نئے چیف جسٹس اور پرانے چیلنج : تحریر حامد میر


سابق وزیراعظم نواز شریف کی پاکستان واپسی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔پہلے وہ ستمبر 2023ء میں واپس آنا چاہتے تھے لیکن اب 21اکتوبر ان کی واپسی کی تاریخ قرار پائی ہے ۔عام خیال یہ ہے کہ نواز شریف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد وطن واپسی کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ان کیساتھ وہ نہ ہو جو 2018ء میں ہوا تھا۔ 2018ء کے الیکشن سے کچھ دن قبل نواز شریف لندن سے واپس آئے تو انہیں گرفتار کرکے جیل پہنچا دیا گیا تھا ۔ مسلم لیگ ن کے قانونی ماہرین کا خیال ہے نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے نواز شریف کو جیل بھجوانے پر اصرار نہیں کیا جائیگا۔ قاضی فائز عیسیٰ سے ہر کسی کو اپنے اپنے مطلب کی امیدیں وابستہ ہیں۔ مسلم لیگ ن کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف نااہلی کا ریفرنس فائل کیا تھا۔ انکے خیال میں قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس بن کر تحریک انصاف سے انتقام لیں گے اور مسلم لیگ ن کو بہت فائدہ پہنچائیں گے ۔دوسری طرف تحریک انصاف والوں کو قاضی فائز عیسیٰ کی ذات میں اچانک ایک بااصول جج نظر آنے لگا ہے اور ان کے خیال میں قاضی صاحب چیف جسٹس بن کر پاکستان میں آئین و قانون کی بالادستی قائم کرینگے۔ پہلے بھی کئی مرتبہ عرض کر چکا ہوں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ہر حکومت ناراض ہو جاتی ہے۔بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ انہوں نے سپریم کورٹ کے حکم پر میموگیٹ انکوائری رپورٹ لکھی تو 2012ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت ان سے ناراض ہوگئی۔ 2016ء میں کوئٹہ میں ایک بم دھماکے میں 75 افراد شہید ہوگئے اس دھماکے کی انکوائری رپورٹ پر مسلم لیگ ن کی حکومت ناراض ہو گئی اور اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف پریس کانفرنس میں انتہائی قابل اعتراض زبان استعمال کی۔2019ء میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ لکھا تو تحریک انصاف کی حکومت ناراض ہوگئی اور پھر صدر عارف علوی کے ذریعہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف نااہلی کا ریفرنس دائر کیا گیا۔ اب وہی صدر عارف علوی اپنے دل پر پتھر رکھ کر قاضی فائز عیسیٰ سے نئے چیف جسٹس کا حلف لیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ ان کا دل نہ مانے وہ بیمار پڑ جائیں اور انکی جگہ چیئرمین سینٹ کو قاضی فائز عیسیٰ سے حلف لینا پڑے۔ بہرحال چیف جسٹس بننے کے بعد قاضی فائز عیسیٰ کے لئے سب سے بڑا چیلنج آئین و قانون کی بالادستی قائم کرنا ہوگا۔ عمران خان کی حکومت نے قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ جو کیا اسکی مذمت تو ہم نے اس وقت کی جب خان صاحب وزیر اعظم تھے ۔ابھی قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس فائل نہیں ہوا تھا اور میں نے اس کالم میں لکھا تھا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سازش شروع ہوگئی ہے ۔عمران خان نے مجھے وزیراعظم ہاؤس میں بلایا اور یقین دلایا کہ وہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کچھ نہیں کریں گے لیکن چند روز کے بعد ریفرنس فائل کردیا۔ اس ریفرنس کا اصل مقصد فیض آباد دھرنا کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد روکنا تھا۔ اگر فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عملدرآمد ہو جاتا تو وہ نہ ہوتا جو آج پاکستان میں ہو رہا ہے ۔آج آئی جی اور ڈی سی صاحبان نے عدالتی فیصلوں کو مذاق بنا دیا ہے۔

عمران خان کچھ خفیہ اداروں کے آلہ کار بن کر قاضی فائز عیسیٰ کو نااہلی کے ریفرنس میں نہ الجھاتے تو آج اٹک جیل میں نہ ہوتے۔ نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو فیض آباد دھرنا کیس میں اپنے فیصلے پر عملدرآمد کرانا ہوگا تاکہ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی قائم ہو۔ فیض آباد دھرنا کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک مذہبی گروہ کی طرف سے راولپنڈی کے فیض آباد چوک میں غیرقانونی دھرنے، ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کے معاملے میں کچھ سیاست دانوں اور ریاستی اداروں کے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کی نشاندہی کرتے ہوئے قانون کی بالا دستی قائم کرنے پر زور دیا تھا۔ اس عدالتی فیصلے میں شیخ رشید احمد اور اعجاز الحق کے علاوہ تحریک انصاف کی طرف سے ہنگامہ آرائی کرنے والوں کی حمایت کو غیر ذمہ دار قرار دیا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ آئی ایس آئی کو سیاست میں مداخلت بند کرنی چاہئے ۔ڈی جی آئی ایس پی آر کو سیاسی بیانات سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ سیاست میں مداخلت سے مسلح افراد کا وقار مجروح ہوتا ہے ۔اسی عدالتی فیصلے میں بڑے واضح الفاظ میں کہا گیا کہ خفیہ یا علانیہ سنسر شپ غیر آئینی ہے ، کوئی حکومتی ادارہ یا انٹیلی جینس ایجنسی آزادی اظہار پر پابندیاں نہیں لگا سکتی ۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ پیمرا جیو اور ڈان ٹی وی کو تحفظ دینے میں ناکام رہا ۔ان چینلز کو ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ ایریاز میں زبردستی بند کیا گیا۔عدالتی فیصلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کوبھی یاد دلایا گیا کہ اس نے جن سیاسی جماعتوں کو رجسٹر کر رکھا ہے ان سے انکی آمدنی کے ذرائع پوچھنا بھی اسکی ذمہ داری ہے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ فیض آباد دھرنا کیس میں ہنگامہ کرنے والے گروہ اور حکومت کے درمیان ایک معاہدہ ہوا اور اس تحریری معاہدے کے ضامن میجر جنرل فیض حمید تھے ۔قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ حکومت ایسے فوجی افسران کے خلاف کارروائی کرے جنہوں نے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیکر اپنے حلف کی خلاف ورزی کی۔اس فیصلے کے خلاف تحریک انصاف نے نظرثانی کی اپیل دائر کر دی تھی اور بعد میں جنر ل فیض حمید کو آئی ایس آئی کا سربراہ بنا کر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی گئیں۔ جنرل فیض حمید نہ صرف اصغر خان کیس بلکہ فیض آباد دھرنا کیس میں بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے رہے ۔وہ ایک سیاسی پلیئر بن کر سیاسی جوڑ توڑ کرتے رہے اور اعلیٰ عدلیہ میں من پسند ججوں کی تقرری میں بھی اہم کردار ادا کرتے رہے۔ انہوں نے ایک صحافی کو بڑے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ وہ کم از کم تیس سال تک اقتدار میں رہیں گے۔ جنرل فیض نے جنرل باجوہ کی سرپرستی میں جو کیا سو کیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج سیاست میں خفیہ اداروں کی مداخلت بند ہوگئی ہے؟ کیا آج پاکستان میں علانیہ اورغیراعلانیہ سنسر شپ عائد ہے یا نہیں؟آج کا پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں کچھ سیاست دانوں کو غیر ذمہ دار قرار دیا گیا لیکن کسی سیاست دان کیخلاف کارروائی کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ اس فیصلے میں کہا گیا تھا کہ سیاست میں مداخلت کرنے والے فوجی افسران کیخلاف کارروائی کی جائے۔ ان افسران کیخلاف کارروائی کی بجائے فیصلہ لکھنے والے جج کیخلاف کارروائی شروع ہوگئی تھی کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے اس فیصلے کی روشنی میں ان افسران کیخلاف کارروائی پر توجہ دینگے جو اب ریٹائر ہو چکے ہیں؟نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کسی ایک سیاستدان یا سیاسی گروہ کا نہیں بلکہ صرف اور صرف پاکستان کے آئین کا ساتھ دینا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ