اس کو کہتے ہیں عالم آرائی : تحریر کشور ناہید


محمود غزنوی نے ہندوستان پر 17حملے کئے تھے۔ ہم نے پاکستان میں کم از کم اتنی ہی حکومتیں بدلی ہیں۔ ستم کی بات نہیں، لطف کی بات یہ ہے کہ ہر حکومت کے عارضی یا باقاعدہ رہنے کے دوران میڈیا کے سارے رخ پر تعریفوں کےوہ پل باندھے جاتے ہیں کہ قیامت کے فتنے بھی کم نظر آنے لگتے ہیں۔ اور پھر کالم لکھنے والوں سے لے کر آنے والے نئے لوگ چاہے عارضی ہوں، وہ جانے والوں کے بخیے ادھیڑتے ہیں کہ الااماں والحفیظ۔ یہ ترکیب تعارف اور الوداعی، ہمیشہ یہ کہتی ہے کہ جانے والے سخت بددیانت، گمراہ، بدچلن اور شادیاں کرنے میں ارفع، دولت جمع کرنے میں قارون سے چار ہاتھ آگے، وطن کے لئے فیتے کاٹتے اور یہ اعلان کرتے رخصت کردیئے جاتے ہیں کہ ’’میں تو آپ کے لئے آٹا اور روٹی دلانے کے لئے اپنے بدن کے کپڑے تک نچھاور کردوں گا‘‘۔

یہ ترکیب استعمال قیام پاکستان سے لے کر اب تک نام و نسب بدل کر ایسے جاری ہے کہ کوٹھیاں، محل، فیکٹریاں اور مربع کے مربع، ان کے نام کے نکلے جو کہتے رہے ہمارے تو پودینے کے باغ تھے۔ یہ باقاعدہ ایک محکمہ تھا جو اب تک قائم اور اسلام آباد میں تو آٹھ منزلہ عمارت سے ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں ابھی تک متروکہ املاک ہیں۔ سچ بھی ہے جب ہی تو ہر حکومت میں متروکہ املاک کا سربراہ، چاہے کسی جماعت کا ہو، جیل کے کھانے کا ذائقہ سال دو سال تک کھا کے نکلتا ہے۔ پھر سارے جیل سے نکلنے والے خود کو سیاست دان کہتے ہوئے میدان عمل میں سبق پھر پڑھ کر، اپنے جیل بھگتنے کے عمل کو دوسرے ملکوں میں بچوں، بیویوں اور بزنس پہ پردہ ڈالنے کے لئے ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتےہو یہ ورد زبان پر ہوتا ہے۔۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان سارے سیاست دانوں کو اچھے، پڑھے لکھے ’’غنچے‘‘ بھی نہیں ملتے۔ سارے پرانے وعدے سارے اوچھے خواب اور منصوبوں کو اس یکسانیت کے ساتھ دہراتے ہیں کہ کمپوزر سے لے کر خبریں پڑھنے والے تک دہراتے ہوئے، خود ہی شرمسار لگنے لگتے ہیں۔

مگر اشتہار بنانے اور چھپوانےکی روایت بھی اتنی ہی پرانی ہے۔ آپ کے ملک میں آبادی بے تحاشہ اس لئے بڑھ رہی ہے کہ نوجوانوں کی دلچسپی کا سامان ایک ایک کرکے مذہب کے نام پر قربان کردیا گیا۔ اب یہ تو ہونے سے رہا کہ ہر روز ٹی وی اور اخباروں میں چھوٹے خاندان کے اشتہار دیکھ کر اور پڑھ کر سب لوگ عمل بھی کرنے لگیں۔ جو پیسے اشتہاروں پر ضائع کرتے ہو، وہ ان نوبیاہتا لوگوں کو خوشگوار ماحول پیدا کرکے، نوجوان ہی شادی کرنے والے لڑکے لڑکیوں کو سمجھائیں، دائیوں، نرسوں اور پیرامیڈکس کو بھی اعزازیہ دے کر شامل کریں اور مسلسل تلقین کرنے کے لئے، امداد کرنے والوں کو ایسے انعامات دیئے جائیں کہ سانپ بھی مر جائے، لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ اشتہاروں نے ہی تو پاکستان کی حیثیت کو ڈبویا ہے۔ عمران کے زمانے میں کس قدر اشتہار تھے اور پھر سندھ حکومت نے قومی اخبارات کے صفحے در صفحے اتنے بھر دیئے تھے کہ اب تو اخبار خریدنا، بالکل جہالت لگتا ہے۔ پہلے سے آخری صفحے تک آدھا یا پورا صفحہ اور پھر اندر جائیدادوں کی فروخت اور 70سالہ مضبوط بدن کے شخص کو ایک نازک دوشیزہ درکار ہوتی ہے۔

ہم نے 76سال میں ہر نصاب میں پڑھا ہے کہ پاکستان مسلمانوں نے مسلمانوں کے لئے بنایا تھا۔ قائداعظم نے جو پہلے اور 11اگست کو جوبھی کہا، وہ پہلے تو غائب کیا گیا، جیسے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذکر مفقود کیا گیا، جیسے طالبان کو دوست سمجھا گیا۔ ہم سعودی فنڈنگ پہ مبارکبادیں لے رہے ہیں۔ اب ایک طرف ہم ججز کو بلاسود قرضوں کی سبیل کھول رہے ہیں، دوسری طرف بجلی، پانی، آٹا اور چینی میں نسلوں کی نسلیں جائیدادیں بنا کر گھروں پر ماشاء اللہ اور فضل ربی لکھ کر، بیویوں کو رازدار بنا کر، تکیوں میں نوٹوں کو رکھنے کے ہنر سکھا کر نماز پڑھنے کی تاکید کرتے ہیں۔ بچیاں زیادتی کے بعد اجڑتی رہیں اور ایک بھی چاند دیکھنے والوں میں سے، اس زیادتی کے خلاف نہ بولے۔ اب یہ سن کر ہنسی نہ آئے کہ رشوت خوروں پہ گھیرا تنگ کردیا گیا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر پاکستان میں سوائے غریبوں کے کوئی بچے گا ہی نہیں۔ جج ڈیم بناتے رہے، افسر اور جرنیل ویزے لگواتے اور دہری شہریت اس لئے رکھی کہ شاید کسی وقت پھر موقع ملے اور ٹکا ٹک کھانے کو جی کرے تو ایک پھیرا کافی ہے۔

غریب ملک کے احوال کے بعد G-20کانفرنس کا ذکر بھی ہو جائے کہ جہاں 6بوئنگ طیارے اور ٹرپل سیکورٹی میں میرے جیسا بوڑھا جوبائیڈن اور اپنی استاد سے شادی کرنے والا فرانسیسی صدر، یہ جانتے ہوئے بھی کہ کشمیریوں اور منی پور کے ساتھ ہونے والے مظالم پر سوائے ارن دھتی رائے کے، یہ 20ممالک معیشت بہتر بنانے کا سوچ رہے ہیں جبکہ ارن دھتی رائے کے مطابق یہ سب ممالک روس اور چین کے مقابل، فاشزم کو فروغ دینے کو اکٹھے ہوئے ہیں۔ طوطے توپ چلا رہے ہیں۔ 20ملکوں کا متفقہ علانیہ صرف یوکرین جنگ بندی کے حوالے سے ہے، جبکہ کیلی فورنیا میں قانون پاس ہوا ہے کہ کسی قسم کا نسلی تضاد برتا نہیں جائے گا۔ ہندوستان وہ ملک ہے جہاں نفرت کلاس رومز سے مذہبی درسگاہوں تک میں بی جے پی نے شدت سے پھیلائی ہے۔ ویسے ہمارے ہاںبھی نفرت کی فصل پکنے کے بعد، نگران حکومت اور چیف صاحب کہہ رہے ہیں کہ سارے مذہب برابر ہیں، توقیر کریں۔میں کاکڑ صاحب سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ آپ نے جو پنج سالہ منصوبہ بنانے کا اعلان کیا، اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ اس منصوبے کو آپ ہی مکمل کریں گے، یہ خوش فہمی ہے کہ اشارۂ خوش بختی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ