عرصہ پہلے وقت کے پہیے پر گھومتی عمر کے نتیجے میں مضمحل قویٰ اور عناصر کی بے اعتدالی پر بے بسی کا اظہار کرتے بے مثل شاعر غالب نے کہا تھا۔
رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھئے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
پھر زمانے نے دیکھا کہ انسان نے اپنے ذہن کے بل بوتے پر اپنے بنائے ہوئے گھوڑے کو وقت اور عمر کی رفتار سے تیز دوڑا کر دکھا دیا۔ مگر جس کی باگ پر مکمل کنٹرول حاصل کر کے مطیع کر چکا ہے اب اُسے اڑانا اور دوڑانا مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ اس مصنوعی سواری کی رگوں میں دوڑنے والا تیل استطاعت سے دور ہوتا جارہا ہے۔ ایک ایسے وقت جب سہل پسندی کا یہ عالم ہے کہ شہروں میں کوئی ایک کلومیٹر پیدل چلنے کو تیار نہیں اور گاؤں میں دوسری تیسری گلی تک موٹر سائیکل پر جانے کا رواج ہو چکا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انسانی جسم کی ساخت ایسی ہے کہ اسے جتنا دوڑائیں گے اتنا دیر تک قائم دائم اور متحرک رہے گا۔ورنہ بیٹھے بیٹھے یہ گوشت کا پہاڑ بنتا جائے گا اور اس کے کچھ پرزے فیل اور کچھ کو زنگ لگنا شروع ہو جائے گا۔ پچھلے دنوں ایک دوست بتا رہی تھی کہ سستی کا یہ عالم ہے کہ کمرے میں پڑے ٹی وی روموٹ پکڑنے کے لئے بھی ملازمہ کو فون کرنا پڑتا ہے۔ شاید اسی بے حسی اور بے بسی کا توڑ ہونے والا ہے، پٹرول ڈیزل کی قیمتیں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ گاڑی اور موٹر سائیکل کو دیکھ کر خوف آتا ہے اور بیرون ملک جانے کا تو خیال ہی نہیں آتا۔ مطلب سمٹے فاصلے بڑھنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ کووڈ جیسی وبا نے آن لائن کام کی جو روایت قائم کی تھی وہ مستقل اپنانا ہوگی۔ سیاسی، سرکاری میٹنگز، مباحثے، تعلیم، ثقافتی پروگرام حتیٰ کی شادی کی تقاریب میں رشتے دار آن لائن شرکت کریں گے اور ایزی پیسہ کے ذریعے بن کھائے پئے سلامی بھیجیں گے۔ یقین کیجئے وہ وقت آن پہنچا ہے جب واقعتاً تیز تر حرکت کو بریک لگنے والی ہے۔ سفر تھم رہے ہیں۔ مگر ظلم یہ ہوا کہ تقریباً ایک صدی پٹرول کے بل بوتے پر فضاؤں، سمندروں اور سڑکوں پر دندناتا ہوا انسان اپنے قدموں سے دوڑنا بھول گیا ہے۔ اب جب وجود کو اڑانے اور چلانے والی مصنوعی مشینری کے تھکنے کے دن آگئے ہیں تو انسان کو نئے سرے سے چلنا شروع کرنا ہوگا، بالکل ویسے ہی جیسے بچپن میں کیا تھا۔دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی سڑکیں پیدل چلنے والوں سے بھری رہتی ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ کے اسٹاپ تک جانے کے لئے بھی لوگ اچھا خاصا پیدل چلتے ہیں جبکہ ہماری سڑکوں پر دھوئیں اور ہارن کے راج میں پیدل چلنا ناممکن ہو چکا ہے۔ ہمارے ہاں پیدل چلنے والے کو یوں ترس کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ سائیکل والا بھی لفٹ کی پیشکش کر کے گزرتا ہے۔ ہمیں اب نئے زمانے مطلب پٹرول کی نئی قیمتوں کے مطابق اپنی عادتیں بدلنی ہوں گی۔ روزمرہ زندگی کا سودا سلف لینے قریبی بازاروں میں پیدل جانا اور تھیلے اٹھا کر واپس آنا ہوگا۔دو تین کلومیٹر تک دفاتر اور کام والی جگہوں پر پیدل جانا ہوگا۔ یوں کرنے سے ہمیں کوئی اور ورزش یا واک کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ایک کمائے اور درجن کھائیں والا فارمولا بھی اب کارگر نہیں رہا۔ سارا دن فارغ بیٹھنے اور حالات پر کُڑھنے کی بجائے ہر فرد کو کوئی نہ کوئی کام کرنا ہوگا۔ حتیٰ کہ گھریلو خواتین کو ککنگ، کشیدہ کاری، سجاوٹ کی چیزیں وغیرہ تیار کرکے اپنے خاندان کی کفالت میں حصہ ڈالنا چاہئے۔یورپ میں بنیادی تعلیم کے بعد نوجوان جز وقتی ملازمت کرکے اپنی تعلیم کے اخراجات پورے کرتے ہیں جبکہ یہاں بچوں کے بچوں کی شادیوں اور مکان تک کا سوچا جاتا ہے۔
وقت کے ساتھ بدلنا ضروری ہو جاتا ہے جو نہیں بدلتے وہ ناکام ہو جاتے ہیں۔ آئیے آج سے ایک نئے سفر کا آغاز کریں اپنا شیڈول دوبارہ ترتیب دیں۔ جہاں ممکن ہو پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کریں۔ کھاتے پیتے اور مشہور لوگوں کو اپنے پیدل چلنے، پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کی تصویریں سوشل میڈیا پر شئیر کرنی چاہئیں۔ حکومت کو چاہئے میٹرو اورنج لائین ٹائپ بسوں کا جال تمام بڑے شہروں میں یوں پھیلا دے کہ ہر علاقے کے لوگ مستفید ہو سکیں۔پوش علاقوں سے بھی پبلک ٹرانسپورٹ گزرنی چاہئے کہ یہاں ملازمت کرنے والوں، طالبعلموں کو مشکل نہ ہو۔ کتنا اچھا ہو ہم اسٹاپ تک جارہے ہوں لوگوں کا حال احوال پوچھیں اور بس میں نہ صرف جاننے والوں سے ملاقات ہو بلکہ مختلف لوگوں سے بھی رابطہ بحال ہو۔ ان کے مسائل کو جان سکیں اور ہوسکتا ہے کچھ بہتر کرسکیں۔طبقاتی فرق اسی طرح ختم کیا جاسکتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ