دو اہم پروگرام : تحریر علامہ ابتسام اليہی ظہیر


پاکستان ایک اسلامی نظریاتی مملکت ہے جس کے قیام کے لیے برصغیر کے مسلم رہنماؤں نے مدتِ مدید تک جستجو کی۔میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے قیام کے لیے دی جانے والی قربانیاں اس وقت معنی خیز ثابت ہوئیں جب ملک کے دستور میں کتاب وسنت کی عملداری کی یقین دہانی کے ساتھ ساتھ شعائر اسلام، مقدساتِ دین اور حرمت رسولۖ کے تحفظ کے حوالے سے بھی قانون سازی کی گئی۔ 295-C کے قانون میں اس بات کو واضح کیا گیا کہ نبی کریمۖ کی توہین کا ارتکاب کرنے والے کو سخت ترین سزا دی جائے گی۔ اسی طرح 7 ستمبر 1974 کو قومی اسمبلی کی متفقہ قرار داد میں اس بات کو واضح کیا گیا کہ جو شخص بھی نبی کریمۖ کی ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ مذہبی جماعتیں ہر سال 7 ستمبر کو ختمِ نبوت کے حوالے سے پروگراموں کا انعقاد کرتی ہیں، اس سال بھی 7 ستمبر کو منصورہ لاہور میں اس حوالے سے ایک کامیاب پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔پروگرام کی صدارت جماعت اسلامی کے امیر برادرِ اکبر سراج الحق صاحب نے کی۔ اس پروگرام سے مولانا عبدالمالک، جاوید قصوری، مولانا عبدالاکبر چترالی اور دیگر بہت سے نمایاں علما کرام نے خطاب کیا۔ اس موقع پر میں نے اپنی جن گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھا ان کو مختصرا قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
اللہ تبارک و تعالی نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے انبیا کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔مختلف انبیا کرام اپنے اپنے عہد اور اپنے اپنے علاقوں میں دعوتِ دین کا فریضہ سرانجام دیتے رہے یہاں تک کہ اللہ تبارک و تعالی نے نبی آخر الزماںۖ کو جمیع انسانیت کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے مبعوث فرما دیا۔سور الاعراف کی آیت نمبر 158 میں ارشاد ہوا: ”آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ تعالی کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں۔قرآنِ مجید میں اس حقیقت کو واضح کر دیا گیا کہ آپۖ کے بعد کائنات میں کوئی شخص بھی نبی نہیں ہو سکتا۔سور الاحزاب کی آیت نمبر 40 میں ارشاد ہوا: ”لوگو! تمہارے مردوں میں کسی کے باپ محمد (ۖ ) نہیں لیکن آپ اللہ تعالی کے رسول اور آخری نبی ہیں۔
احادیث مبارکہ میں قیامت سے قبل حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول کا ذکر ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو نبوت نبی کریمۖ سے پہلے مل چکی ہے اور آپۖ کے بعد کسی بھی شخص کو نبوت کا منصب نہیں مل سکتا۔نبی کریمۖ کی واضح تعلیمات سے انحراف کرتے ہوئے بعض بدبخت لوگوں نے مختلف ادوار میں ختم نبوت کے عقیدے سے انحراف کیا۔ مسیلمہ کذاب،اسود عنسی اور سجاح نے قرونِ اولی ہی میں نبوت کا جھوٹا دعوی کیا۔ ان فتنوں کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوری تندہی کے ساتھ کچل دیا۔بعد ازاں بھی مختلف ادوار میں مختلف فتنے سر اٹھاتے رہے۔ مسلمانوں کے سیاسی زوال کے دور میں خصوصیت سے ان فتنوں نے سر اٹھایا۔ گزشتہ صدی میں مرزا غلام احمد قادیانی،علی محمد باب،حسین علی مازندانی جیسے فتنوں نے سر اٹھایا۔ ان فتنوں کے انسداد کے لیے مختلف مکاتب فکر کے جید علما کرام نے بھرپور محنت کی اور ان فتنوں کو ناکام اور نامراد بنانے کے لیے تحریروں اور تقریروں کے ذریعے بیش قیمت دلائل امت کے سامنے پیش کیے۔ ان فتنوں کا جہاں علمی طور پر رد کیا گیا وہیں اس امر کی بھی ضرورت محسوس کی گئی کہ قانونی طور پر بھی ان فتنوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جائے۔ یہ اعزاز پاکستان کی قومی اسمبلی کو حاصل ہوا کہ یہاں پر طویل مباحثے کے بعد اس بات کو طے کر دیا گیا کہ جو شخص بھی نبی کریمۖ کی ختم نبوت کا منکر ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اب مسلم اور غیر مسلم ممالک اور معاشروں کے لیے یہ فیصلہ ایک دلیل کی حیثیت رکھتا ہے کہ دنیا میں جو کوئی بھی نبی کریمۖ کی ختم نبوت سے انحراف کرتا ہے اس کو دائرہ اسلام سے خارج تصور کیا جائے۔ پاکستان میں کئی مرتبہ اس قانون کو تبدیل کرنے کے حوالے سے کوششیں کی گئیں لیکن مذہبی جماعتوں، علما کرام اور اداروں کی کاوشیں رنگ لائیں اور اللہ تبارک و تعالی کے فضل و کرم سے سازشی عناصر ناکام اور نامراد رہے۔ ہمیں اس حوالے سے ازسرنو عزم کی ضرورت ہے کہ ختم نبوت کے حوالے سے کسی بھی قسم کا سمجھوتا نہیں کیا جائے گا اور علمی سطح کے ساتھ ساتھ آئینی اور قانونی سطح پر بھی عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کا سلسلہ جاری و ساری رکھا جائے گا۔
جہاں پر نبی کریمۖ کی ختم نبوت اور آپۖ کی ناموس کے حوالے سے آئین میں باقاعدہ طور پر صراحت کی گئی ہے وہیں پر نبی کریمۖ کی تعلیمات کو ہم تک پہنچانے والی شخصیات میں صحابہ کرام اور اہلِ بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین کے گروہ کا نمایاں کردار ہے۔ اس حوالے سے نبی کریمۖ کی تعلیمات اور ارشادات امت تک منتقل کرنے کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یکسو رہے۔ صحابہ کرام کی عدالت پر مسلمانوں نے اتفاق کیا۔ اس لیے کہ ان کی عدالت کے بارے میں کسی بھی قسم کی غلط فہمی نہ صرف یہ کہ ان کی شخصیات کو مجروح کرتی ہیں بلکہ اس سے اس آفاقی پیغام کے بارے میں بھی سوالیہ نشان اٹھتے ہیں جو امت کی نجات اور فلاح کی ضمانت دیتا ہے۔ نبی کریمۖ کے اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ناموس کو قانونی تحفظ دینے کے لیے ایک عرصے سے کوششیں اور کاوشیں جاری ہیں۔ ایک دور میں مولانا اعظم طارق نے قومی اسمبلی میں ایک پرائیوٹ بل پیش کیا جو کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکا۔ بعد ازاں پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں متفقہ طور پر ناموس صحابہ کرام بل کو پاس کیا گیا لیکن گورنر پنجاب نے اس پر دستخط نہ کیے جس کی وجہ سے یہ صوبے میں قانون کا درجہ حاصل نہ کر سکا۔ اس حوالے سے کچھ ماہ قبل جماعت اسلامی کے قومی اسمبلی کے ممبر مولانا عبدالاکبر چترالی نے بھرپورانداز میں کاوشیں کیں اور قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر ناموس صحابہ و اہلِ بیت بل کو پاس کیا گیا۔بعدازاں سینیٹ میں بھی بالاتفاق اس بل کو پاس کر لیا گیا۔ اس حوالے سے مختلف جماعتوں کے قائدین نے نمایاں کردار ادا کیا۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہونے کے بعد صدرِ پاکستان کے دستخط سے اس بل نے باقاعدہ طور پر ایک آئینی حیثیت اختیار کر لینا تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا اور اس پر غیر واضح اور مبہم قسم کے اعتراضات لگا کر اس بل کو واپس کر دیا گیا۔ اس وجہ سے اہل بیت عظام اور صحابہ کرامسے محبت کرنے والے لوگ اضطراب کا شکار ہو گئے اور ملک میں ایک رد عمل کی کیفیت پیدا ہوئی۔
وہ لوگ جو اہلِ بیت عظام اور صحابہ کرامسے محبت کرتے ہیں انہوں نے اس حوالے سے مختلف مقامات پر اجتماعات اور پروگراموں کا انعقاد کیا۔اسی حوالے سے 10 ستمبر کو کراچی میں ایک بہت بڑے اجتماع کا انعقاد کیا گیا اس اجتماع کی میزبانی متحدہ علما کمیٹی کراچی کو حاصل ہوئی۔اس پروگرام میں مختلف مکاتب فکر کے جید علما کرام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا گیا۔ مولانا منظور مینگل، مفتی فضل سبحان،مولانا اختر علی محمدی، مولانا محمد احمد لدھیانوی، مولانا اورنگزیب اور مختلف مکاتب فکر کے دیگر علما اس پروگرام میں شریک ہوئے۔ مجھے بھی اس پروگرام میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ میں کراچی پہنچا تو متحدہ علما کمیٹی کے دوستوں نے پرجوش انداز میں خیر مقدم کیا۔ جب میں جلسہ گاہ میں پہنچا تو عوام الناس کی وارفتگی اور ان کا جوش وجذبہ دیدنی تھا۔ عوام کی کثیر تعداد میں شرکت اس حقیقت کو واضح کر رہی تھی کہ لوگ شعائر اسلام اور شعائر دین کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے یکسو اور تیار ہیں۔ ڈویژن بھر سے کئی لاکھ لوگ کراچی کے اس پروگرام میں شریک ہوئے اور انہوں نے صحابہ کرام اور اہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اپنی غیر معمولی وابستگی کا اظہار کیا۔ مقررین نے اس موقع پر حکومت سے مطالبہ کیا کہ ہمیں اہلِ بیت عظام اور صحابہ کرام کی تنقیص کسی بھی طور پر گوارا نہیں کیا اور جو شخص بھی اس حوالے سے غیر ذمہ دارانہ کردار ادا کرے اس کو دس سال قید کی سزا ہونی چاہیے۔
میں نے بھی اس موقع پر اپنی گزارشات اور معروضات کا اظہار کیا اور یہ بات عوام کے سامنے رکھی کہ تمام مسلمان اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ خلفائے راشدین، اہل بیت عظام، امہات المومنین اور صحابہ کرام ہر اعتبار سے قابلِ قدر ہیں اور ان کی شان میں تنقیص حرام ہے اور اس حوالے سے کسی بھی قسم کی کوتاہی کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین کی ناموس پر کیے جانے والے حملے امت مسلمہ کے لیے ناقابلِ قبول ہیں۔ مقدساتِ امت کے خلاف دریدہ دہنی تمام مکاتب فکر کے جید علما کرام کی نظروں میں غلط اور قبیح عمل ہے۔ قاضی حسین احمد مرحوم کی زندگی میں مدون کیے جانے والے ڈرافٹ میں اہلِ تشیع اور اہلِ سنت کے جید علما کرام نے اس بات پر دستخط کیے تھے کہ تنقیص صحابہ حرام اور تکفیر صحابہ کفر ہے؛ چنانچہ ہمیں ناموسِ اہلِ بیت اور ناموسِ صحابہ کرام کو آئین اور قانون کاد رجہ دینے کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ عوام نے علما کرام کی باتوں کی بھرپور انداز میں تائید کی اور جلسے میں بڑے جوش وجذبے سے اس حقیقت کو واضح کیا گیا کہ مقدساتِ امت کے خلاف کسی بھی قسم کی دریدہ دہنی کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ یہ پروگرام اپنے جلو میں بہت سی خوبصورت یادوں کو لے کر رخصت ہوا۔
یہ دونوں پروگرام ستمبر کے مہینے کے حوالے سے خصوصی اہمیت کے حامل تھے اور ان پروگراموں میں جن نکات کو اٹھایا گیا اگر ان پر اتفاق کیا جائے تو یقینا معاشرے میں بقائے باہمی اور امن وامان کے قیام کو یقینی بنایا جا سکتاہے۔ اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ وہ پاکستان کو صحیح معنوں میں دینی،فلاحی اور پر امن ریاست بنانے کے لیے ہمیں اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق دے، آمین !

بشکریہ روزنامہ دنیا