استحکامِ پاکستان : تحریر حفیظ اللہ نیازی


استحکامِ پاکستان، سیاسی پارٹی میں نہیں، آئینِ پاکستان سے جڑا ہے۔ آئینِ پاکستان کا وجود جمہوریت کے مرہون منت جبکہ آئین اور جمہوریت لازم و ملزوم ہیں ۔ جمہوریت کی تعریف ایک ہی، “ایسا نظام جہاں حکومت سازی، فیصلہ سازی ، قانون سازی کا آخری اختیار ایسے لوگوں کے پاس ہو جسے خلقِ خدامنتخب کرے” ۔ نظام عملاخلقِ خدا کی پہنچ سے دور ہو چکا ہے۔آج وطنی استحکام ایک بار پھر دوراہے پرہے۔ کیا عدم استحکام، مستحکم ہو چکا ہے؟ جمہوریت ہی نے تو استحکام دینا ہے ۔ کیا جمہوریت پٹری سے اتر چکی ہے ؟ بظاہر چند ماہ کی تاخیر کے باوجود، انتخابات کرانے کے لئے خلوص اور عزم صمیم بھر پور موجود، کیا چھ ماہ بعد الیکشن کروانا ممکن بھی ہو گا ؟ کوئی سیاسی عالم بھی سیاست خصوصا پاکستانی سیاست کے بارے میں حتمی رائے دینے سے قاصر ہے ۔ آج کی رائے کی بنتی آج کے زمینی حقائق پر، زمینی حقائق تبدیل تو نتائج کا تبدیل ہونا یقینی ہے۔ حالات کا جبر بھی صائب فیصلوں سے محروم اور غلط فیصلوں پر مجبوررکھتا ہے۔ غیر جمہوری فیصلے بحالتِ مجبوری گلے بھی پڑ جاتے ہیں۔ بحالتِ مجبوری آج سیاسی امن عامہ، اقتصادی، سفارتی فیصلہ سازی کا سارا دارومدار اور انحصار ہماری فوجی قیادت کے سر پر،اس لئے نہیں کہ ملک عسکری قبضہ میں ہے۔ یقینا ناگوار فریضہ آج کی قیادت کے زبردستی گلے پڑ گیا، کلی ذمہ دار عمران خان ہے۔ ملک میں جب بھی ایسے حالات بنے، صلاح مشورہ کے نظام کا انحصار فرد واحد یا پھر غیر منتخب یا نوکری پیشہ ماتحت افراد پرآ جاتا ہے ۔ فیصلہ سازی میں عوامی رائے قریب نہیں بھٹکتی۔ مشرقی پاکستان میں سیاسی استحکام کے لئے جنوری فروری 1971 میں” آپریشن “BLITZ کا فیصلہ ہوا تو وہاں پر موجود ملٹری ماتحتوں نے جنرل یحیی خان کو ایسا آپریشن کرنے سے روکا ۔ میجر جنرل خادم راجہ اپنی کتاب

“A STRANGER IN MY OWN COUNTRY”

میں رقمطراز ” جب یحیی خان نے آپریشن کے لئے ذہن بنا لیا تو لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب ( کمانڈر ایسٹرن کمانڈ ) متفق نہ تھے ، چنانچہ مستعفی ہو نے کو ترجیح دی ۔ ان کے نزدیک سیاسی بحران کا حل طاقت نہیںتھا ۔ رائے عامہ کو طاقت کے ذریعے مرعوب کرنا تباہی کا محفوظ راستہ رہنا تھا ۔ ملکی سالمیت داؤ پر لگنی تھی ” ۔ مزید لکھا ، ” جنرل یعقوب کی رائے سے جنرل راو فرمان علی اور میں پوری طرح متفق تھے۔ میں نے بھی مستعفی ہونے کا اذن دیا تو جنرل یعقوب نے اسکو فوجی نظم کیخلاف کہہ کر مجھے اپنا کام جاری رکھنے کی تاکید کی”۔ ماضی کے تجربات ، جمہوریت جب بھی پٹری سے اتری، ملک سیاسی استحکام سے محروم ہو گیا۔ جمہوریت پر شب خون مارنے والوں کی پہلی ترجیح سیاسی استحکام کی تلاش کی جستجو ہی بنی۔

ایوب خان کی بنیادی جمہوریت ہویا جنرل یحیی کے 1971 کا” الیکشن پلس” فارمولا یا جنرل ضیا الحق کا غیر جماعتی الیکشن یا پھر جنرل مشرف کی ق لیگ یا پھر جنرل باجوہ کا RTS الیکشن بمع پروجیکٹ عمران کا وجود، ہر موقع پر خلوصِ دل سیگم شدہ سیاسی استحکام کو تلاش کیا گیا ۔ میرا ڈر اتنا کہ آج بھی پہلی ترجیح الیکشن نہیں ہے، آج بھی پہلی ترجیح سیاسی استحکام کی تلاش ہے ۔ تکرار کیساتھ کہ آج کے حالات کی ذمہ داری آج کی قیادت پر نہیں،جنرل عاصم منیر بے قصور اور مجبور کہ عمران خان نے انکے لئے کوئی چوائس چھوڑی نہیں ۔ ایک نئی تعیناتی کو بغیر وجہ کے آڑے ہاتھوں لیا، پورے ادارے کو بے توقیر کرنے میں دن رات لگایا۔ جہاں عمران خان اپنے سیاسی مستقبل کا گلا گھونٹ گیا ، وہاں بہ امر مجبوری سیاسی انجینئرنگ سے وجود میں آنے والا پروجیکٹ عمران خان کی سیاسی ریورس انجینئرنگ اسٹیبلشمنٹ کی پہلی ترجیح بن گئی۔ برصغیر کے سارے ممالک کی سیاست یکساں، مقبولیت کا زعم ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی سے نہ بچا سکا۔ تازہ بہ تازہ میانمار ( برما ) سحر انگیز کرشماتی نوبل انعام یافتہ 80 سالہ لیڈر آنگ سان سوچی زور زبردستی اقتدار سے جب محروم ہوئیں تو مقبولیت آسمان پر تھی ۔ آخری خبریں آنے تک انواع و اقسام کے مقدمات میں 27 سال سزا جیل بھگت رہی ہے۔ عمران خان نے بھی سارے جھگڑے مقبولیت کے زعم میں مول لے لئے ۔71 سالہ عمران خان کو اپنی مقبولیت کا زعم کہاں پہنچائے گا ، یہ فیصلہ ان کو خود کرنا ہے۔ عمران خان کا مکو ٹھپ کر ہی سیاسی استحکام ملے گا اور الیکشن ممکن ہوں گے ۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کی دوسری ترجیح انتخابات اور پھر مضبوط سیاسی حکومت کا قیام ہے ۔ جوں جوں اتحادی حکومت کا دمِ رخصت کے قریب آیا، اسٹیبلشمنٹ کی سوچ میں وزیراعظم کے لئے نواز شریف کا نام ہی جچا ہوگا۔ زرداری صاحب بھی حالات کو بھانپ کر بلاول کامستقبل سنوارنے کا موقع جانچ چکے تھے۔ اتحادی حکومت کے آخری چند ماہ، خصوصا 9 مئی کے بعد زرداری صاحب کا گما ںاغلب ، بلاول زرداری کے وزیراعظم بننے کے قوی امکانات موجود ہیں۔عمران خان سے توبہ تائب اراکین اسمبلی جوق در جوق جب بے روزگار ہو رہے تھے۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن کے پاس ان کو سمونے کی گنجائش صفر بٹہ صفر تھی۔ زرداری صاحب کی سوچ ، 50/60نشستیں سندھ سے، موافق حالات میں 15/20 پنجاب اور کم و بیش اتنی ہی KP اور بلوچستان سے، 100\110 سیٹوں کیساتھ اکثریتی پارٹی بننے کا امکان روشن اور مطالبہ جائز ،وزیراعظم بلاول ۔ یقین کامل ، اسٹیبلشمنٹ کے وارے میں نہیں تھا۔ فوری طور پر تحریک انصاف چھوڑنے والوں کے لئے جائے اماں” استحکام پاکستان پارٹی” کا بندوبست کرنا بنتا تھا ۔ قطع نظر استحکام پارٹی نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ذہنوں میں کیا خدشات ڈالے۔ استحکام پاکستان پارٹی بطورپریشر گروپ ہی اسٹیبلشمنٹ کے ذہن میں تھی ۔اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک 15 نشستیں استحکام پارٹی کوجبکہ ایم کیو ایم، باپ، GDA کے حصہ میں بھی اتنی ہی آتیں۔ آزاد ملا کر اسٹیبلشمنٹ کے رحم و کرم پر 60/70 نشستیں، جو ان کے مطابق مستحکم سیاسی حکومت بنانے کا ایک کارآمد فارمولا رہنا ہے۔ یہ سب کچھ تب ہی ممکن تھا جب زمینی حقائق اِسکے مطابق تھے ۔ یقینا کوئی کمی بیشی ہوئی کہ چند مہینوں میں ہی آج استحکام پاکستان شکایت کنندہ بن کر سامنے ہے۔ اندرون خانہ شاکی کہ ” ہمارے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے ” ۔ اگرچہ اسٹیبلشمنٹ اب تک اپنے ڈرائنگ بورڈ پر کچھ تبدیلیاں متعارف کروا چکی ہو گی،چھ ماہ بعد رونما ہونیوالی تبدیلیاں اوراسکا اندازہ لگانا ان کے لئے آج بھی مشکل رہنا ہے ۔

میرا واہمہ کہ چاہتے ہوئے بھی شاید الیکشن نہیں کرا پائیں گے ۔ اگر الیکشن فروری سے چند ماہ آگے گئے تو پھر آئین کو ساقط ہی سمجھیں ۔ہمارا ماضی گواہ کہ اگر الیکشن ابھی نہیں تو پھر کبھی نہیں ۔ الیکشن سے پہلے جو سیاسی استحکام چاہئے اس کی جستجو میں یقینا نیا بحران جنم لے گا۔ نئے بحران کے جلو میں مزید کئی نئے بحران مملکت کو اپنی گرفت میں لینے کوبے تاب۔جمہوری نظام کی غیر موجودگی میں، نبٹنے کی استعداد اور صلاحیت بھی لا موجود۔ کیا سیاسی استحکام کے حصول میں استحکامِ پاکستان پھر خطرے میں گِھر چکا ہے ؟

بشکریہ روزنامہ جنگ