بدلتی دنیا سے بے خبری ۔۔۔تحریر حسین حقانی


گزشتہ تین عشروں سے پاکستانی اپنے ہمسائے میں جہاد اور اپنے وطن میں اقتدار کی نہ ختم ہونیوالی جنگ میں مصروف رہے ہیں۔ اسکے نتیجے میں پاکستان کا قومی تفکر اُن تبدیلیوں کو سمجھنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکا جو سرد جنگ کے بعد دنیا میں آئی ہیں۔ سرد جنگ دسمبر 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام کیساتھ تمام ہوئی تھی۔ اقوام عالم کو ابھی تک کسی نہ کسی کشمکش کا سامنا ہے لیکن ایک دوسرے کو دشمن سمجھنے والے ممالک کے درمیان بھی تعاون پروان چڑھ رہا ہے۔ پاکستان کے رہنما ئوں نے نئے عالمی حالات کے دھارے کیساتھ چلنے کے مواقع تواتر سے کھو دیے ، بلکہ اس کے لئے خود کو تیار تک نہ کیا۔ پاکستان 1950ء سے لیکر 1980ء کی دہائیوں تک امریکی حلیف رہا ہے۔ اسے یک قطبی دنیا میں فائدہ اٹھانا چاہئے تھا جب عالمی معاملات میں امریکہ غالب حیثیت رکھتا تھا۔ اس کی بجائے انڈیا کے حوالے سے منفی سوچ، جو آزادی کے بعد سے ہمارے ڈی این اے میں شامل رہی ہے، میں امریکہ مخالف جذبات شامل کرنیکی حماقت بھی کی گئی۔ اس دوران چین، جسے پاکستانی اچھے برے حالات میں دوست سمجھتے ہیں، نے تمام تر تنازعات کو نظر انداز کرتے ہوئے اقتصادی توسیع کی پالیسی اپنا لی۔ چین کو مغرب سے سرمایہ کاری ملی اور وہ اسکا تجارتی شراکت دار بن گیا۔ اگرچہ 1949ء کے بعد چار دہائیوں تک چین امریکہ کو ’’جارحانہ استعماری طاقت‘‘قرار د یکر اسکی مذمت کرتا رہا لیکن 1990ء کے بعد سے اس نے اپنے جذباتی بیانیے کو پس پشت ڈال دیا۔ 2022ء میں امریکہ اور چین کی تجارت کا حجم 690بلین ڈالر تک پہنچ گیا ۔ چین کی 1962ء میں انڈیا کے ساتھ جنگ ہوئی۔ اسکے بعد ان دونوں کے درمیان اعتماد کی فضا کبھی پروان نہ چڑھ سکی۔ تاہم سرحدی تنازع اور عدم اعتماد کو دونوں ممالک نے اپنی تجارتی سرگرمیوں پراثر اندازہونے کی اجازت نہیں دی۔ گزشتہ برس انڈیا اور چین کے درمیان دوطرفہ تجارت 136 بلین ڈالر تک پہنچ گئی۔ امریکہ سے لیکر چین اور انڈیا تک، یہی مشترکہ پالیسی جاری ہے۔ یہ پالیسی سیکورٹی امور کو ایک طرف رکھتے ہوئے معاشی نمو کیلئے درکار تعلق جوڑتی ہے۔ دسمبر 1996ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے صدر جیانگ زیمن (Jiang Zemin) نے کہا کہ اقوام کو ’’معمولی اختلافات ایک طرف رکھتے ہوئے اہم امور پر اشتراک عمل کی راہ تلاش کرنی چاہئے۔‘‘ مشورہ دیتے ہوئے ، جو پاکستان کے رہنمائوں نے نظرانداز کردیا ، اُنکا کہنا تھا، ’’اگر کچھ مسائل کا حل موجود نہیں تو اُنھیں فی الحال سرد خانے میں رکھ دیں تا کہ وہ ریاستوں کے معمول کے تعلقات پر اثر انداز نہ ہوں۔‘‘ اس وقت چین کی قیادت شی جن پنگ کے پاس ہے۔ وہ عالمی نظام کو اپنی خواہش کے مطابق ڈھالنے کی کوشش میں ہیں۔ لیکن چینی رہنما یہ ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی نہیں کرسکتے تھے اگر اُنکی معیشت گزشتہ کئی برسوں کے دوران مغربی تعاون سے مضبوط نہ ہوچکی ہوتی۔ نیز چین اور مغرب کے مشترکہ مالی مفادات دونوں طرف کے سخت گیر نظریات رکھنے والوں کو کنٹرول میں رکھتے ہیں، اور یہ عالمی امن کیلئے کوئی بری بات نہیں ۔

عملیت پسندی کی بہت سی اور بھی مثالیں ہیں جن سے ہم سبق لے سکتے ہیں ۔ 1971ء میں اپنی آزادی کے وقت سے متحدہ عرب امارات فلسطینیوں کے حقوق کا طاقتور حامی اور اسرائیل کی پالیسیوں کا ناقد رہا ہے۔ لیکن 2020 ء میں امارات نے عربوں اور یہودی ریاست کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے لئے ’’ابراہم امن معاہدے‘‘ کی قیادت کی۔ امید کی جانی چاہئے کہ اس سے فلسطینی مسلے کا بھی حل نکل آئیگا۔ اب دونوں ممالک ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ اسرائیل کیلئے امارات کے سرمائے، جبکہ امارات کیلئے اسرائیل کی ٹیکنالوجی کے راستے کھل گئے ہیں۔ عرب امارات کوعالمی تعلقات کے ماہرین ایک ’’درمیانی درجے کی طاقت‘‘قرار دیتے ہیں ۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے مطابق ’’ایک ریاست جو عالمی طاقت ، جو دیگر ریاستوں پر اثر انداز ہوسکتی ہے، سے طاقت اور اثرورسوخ میں کم ہوتی ہے لیکن عالمی سطح پر رونما ہونیوالے واقعات پر اثر انداز ہونے کی سکت ضرور رکھتی ہے ۔‘‘پاکستان بھی ایک درمیانی درجے کی قوت ہے ۔

اعدادوشمار کی بجائے شاعری، اورحقائق کی بجائے حکایات اور مفروضات کی دنیا بسانے والے پاکستان کے فکری رہنما ئوں اور پالیسی سازوں نے قوم کو عظمت کی خوش فہمی میں مبتلا کیے رکھا ۔ پاکستان نے 1998 ء میں ایٹمی دھماکوں کے فوراً بعد فائبرگلاس سے پہاڑیوں، جہاں دھماکے کئے گئے تھے اور ایٹمی میزائل کے ماڈل بنائے۔ آج بھی سوشل میڈیا پر پاکستان بطور ایک عالمی طاقت کی میمزجا بجا مل جاتی ہیں ۔ افغانستان کو امریکی، اور کشمیر کو بھارتی قبضے سے آزاد کرانا مقبول عام موضوعات ہیں۔ جس دوران پاکستانی ایک دوسرے سے اختیار اور نظریات کی جنگ میں پوری استقامت سے مصروف ہیں ، دنیا اپنی راہ پر گامزن ہے۔ ایک بحران زدہ ریاست ( جیسا کہ پاکستان کو کہا جاتا ہے) اور ترقی کرنیوالے ممالک کے درمیان تعلیم یافتہ افرادی قوت،افراد اور ملک کیلئے دولت کی پیداوار اور عالمی تبدیلیوں کا فہم رکھنے اور اُن کے مطابق خود کو ڈھالنے والی قیادت کا فرق ہوتاہے ۔ سردست پاکستان کے پاس ان میں سے کچھ بھی نہیں ۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی شرح خواندگی صرف 18فیصد تھی۔ آج بنگلہ دیش 80فیصد شرح خواندگی رکھتا ہے۔ رواں سال کے آخر تک اسکا جی ڈی پی 485ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔ 1971ء میں مغربی پاکستان کی شرح خواندگی 22فیصد تھی۔ گزشتہ باون برسوں میں یہ صرف 59فیصد تک پہنچی ہے۔ اس وقت پاکستان کی آبادی 240 ملین اور جی ڈی پی 341بلین ڈالر ہے۔ اسکا موازنہ اسرائیل کے جی ڈی پی سے کریں جو 564 بلین ڈالر ہے جبکہ اسکی آبادی دس ملین سے بھی کم ہے ۔ متحدہ عرب امارات کا جی ڈی پی 698بلین ڈالر اور آبادی ساڑھے نو ملین نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ متحدہ عرب امارات تیل برآمدکرتا ہے، اسرائیل تیل برآمد نہیں کرتا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ