھاگ دوڑ کے اس عالم میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو بیٹھ کر سوچتے ہیں اور پھر سوچ کا در کھٹکھٹانے اور رویے سدھارنے کا نسخہ لے کر چوک میں کھڑے ہو کر آواز لگاتے ہیں۔ہم خیال لوگ ملتے جاتے ہیں اور قافلہ آگے بڑھنے لگتا ہے۔ لاہور میں یوں تو بہت سے ادبی اور ثقافتی میلے ہوتے ہیں اور ہوتے رہنے چاہئیں کیونکہ ادب اور ثقافت انسان کی شخصیت کو اجالتے اور سنوارتے ہیں۔ تفریح بھی سانس کی طرح ضروری ہے ورنہ ہستی کا توازن ڈگمگا جاتا ہے ہنسنا اور رونا دونوں کتھارسز کا کام کرتے ہیں۔شاعری، موسیقی اور ڈرامہ یہ دونوں کام کرتے ہیں۔انسان کے سر پر رکھی غم کی پوٹلی کو آنسووں اور قہقہوں میں بہا کر اسے ہلکا پھلکا کر دیتے ہیں۔لیکن فکری مغالطے دور کرنا بھی ضروری، فکری حوالے سے بہت ہی منفرد تہوار تھنک فیسٹ، پانچ سال پہلے ہمارے بہت عزیز یعقوب خان بنگش نے شروع کیا۔ آج یہ فیسٹیول نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا میں ایک نئے رنگ ڈھنگ کا فیسٹیول بن چکا ہے۔ سنجیدہ سوچ والے نامور لوگ مختلف ممالک سے یہاں تشریف لاتے ہیں اور زیادہ فوکس کرنٹ ایشوز پر ہوتا ہے۔ آج کی زندگی کو درپیش مسائل پر بات ہوتی ہے۔آج کو کیسے بہتر کرنا اور کل کے چیلنجز کو کیسے سنبھالنا ہے۔ عالمی امور کے حوالے سے دنیا میں چھپنے والی عمدہ کتابوں پر بحث ہوتی ہے، نتائج اخذ کئے جاتے ہیں۔جذباتی نعروں کی بجائے سوال و جواب کا سلسلہ نئے زاویوں کو وا کرتا ہے۔سیاسی، سماجی، معاشی اور علاقائی رنجشوں کے پس پردہ محرکات پر منطقی گفتگو نئی نسل کو سچی تصویر فراہم کرتی ہے۔مختلف شعبہ ہائے حیات کے قد آور سیاستدان، تاریخ دان، معاشی ماہرین اور دانشمند شرکت کرتے ہیں۔ اس بار 25غیرملکی مندوبین کے علاوہ کئی سفارت خانوں کے نمائندے پورا وقت موجود رہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات اور خطے میں بدلتی صورتحال میں کل کا ہندوستان اور پاکستان کیسا ہونا چاہئے ،پر عمدہ بحث ہوئی۔ دونوں ملکوں کے مندوبین بہت پر امید تھے اور لوگ بھی۔ اس فیسٹیول کی زیادہ تر کارروائی انگریزی میں تھی۔ایک آدھ ادبی اور ثقافتی سیشن اردو اور پنجابی میں بھی تھا۔خصوصا تھیٹر کے حوالے سے اجوکا کی ٹیم، مدیحہ گوہر اور شاہد محمود ندیم کی 40سالہ خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا،پنجابی مشاعرہ بھی خوب رہا۔میرے خیال میں ایسے فیسٹیولز کی کا دائرہ کار بڑھانے کی ضرورت ہے۔جدید تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم نوجوانوں کی بڑی تعداد کی شرکت حوصلہ افزا ہے۔ صوبائی اور وفاقی حکومت کو ایسے فیسٹیولز کی مالی معاونت کرنی چاہیے تاکہ سوچ کا قافلہ آگے بڑھتا رہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ