پاکستان کے تین بار منتخب ہونے والے سابق وزیراعظم جناب محمد نواز شریف نے برطانوی دارالحکومت، لندن، کے مہنگے ترین علاقے میں اپنے صاحبزادگان کے مہنگے ترین کاروباری دفاتر سے باہر نکلتے ہوئے اگلے روز ایک پاکستانی اخبار نویس کے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا:جی 20کا (عالمی سربراہی )اجلاس آج ہمارے ہمسائے انڈیا میں ہو رہا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان اِس میں شریک نہیں ہے۔ اگر2017 کو ہماری حکومت کا تسلسل برقرار رہتا تو آج جی20 کا اجلاس پاکستان میں ہو رہا ہوتا۔ (ہماری حکومت کا) تسلسل رہتا تو پاکستان جی20 میں شامل ہو چکا ہوتا یا ہونے والا ہوتا۔
نواز شریف نے یہ الفاظ بڑے رسان، افسردگی اور دکھ سے کہے ہیں۔ انہیں اپنی حکومت کے برے اور بیہودہ طریقے سے خاتمے کا دکھ کم ہے مگر اِس بات کا زیادہ رنج ہے کہ ان کے رخصت کیے جانے کے بعد پاکستان (بھارت کے مقابلے میں) بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ نواز شریف کو سیاست اور حکومت کے منظر سے ہٹانے والوں نے جس شخص اور پارٹی کو حکومت بخشی، ان کے پونے چار سالہ دور میں پاکستان زندگی کے ہر شعبے میں ناکام و مراد ہو گیا۔
بھارت میں منعقدہ دو روزہ(9تا10ستمبر( جی 20کا اجلاس ختم ہو چکا ہے۔ دنیا کی20طاقتور ترین معاشی مملکتوں کے سربراہان دہلی میں اپنے سفارتی اور معاشی فرائض ادا کرنے کے بعد واپس اپنے اپنے ممالک جا چکے ہیں۔
اِس زبردست عالمی معاشی و سفارتی میلے کے اثرات مگر ابھی تک بازگشت بن کر بھارت اور دیگر بالادست عالمی ممالک اور میڈیا میں سنائی دے رہے ہیں۔ پاکستان میں جی 20 اجلاس بارے دانستہ تجاہلِ عارفانہ سے کام لیا گیا۔
ہمارے سیاسی و میڈیائی میدانوں میں اِس بارے خاموشی ہی طاری رہی ۔ شاید اس لیے بھی اگر اِس موضوع بارے بحث و تمحیص سامنے آتیں تو لا محالہ بھارت کا نام اور اس کی کامیابیوں کا ذکر بھی ہوتا۔ ساتھ پاکستان کی محرومیوں اور پچھڑ جانے کے تذکرے بھی ہوتے؛ چنانچہ اِن جملہ قباحتوں سے بچنے اور محفوظ رہنے کا آسان اور سہل اسلوب یہی اختیار کیا گیا کہ بھارتی راجدھانی میں منعقدہ جی 20اجلاس کو نظر انداز ہی کیا جائے ۔
مگر جب ساری دنیا کے میڈیا میں تازہ ترین جی20اجلاس، اِس میں طے پائے جانے والے معاہدوں اور ایم او یوز کا تذکرہ ہورہا ہو تو ہماری نظراندازی کا کسی کو کیا نقصان اور خسارہ ہو سکتا ہے؟یہ مگر واقعہ ہے کہ بھارتی راجدھانی میں منعقدہ جی20 سربراہی اجلاس سے ہمیں احساسِ زیاں نے ضرور گھیر رکھا ہے۔
اگرچہ نگران وزیراعظم جناب انوارالحق کاکڑ نے یہ کہا ہے : بھارتی جی20کانفرنس سے ہمارے مفادات کو کوئی نقصان نہیں پہنچ رہا۔ ہم میچور انداز میں اپنے خارجہ تعلقات کو دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے پاس اِس کے علاوہ کوئی اور آپشن بھی نہیں ہے کہ ہم قبلہ انوارالحق کاکڑ صاحب کے میچورڈ انداز پر حق الیقین کر لیں ۔
لیکن اِس احساسِ محرومی اور زک کا کیا کریں جو سعودی ولی عہد اور وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان صاحب کے پاکستان نہ تشریف لانے سے ہمیں پہنچا ہے؟ ہمیں تو باوثوق ذرائع نے یہ یقین دلایا تھا کہ 9اور10ستمبر2023کو دہلی میں منعقدہ جی20کانفرنس میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے شہزادہ محمد بن سلمان صاحب چند گھنٹوں کے لیے پاکستان میں قدم رنجہ فرمائیں گے ۔
شہزادہ حضور مگر پاکستان میں اترنے کی بجائے پاکستان کی فضاوں کو چیرتے ہوئے سیدھے بھارتی دارالحکومت جا اترے ۔
جب تک جی20کا یہ سربراہی اجلاس اور کانفرنس ختم نہیں ہو گئی، راقم بڑی دلچسپی اور غور سے سعودی اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا دیکھتا، سنتا اور پڑھتا رہا ہے۔ خاص طور پر ممتاز ترین سعودی انگریزی اخبار عرب نیوز اور سرکاری سعودی پریس ایجنسی (SPA) ۔ میں یہ ڈھونڈنے کی کوشش میں رہا کہ کہیں تو کوئی خبر نظر سے گزرے کہ شہزادہ محمد بن سلمان صاحب، بھارت جاتے ہوئے، پاکستان میں قیام فرمائیں گے ۔
بسیار کوشش کے باوصف مجھے مگر ایسی کوئی خبر نہیں مل سکی ۔ہمارے میڈیا اور ہماری نگران حکومت پر افسوس ہے جنہوں نے یہ بے پر کی اڑا رکھی تھی کہ سعودی شہزادہ پاکستان تشریف لا رہے ہیں۔ اِس دوران بھارتی میڈیا بار بار یہ کہہ رہا تھا کہ سعودی ولی عہد کا پاکستان اترنے کا کوئی پروگرام ہے ہی نہیں۔ تو کیا بھارتی میڈیا سچا ثابت ہوا ہے ؟ اور پاکستانی میڈیا؟
اب خفت مٹانے، جھنجھلاہٹ دور کرنے اور شکستہ دل پاکستانیوں کو یہ طفل تسلیاں دی جارہی ہیں کہ سعودی طاقتور شہزادہ صاحب جلد ہی پاکستان تشریف لانے والے ہیں بلکہ ان کی مسعود اور مبارک آمد سے پاکستان کو مالی امداد بھی ملنے والی ہے ( ہائے ہر غیر ملکی شخصیت کی آمد پر امداد کے لیے ہماری بلند توقعات) مثال کے طور پر 12ستمبر کو نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا: محمد بن سلمان لمبے دورانیے کے لیے پاکستان آئیں گے۔ نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا: محمد بن سلمان جلد پاکستان کا دورہ کریں گے۔ ان کے دورے میں متعدد ڈیلز فائنل ہونے کی توقع ہے۔
حضرت مولانا طاہر اشرفی نے ارشاد فرمایا: سعودی ولی عہد محمد بن سلمان جلد پاکستان آئیں گے۔ احساسِ کمتری کا شکار طبقہ منفی پروپیگنڈہ سے باز رہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ سعودی میڈیا میں شہزادہ MBS کے جلد دورہ پاکستان کی کوئی خبر سامنے نہیں آ رہی۔
لاریب جی 20اجلاس کی کامیابی اور اس اجلاس میں شریک ہونے کے لیے بھارت جاتے ہوئے شہزادہ محمد بن سلمان صاحب کے پاکستان تشریف نہ لانے سے ہم احساسِ کمتری کا تو شکار ہوئے ہیں۔ اگرچہ اِس میں شہزادے کا کوئی قصور ہے نہ سعودی عرب کا۔ سعودیہ کی جانب سے تو اِس بارے کوئی باقاعدہ اعلان ہوا نہ کوئی پروگرام جاری ہوا تھا۔ ہم نے اپنے گھر میں خواہ مخواہ کی کھچڑی خود ہی پکا رکھی تھی۔
سعودی عرب ایک طاقتور معاشی طاقت ہے۔ اس کے ولی عہد کو جی20کے اجلاس میں شریک ہونا ہی تھا۔ دہلی میں ان کا زبردست استقبال ہوا۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ 50 اہم معاہدوں پر دستخط بھی کیے ہیں کہ سعودیہ کو اپنا مفاد اولی اور عزیز ہے۔
افسوس تو یہ ہے کہ چند قدموں کے فاصلے پر واقع بھارت سے ہمارے تجارتی، سفارتی اور معاشی تعلقات تو استوار نہ ہو سکے لیکن سمندر پار بیٹھے سعودی عرب نے بھارت سے برادرانہ، تجارتی اور سفارتی تعلقات مضبوط تر کر لیے ہیں۔ سعودی میڈیا اِس پر فخر و انبساط بھی کررہا ہے۔
حالیہ ایام میں ان تعلقات کو مضبوط تر کرنے کے لیے بھارت میں متعین سعودی سفیر(صالح عید الحسینی) اور سعودی عرب میں متعین بھارتی سفیر (سہیل اعجاز خان) نے اساسی کردار ادا کیا ہے اور خاص بات یہ ہے کہ نئی دہلی میں موجودگی کے دوران، مختلف النوع معاہدوں پر دستخط کرتے ہوئے، محمد بن سلمان نے یہ تاریخی الفاظ ادا کیے : بھارت ہمارا دوست ملک ہے۔ ہمارے تعلقات کا ڈی این اے ایک ہی ہے۔ پچھلے70برسوں کے دوران بھارتیوں نے سعودی عرب کی تعمیر میں شاندارکردار ادا کیا ہے۔
(بمطابق عرب نیوز11ستمبر) ہمیں دکھ اور افسوس اِس بات کا ہے کہ جی20کے اِس تازہ ترین اجلاس میں(جہاں متعدد اسلامی ممالک کے سربراہان بھی شریک ہوئے) کسی نے بھول کر بھی مظلوم کشمیریوں اور مقہور فلسطینیوں کا ذکر تک نہ کیا ۔ ہم نے بحثیتِ مجموعی ایک زریں موقع ضایع کر دیا۔ کیا یہ پاکستان کی سفارتی ناکامی نہیں ہے؟
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس