بندیال صاحب کا دورِ قضا … تحریر : ذوالفقار احمد چیمہ


سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال پاکستان کے سب سے بڑے عدالتی منصب سے ریٹائر ہوکر رخصت ہوگئے ہیں۔ انھیں اور ان کے دور کو کن الفاظ سے یاد کیا جائے گا؟ اس کا مختصر اور دو ٹوک جواب ہے بہت برے الفاظ سے۔ ان کی شخصیت اور دور سے جڑی کئی باتیں یاد آرہی ہیں۔

ریٹائر جسٹس افتخار چوہدری چونکہ وکیلوں کو اپنا محسن سمجھتے تھے،اس لیے انھوں نے وکلا کو خوش کرنے کے لیے ڈسٹرکٹ جوڈیشری کی عزت اور توقیر خاک میں ملا دی۔

میں ان دنوں شیخوپورہ رینج کا ریجنل پولیس آفیسر تھا، جب ایک روز ساہیوال کے ان مظلوم پولیس افسروں کے اہلِ خانہ مجھے ملنے آئے جن کے خلاف وہاں کے وکیلوں نے سنگین نوعیت کے جھوٹے مقدمے درج کرائے، اپنی مرضی کا جج لگوایا اور اس سے ان بے گناہوں کو سخت ترین سزائیں دلوادیں، جس کے باعث وہ کئی سالوں سے جیل میں پڑے بے گناہی کی سزا بھگت رہے تھے، ان میں سے ایک ڈی ایس پی جیل میں ہی انتقال کرگیا ، ایک اور افسر بینائی سے محروم ہوگیا تھا۔
دوسروں کے حالات بھی انتہائی ناگفتہ بہ تھے۔ جب ایک مظلوم پولیس انسپکٹر کی بیٹی نے اپنے گھرانے کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی کہانی سنائی تو میرے دفتر میں موجود ہر شخص کی آنکھیں نمناک ہوگئیں، مظلوم خاندان تو تنکوں کے سہارے ڈھونڈتا ہے، وہ بیچارے میرے پاس بھی یہی آس لے کر آئے تھے اس لیے میں نے انھیں تسلی اور حوصلہ دینے کی پوری کوشش کی۔

ان کے جانے کے بعد میں نے فوری طور پر لاہور ہائیکورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال صاحب سے ملاقات کا وقت لیا اور ان کے چیمبر میں ملنے کے لیے چلا گیا۔

ان سے پہلے اس عہدے پر فائز رہنے والے بہت سے چیف جسٹس صاحبان مجھے ذاتی طور پر بہت اچھی طرح جانتے تھے اور میں ان سے کئی بار مل چکا تھا، مگر جسٹس بندیال صاحب سے میری یہ پہلی ملاقات تھی۔وہ مجھے بڑی عزت سے ملے اور کہنے لگے کہ آپ سے پہلے ملاقات تو نہیں ہوئی مگر آپ کی اچھی شہرت سے میں واقف ہوں اور آپ کی قدر کرتا ہوں۔ میں ان کا شکریہ ادا کرکے اصل موضوع کی جانب آگیا۔

اور انھیں بتایا کہ وکلا کی تحریک کے دوران ساہیوال میں وکیلوں کے مشعل بردار جلوس میں چند وکلا گرگئے اور انھیں معمولی زخم آئے تھے مگر پولیس افسروں پر جھوٹے مقدمے درج کرائے گئے کہ انھوں نے وکلا پر پٹرول پھینک کر جلادیاہے۔

اس کے بعد اپنی مرضی کا جج (جو فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں تھا) مقرر کروا کے اس سے پولیس افسروں کو سزائیں دلوادی گئیں۔ اس سے بھی بڑا ظلم یہ ہے کہ کئی سالوں سے ہائیکورٹ میں ان کی اپیلیں پڑی ہوئی ہیں اور کوئی جج سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔

میں نے بندیال صاحب کو بار بار انصاف کا واسطہ دیا اور گذارش کی کہ دوآپشنز میں سے کسی ایک آپشن پر عمل کرادیں۔ تاکہ ناانصافی کا کچھ ازالہ ہو سکے۔

پہلا یہ کہ ہائیکورٹ کے کسی بھی سروس جج (جو وکیلوں میں سے جج نہ بنا ہو بلکہ سروس سے پروموٹ ہوا ہو) کے پاس ان کی اپیل لگوادیں جو میرٹ پر فیصلہ کر دے۔ دوسرا یہ کہ پولیس افسروں اور سینئر وکلا پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دیں جو کیس کے واقعات کے بارے میں انکوائری کرکے آپ کو رپورٹ پیش کردے اور اگر پولیس افسر بے گناہ ثابت ہوں تو انھیں ضمانت پر رہا کر دیا جائے۔

اگر صوبے میں کوئی بے گناہ پولیس کی حراست میں ہو تو صوبے کا آئی جی بھی اس کا ذمے دار ہے اور اس کا فرض ہے کہ بے گناہ کو فوری طور پر رہائی دلوائے، اسی طرح اگر کوئی بے گناہ شخص صوبے کی کسی جیل میں بند ہو تو یہ صوبے کے چیف جسٹس کا قانونی اور اخلاقی فرض ہے کہ اسے رہائی دلوانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات اٹھائے۔

بندیال صاحب نے میری باتیں توجہ سے سنیں اور مظلوموں کو انصاف دلانے کا وعدہ کیا، مگر عملی طور پر کچھ بھی نہ کیا۔ اس کے دو مہینوں بعدہائیکورٹ میں پولیس تفتیش کے سلسلے میں جج صاحبان اور پولیس افسروں کی میٹنگ ہوئی جس میں راقم بھی شریک تھا، اس میں لنچ پر چیف جسٹس بندیال صاحب بھی تشریف لائے۔ وہ مختلف پولیس افسروں سے ملتے ہوئے جب میرے پاس آئے تو میں نے ان کے ساتھ ساہیوال کے مظلومین کا مسئلہ پھر اٹھایا، اپنے آپشنز بھی دہرائے اور ان کا وعدہ بھی انھیں یاد دلایا۔

اس پر وہ مجھے سائیڈ پر لے گئے اور کہنے لگے کہ ساہیوال وکلاکا صدر جس برادری سے تعلق رکھتا ہے اور سنا ہے آپ کے آئی جی کا تعلق بھی اسی برادری سے ہے لہذا بہتر ہے کہ برادری کی بنیاد پر آئی جی پنجاب ساہیوال بار کے صدر سے رابطہ کرے اور اس طرح پولیس والوں کو ریلیف دلانے کی کوشش کرے۔ یہ کہہ کر بندیال صاحب آگے بڑھ گئے اور میں سوچتا رہ گیا کہ کیا بے گناہوں کو انصاف دلانے کا یہی طریقہ ہے؟

کیا انصاف فراہم کرنا صوبے کے چیف جسٹس کی ذمے داری نہیں ہے؟ چند پولیس افسر میرے چہرے پر پریشانی اور تشویش کے آثار دیکھ کر میرے پاس آئے اور کہنے لگے جسٹس بندیال صاحب ایک دفتری بابو ٹائپ آدمی ہیں، اگر آپ ان میں کسی مظلوم کو انصاف فراہم کرنے کا جذبہ تلاش کررہے ہیں تو آپ کو سخت مایوسی ہوگی۔ ساہیوال کے مظلومین کئی سال تک جیل کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے اور بالآخر سپریم کورٹ سے ان کی ضمانتیں منظور ہوئیں۔ بعد میں بارہا اس بات کی تصدیق ہوئی کہ بندیال صاحب ایک کمزور جج ہیں جن کے فیصلے اس کے گواہ ہیں۔

جب میں موٹروے پولیس کا سربراہ تھا، میرے ایک دیانتدار ایس پی نے مجھے بتایا کہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بندیال صاحب کے اسٹاف افسر نے فون کیا ہے کہ چیف صاحب فیصل آباد جارہے ہیں لہذا موٹروے پولیس انھیں facilitate کرے ۔ میں نے ایس پی سے پوچھا کہ وہ موٹروے پولیس سے کس قسم کی مدد یا تعاون چاہتے ہیں؟ اس نے بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ موٹروے پر مقرر کردہ حدرفتار سے زیادہ رفتار سے بھی گاڑی چلائی جا رہی ہو تو بھی چشم پوشی کی جائے کیونکہ وہ پورے صوبے کی عدلیہ کے سربراہ ہیں۔

میں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کے چیف جسٹس سے تو توقع کی جانی چاہیے کہ وہ خود قانون پر سو فیصد عمل کرے گا اور اگر اس کا ڈرائیور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرے تو وہ قانون کے سامنے سر جھکا کر دوسروں کے لیے مثال بنے گا، مگر موصوف کا طرزِ عمل تو بڑا مایوس کن ہے۔

اسی طرح کا طرزِ عمل سابق چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری کا تھا، انھوں نے بھی ایک بار جب ایسی ہی خواہش کا اظہار کیا تو ہم نے صاف بتا دیا تھا کہ چیف جسٹس صاحب کو ٹریفک قوانین کی پابندی کرنا ہوگی اور اگر قانون کی خلاف ورزی کی جائے گی تو قانون کے مطابق کارروائی ہوگی جس پر وہ بڑے نالاں ہوئے تھے۔

میں نے ایس پی کو بتایا کہ چیف جسٹس بندیال صاحب کے اسٹاف افسر کو بتادیں کہ جج صاحب کی گاڑی کو ٹریفک قوانین کی پابندی کرنا ہوگی کیونکہ موٹرویز پر قانون کی حکمرانی قائم ہے اور ہمیں فخر ہے کہ ملک میں کوئی تو ایسی جگہ ہے جہاں قانون کی خلاف ورزی پر بڑے سے بڑے سرکاری عہدے دار یا بڑے سے بڑے غیرسرکاری آدمی کے خلاف بھی کاروائی کی جاتی ہے اور اس میں کسی شخص کو بھی استثنی حاصل نہیں ہے۔

مگران کی گاڑی نے پھر بھی قانون کی مقررہ حد کی خلاف ورزی کی، جس سے یہ صاف ظاہر ہوگیا کہ ان کے دل میں قانون کا کوئی احترام نہیں ہے، وہ پروٹول کے شوقین ہیں اور ان لوگوں میں شامل ہیں جو قانون کو بریک، Bend، یا بائی پاس کرنے کوا سٹیٹس سمبل سمجھتے ہیں، بہرحال چیف جسٹس صاحب کی گاڑی اور ان کا قافلہ برق رفتاری سے رواں دواں تھا کہ موٹروے پولیس کے ایک فرض شناس اور باضمیر انسپکٹر نے ان کے قافلے کو روک لیا اور قانون کے مطابق over speeding پر انھیں جرمانہ کیا گیا۔ جرمانہ تو انھوں نے چاروناچار ادا کردیا مگر وہ پولیس افسر کی اس گستاخی پر ناراض ضرور ہوئے۔

اس کے بعد جب وہ سپریم کورٹ کے جج بنے تو ایک بار پھر ان کی گاڑی نے اووراسپیڈنگ کی اورجرمانہ کیا گیا جس پر رجسٹرار کے ذریعے آئی جی (مجھے) کو پیغام بھیجا گیا کہ موٹروے کے انسپکٹر نے جج صاحب کے ڈرائیور کے ساتھ بدتمیزی کی ہے، اس کی انکوائری کی جائے۔ ہم نے انکوائری کروائی جس میں الزام بے بنیاد ثابت ہوا۔

میں نے رجسٹرار سے کہا کہ موٹروے کے افسران معمولی کار میں سفر کرنے والے عام مسافروں کے ساتھ بھی بے حد خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں، وہ سپریم کورٹ کے جج صاحب کے ڈرائیور کے ساتھ بدتمیزی کیسے کرسکتے ہیں؟ اس نے کہا ،آپ کی بات درست ہوسکتی ہے لیکن لگتا ہے جج صاحب غصے میں ہیں۔ (بقیہ کل ملاحظہ فرمائیں)

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس