جب غدار ٹھہرانے گئے (واپڈا کے ساتھ ایک تاریخی میٹنگ کی روئیداد : تحریر اکرم سہیل)

آزاد کشمیر میں بجلی کے معاملات پر فیڈرل حکومت اور واپڈا کے آفیسران کے ساتھ اس میٹنگ کے نتیجہ میں غداری کا سرٹیفکیٹ تو ملا لیکن ایک فائدہ یہ ہوا کہ یہ پتہ چل گیا کہ پاکستان کے استحصالی طبقات جو مقتدر اشرافیہ کہلاتے تھے اور اب “مقتدر بدمعاشیہ” کہلاتے ہیں آئین پاکستان میں لکھے انسانی حقوق کے دشمن کیوں ہیں؟ عوام کے بنیادی انسانی حقوق غصب کرکے ان کا استحصال کرنے کیلئے ریاست کے نام کی ڈھال لیکر اپنے مکروہ چہرے کیسے چھپاتے ہیں اور کیسے حب الوطنی اور غداری کے معیار مقرر کرتےہیں ؟ جس کے نتیجہ میں جب لوگ اپنے بنیادی انسانی حقوق مانگتے ہیں تو غداری کے بنے بنائے تمغے ان کے گلے میں لٹکا دیئے جاتے ہیں۔ ھمارے ذہن میں تو پنجاب یونیورسٹی لاء کالج لاہور میں اپنے استاد ، محترم وسیم سجاد (سابقہ چیرمین سینٹ،) کے وہ سبق تھے جن میں انہوں نے آئین پاکستان کے آرٹیکلز،157،38،اور 161 کے حوالے سے ہمیں پڑھایا تھا کہ کسی بھی خطے کے قدرتی وسائل پر اس خطے کے رہنے والے لوگوں کا حق ملکیت اور حق استفادہ بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہوتا ہے۔اسی لئے آئین پاکستان میں ایسے آرٹیکلز شامل کئے گئے ہیں تا کہ ان قومی وسائل کی کوئی بھی استحصالی طبقہ لوٹ مار نہ کر سکے۔ جب میں سیکرٹری برقیات بنا تو اسی خوش فہمی کی بنیاد پر میں نے فیڈرل وزارت پانی اور بجلی اور چیرمین واپڈا کو خطوط لکھنا شروع کر دیئے کہ واپڈا آئین پاکستان کی پابندی کرے اور منگلا ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی کا خالص منافع آئین پاکستان کے آرٹیکل 161 میں متعین کردہ حساب فہمی کے اصولوں کے مطابق آزادکشمیر حکومت کو ادا کرے۔ آخر کار واپڈا کے ساتھ میٹنگ کا دن طے ہوگیا۔ اسلام آباد میں کشمیر ہاؤس کے کانفرنس ہال میں میٹنگ شروع ہو گئی۔ آزاد کشمیر کے اس وقت کے وزیراعظم محترم راجہ فاروق حیدر، چیف سیکرٹری آزاد کشمیر، پاکستان سے فیڈرل سیکرٹری پانی اور بجلی، چیرمین واپڈا جنرل ذوالفقار شامل تھے۔ میں نے اپنا موقف پاور پوائنٹ پریزینٹیشن جو 30 کے لگ بھگ سلائیڈز پر مشتمل تھی ،پیش کرنا شروع کی اور پہلی سلائیڈ پر قرآن پاک کی سورہ فصلت کی آیت نمبر10 تھی جس میں کسی بھی سرزمیں کے قدرتی وسائل کی ملکیت اور استفادہ کے برابر کا حق وہاں کے تمام شہریوں کیلئے بطور خدائی حکم موجود ہے۔ پھر آئین پاکستان کے آرٹیکل 38 کو بیان کیا جہاں بنیادی شہری حقوق کی گارنٹی اس طور دی گئی کہ انفرادی اور اجتماعی استحصال کو ممنوع کر دیا گیا۔ پھر آئین کے ان آرٹیکل پر بات شروع کی جو پاکستان کے حکمرانوں کو پابند کرتے ہیں کہ وہ پن بجلی کے پراجیکٹس جہاں لگائیں گے وہاں سے وہ بجلی تو حاصل کریں گے لیکن اس کی حدود و قیود واضح متعین کر دیں کہ پن بجلی کے پراجیکٹس سے ان پراجیکٹس کی تعمیری لاگت اور اس کے بعد بجلی پیدا کرنے کیلئے جو رواں اخراجات آ رہے ہیں واپڈا صرف وہ اپنے پاس رکھ سکتا ہے جبکہ ان پن بجلی کے منصوبوں سے ہونے والا تمام منافع جسے خالص منافع یا نیٹ ہائیڈل پرافٹ کہا گیا ہے وہ اس صوبے کو ملے گا جہاں یہ بجلی گھر، بجلی پیدا کر رہے ہیں ۔میرا اظہار تھا کہ فیڈرل حکومت کے دو نوٹیفیکیشنز کے مطابق آزاد کشمیر کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو پاکستان کے دیگر صوبوں کو حاصل ہیں۔ اس پر چیئرمین واپڈا اور فیڈرل حکومت کے آفیسران کا موقف تھا کہ چونکہ آزاد کشمیر پر آئین پاکستان کا اطلاق نہیں ہوتا لہذا آپ نہ نٹ ہائیڈل پرافٹ کا لفظ استعمال کر سکتے ہیں ، نہ آئین پاکستان میں نیٹ ہائیڈل پرافٹ کیلئے حساب فہمی کا جو فارمولا لکھا گیا ہے اس سے استفادہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی آپ کیلئے واٹر یوز چارجز کے نام پر حاتم طائی کی قبر پر جو لات ماری جاتی ہے اس پر سوال اٹھا سکتے ہیں ۔اس پر میں نے جواب دیا کہ آزاد کشمیر پاکستان کا آئینی حصہ نہ ہونے کے باوجود اگر یہاں واپڈا ڈیم بنا سکتا ہے تو اس کے فوائد میں آزادکشمیر کو حصہ دار بنانے میں یہ آئین منع کیسے کر سکتا ہے؟۔دوسرا اہم مسئلہ میں نے یہ اٹھایا کہ آزاد کشمیر کا یہ پانی اپنی پیداوار کے لحاظ سے سعودی عرب کے تیل سے زیادہ قیمتی ہے۔اس پانی سے پن بجلی کی ہزاروں میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ پیداوار اور اس کی آمدنی کے تقسیم کے طریقہ کار بھی آئین پاکستان درج کر دیا گیا ہے اور آئین کے تحت یہ پراجیکٹس پرائیویٹ سیکٹر میں نہیں دیئے جا سکتے ۔چین جو آزاد کشمیر میں ہائیڈرل سیکٹر میں بطور پرائیویٹ پارٹی آ کر سرمایہ کاری کر رہا ہے لیکن چین میں پرائیویٹ سیکٹر میں ہائیڈل پراجیکٹ لگانے کی اجازت نہیں ہے۔ حتی’ کہ امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا میں ایک ائر پورٹ بیچ کر پرائیویٹ ہائیڈل پراجیکٹ ریاست نے اپنی تحویل میں لینے کیلئے اس کی ادائیگی کی۔ ملکی قدرتی وسائل پر حق ملکیت اور حق استفادہ ریاست کے لوگوں کا بنیادی اجتماعی حق ہے جس سے انہیں محروم نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا آزاد کشمیر میں ہائیڈرل پراجیکٹس کے غیر ملکی کمپنیوں کو جو اجازت نامے دیئے گئے ہیں یہ منسوخ کئے جائیں اور پھر فیڈرل پی پی آئی بی کو کشمیر کونسل نے غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ معائدے کرنے کا جو اختیار دیا ہے یہ غیر قانونی ہے جو آزادکشمیر سپریم کورٹ کے فیصلوں کے نظائر کی بھی خلاف ورزی ہے۔ لہذا واپڈا آئینی شرائط کے ساتھ خود یا آزاد کشمیر حکومت کو بنکوں کے قرضوں کے وسائل مہیا کرے یہ پراجیکٹس 5 سال میں اپنی لاگت پوری کر لیتے ہیں پھر بجلی تقریبا” فری ہو جاتی ہے ۔تاکہ سرکاری سیکٹر میں تعمیر ہو کر سستی بجلی مہیا کر سکیں جو ملکی ترقی کی بنیاد بنے۔ یہ غیر ملکی کمپنیاں یہاں سے اربوں ڈالر لوٹ کر اپنے ملکوں میں لے جائیں گی اور حکومت کی جانب سے ان کے واجبات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے یہ آزاد کشمیر حکومت کو کبھی نہیں مل سکیں گے اور یہ سری لنکا کی ہیمن ٹوٹا بندرگاہ میں چین کی سرمایہ کاری کی عدم ادائیگی کی وجہ سے 99 سال کیلئے جیسے چین نے ہتھیا لی یے یہاں بھی یہ عمل دہرایا جائے گا۔ میٹنگ کے دوران ان باتوں پر فیڈرل حکومت اور واپڈا کے لوگوں نے شدید ردعمل دکھانا شروع کیا تو میں نے کہا کہ جب آپ آزاد کشمیر میں پن بجلی کے پراجیکٹس لگاتے ہیں اس وقت یہ یاد نہیں رہتا کہ آزاد کشمیر آئین پاکستان کا حصہ نہیں ہے لیکن جب ان پراجیٹس سے ہم کوئی اپنا حصہ مانگتے ہیں تو آزاد کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں رہتا اور آئین پاکستان اس میں رکاوٹ بن جاتا ہے؟ واپڈا پر تو آئین پاکستان میں بالوضاحت لکھے گئے احکامات کی پابندی لازمی ہے اور آزاد کشمیر میں اس پابندی سے آپ اپنے آپ کو مثتثنی’ صرف صورت میں کر سکتے ہیں کہ واپڈا اپنے آپ کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے مماثل قرار دے پھر برطانوی ہندوستان کے لوگوں کا یہ حق نہیں رہتا کہ وہ اپنی ریاست کے وسائل پر اپنا حق جتا سکیں-گفتگو کے دوران فیڈرل حکومت کے افسران اور واپڈا کے لوگ اتنی ناراضگی کی حد تک آ گئے کہ وہ چائے تک پیئے بغیر میٹنگ ختم کر کے چلے گئے۔ دوسرے روز میں دفتر پہنچا تو چیف سیکریٹری آزاد کشمیر کی جانب سےایک خط ملا جس کی لب لباب یہ تھا کہ آپ کی حب الوطنی پر شک پڑ گیا ہے۔ لہذا کیوں نہ آپ کے خلاف تادیبی کاروائی عمل میں لائی جائے۔ یہ خط لیکر میں وزیراعظم وقت راجہ فاروق حیدر کے پاس گیا ان سے اسی خط پر حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لیا اور چیف سیکرٹری آفس میں پہنچا دیا۔ اس میٹنگ کے بارے میں آزادکشمیر کے کچھ سینئر صحافی جو اس میٹنگ میں موجود تھے میٹنگ کے بعد کہنے لگے کہ پتہ نہیں آزاد کشمیر کے لوگوں کو یہ حقوق ملتے ہیں یا نہیں لیکن فاروق حیدر صاحب کے اقتدار کے دن تو آج آپ نے پورے کرا دیئے ان صحافیوں کے ذریعہ یہ بھی پتہ چلا کہ فیڈرل حکومت میں یہ سوچ ہے کہ آزاد کشمیر کے کسی سیکریٹری کی اتنی صلاحیت اور ہمت کہاں ہے کہ وہ ایسے مطالبے اور ساتھ ہی ایسی باتیں کرے یہ سب کچھ اسے راجہ فاروق حیدر نے پڑھایا ہے لہذا منگلاڈیم سے حق مانگنے کا اصل مجرم تو راجہ فاروق حیدر ہے۔ چند ہفتوں کے بعد راجہ فاروق حیدر صاحب وزارت عظمی سے فارغ کر دیئے گئے ۔اور نئی حکومت کے آنے کے بعد جو پہلا تبادلہ ہوا وہ بطور سیکرٹری برقیات مجھے اس پوسٹ سے ہٹا دیا گیا۔۔لیکن ان واقعات سے یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ یہاں غداری اور وفاداری کا کیا معیار ہے اور بنیادی شہری حقوق اگر آئین میں بھی لکھے ہوں لیکن بدمعاشیہ کے اس سے مفادات وابستہ ہو جائیں تو یہ حقوق مانگنے والے غدار ٹھہر جاتے ہیں کیونکہ اس وقت منگلا ڈیم کی سستی بجلی پرائیویٹ پاور پروڈیوسر کی انرجی مکس کی لوٹ مار کیلئے بطور مال غنیمت استعمال کرنے کے منصوبے پر تیزی سے عملدرآمد ہو رہا تھا ان پی پی آئیز کے بارے میں صدر پرویز مشرف نے کہا تھا کہ ان کے بجلی کے ریٹ میں امریکی ڈالرکے ایک سینٹ کے اضافہ کرنے کی رشوت ایک ارب روپیہ ہے۔ جس کے نتائج آج پوری قوم بھگت رہی ہے اور بجلی کے بلات پر غریب خودکشیوں پر مجبور ہیں ۔ اس تجربہ سے یہ بھی پتہ چلا کہ پاکستان کے قومی قدرتی وسائل کس طرح خوبصورت اصطلاحات جیسے بیرونی سرمایہ کاری، مقامی روزگار کے مواقع وغیرہ کے فراڈی نام دے کر کیسے لوٹے جاتے ہیں ۔اور بہرحال اللہ پاک کا شکر ہے کہ بطور سیکرٹری برقیات 13 سال قبل نہ صرف اس وقت آزاد کشمیر کے لوگوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھائی بلکہ ایک اخباری مضمون بعنوان۔ ” تاریک پاکستان اور پانی کی بردہ فروشی ” لکھ کر پاکستان کے لوگوں کو بھی بر وقت مطلع کیا تھا کہ ان کے ساتھ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے۔ اور وقت نے آج اسے درست ثابت کیا ہے۔ جب صداوں کا قحط تھا ہر سو ۔ شہر میں ھم تھے جو کہ بولے تھے