پاکستان اور بھارت کے باہمی اور دیرینہ اختلافات دونوں ممالک کے اچھے خاصے معقول صحافیوں کو بھی بسااوقات تھڑے بازوں والی بڑھک لگانے کو مجبور کردیتے ہیں۔ میری دانست میں بھارت کے صف اول کے صحافی شیکھر گپتا کے ساتھ بھی ہفتے کے دن ایسا ہی معاملہ ہوگیاہے۔
اپنے دورہ بھارت کے دوران عالمی معیشت کے 20مہا کھلاڑی تصور ہوتے ممالک کی کانفرنس کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی ولی عہد نے ایک عظیم تر منصوبے کا اعلان کیا ہے۔اس پر عملدرآمد بھارت کو آمدورفت کے تمام ممکنہ ذرائع استعمال کرتے ہوئے مشرق وسطی اور یورپ کے ساتھ جوڑ دے گا۔بھارت، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے پاس مذکورہ منصوبے کو تیز ترین بنیادوں پر مکمل کرنے کے مالی اور تکنیکی وسائل یقینا میسر ہیں۔اس منصوبے کو لہذا محض خواب ٹھہراتے ہوئے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔
شیکھر گپتا نے مذکورہ منصوبے کے اعلان کو تاہم قطعا ایک مختلف زاویے سے دیکھا ہے۔جذبات سے مغلوب ہوکر ٹویٹر جسے اب X(ایکس) کہا جاتا ہے پر ایک پیغام لکھ ڈالا۔ اس کی دانست میں مذکورہ منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے سعودی ولی عہد نے درحقیقت پاکستان کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔اسلام آباد کوبقول اس کے اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ محمد بن سلمان کے اعلان کردہ عظیم تر منصوبے کا شریک کار بننا چاہتا ہے یا خود کو چین ہی کی باجگزار ریاست بنانے تک محدود رکھنا چاہتا ہے۔ اپنے ٹویٹ میں اس نے انگریزی کا لفظ Vassalاستعمال کیا تھا۔ ابتدا یہ لفظ اس آباد کار کے لئے استعمال ہوتا تھا جو کسی جاگیر دار سے ٹھیکے پر زمین لینے کے بعد اسے آباد کرتا تھا۔ بعدازاں یہ ان کمزور ممالک کے لئے بھی استعمال ہونا شروع ہوگیا جو اپنے دور کی طاقتور سلطنتوں کی جی حضوری سے اپنا وجود برقرار رکھتے تھے۔اردو میں ایسی ریاستوں کو باجگزار پکارا جاتا ہے۔
بہرحال شیکھر گپتا کا یہ خیال تھا کہ پاکستان کے کئی دہائیوں سے برادر ملک کہلاتے سعودی عرب کے جواں سال ولی عہد کا پیش کردہ منصوبہ درحقیقت چین کی جانب سے تقریبا دودہائیاں قبل سوچے ون بیلٹ -ون روڈ والے تصور کا متبادل ہے۔ چین پاکستان کا سمندروں سے گہرا اور ہمالیہ سے اونچا دوست شمار ہوتا ہے۔اس تعلق کی وجہ سے پاکستان بھی ون بیلٹ-ون روڈ والے منصوبے میں شمولیت کو تیار ہوا اور اس ضمن میں سی پیک کے عنوان سے ہمارے ہاں مختلف منصوبوں کا آغاز ہوا۔گپتا کو لیکن یہ گماں ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے متعارف کروائے نئے منصوبے کے بعد پاکستان اگر سی پیک سے کامل کنارہ کشی کو راغب نہ ہوا تب بھی اس عنوان کے تحت سوچے دیگر منصوبوں پر نظرثانی لازمی شمار کرے گا۔
شیکھر گپتا ایک ذہین،انتہائی پڑھا لکھا اور عالمی حقائق پرگہری نظررکھنے والا صحافی ہے۔ اپنے تبصروں اور تحریروں میں وہ قابل ستائش حد تک حقیقت پسند بھی رہتا ہے۔پاکستان مگر حقیقت پسند بھارتی صحافیوں کے دلوں میں بھی کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ دہائیوں سے جمع ہوئے تعصبات اکثر ان کی سوچ کو دھندلا دیتے ہیں۔
بھارتی صحافیوں کی اکثریت اس امر کی بابت ہرگز خوش نہیں تھی کہ چینی صدر شی بھارت میں G-20والے اکٹھ میں شریک نہیں ہوئے۔ روسی صدر بھی وہاں موجود نہیں تھا۔پوتن کی عدم موجودگی تاہم بھارتی تبصرہ نگاروں نے کشادہ دلی سے نظرانداز کردی۔ تمام تر توجہ یہ سیاپا مچانے پر مرکوز رکھی کہ چینی صدر نے بھارت میں ہوئی کانفرنس میں شریک نہ ہوکر ان کے ملک کے ساتھ رعونت بھری سردمہری اختیار کی ہے۔اس سے قبل چینی حکومت کی جانب سے ایک نقشہ بھی منظر عام پر آچکا ہے جس میں ان دنوں بھارت کا حصہ شمار ہوتے کئی علاقے بھی چین کا جغرافیائی حصہ دکھائے گئے ہیں۔ چینی صدر کی جی ٹونٹی کے اجلاس سے غیر حاضری کو لہذا بھارتی مبصرین مذکورہ نقشے کے ساتھ جوڑتے ہوئے چین کے ان ملک کے خلافجارحانہ عزائم کا واویلا مچارہے ہیں۔ایسا کرتے ہوئے مگر سعودی عرب کو خواہ مخواہ اپنی پارٹی بناکر دکھایا جارہا ہے۔
بھارت کے برعکس سعودی عرب کے چین کیساتھ تعلقات ہرگز کشیدہ نہیں ہیں۔ ان دونوں کے مابین کئی عالمی معاملات کے بارے میں یکسوئی کا آغاز بلکہ 1980کی دہائی میں افغان جہاد کے دوران ہوگیا تھا جب یہ دونوں ممالک کمیونسٹ روس کو افغانستان میں گھیر کر کمزور کرنا چاہ رہے تھے۔ آج سے چند ماہ قبل چین نے اپنے اثرورسوخ کو نہایت خاموشی اور مہارت سے استعمال کرتے ہوئے ایران اور سعودی عرب کے مابین تاریخی تلخیوں کو بھلاتے ہوئے دوستی کی نئی بنیادیں تلاش کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ تاریخی اعتبار سے روس کے ایران کے ساتھ بھی دوستانہ یا مخاصمانہ رشتے نہایت قدیمی ہیں۔ سوویت یونین کی تباہی کے باوجود روس آج بھی رقبے کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ روس اور چین کو نظرانداز کرتے ہوئے ایشیااور یورپ کا ملاپ ادھورا ہی نظر آئے گا اور اس تناظر میں ایران کو بھی گیم سے باہر نہیں رکھا جاسکتا۔
ایشیااور یورپ کو جدید ترین ذرائع آمدورفت اور ابلاغ کے ذریعے ایک دوسرے سے نتھی کرنے کا منصوبہ سوچتے ہوئے سعودی ولی عہد نے ایران اور چین کو ہرگز اس سے باہر نہیں رکھا ہوگا اور جغرافیائی حقیقتوں کی بدولت پاکستان بھی اس تناظر میں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان دنوں یقینا ہم معاشی اور سیاسی بحران کی بدولت انتہائی مشکل حالات میں گھرے ہوئے ہیں۔وقت مگر کبھی ایک سا نہیں رہتا اور جغرافیائی حقیقتیں بہت ظالم ہوا کرتی ہیں۔بڑھک بازی ان کی اہمیت جھٹلانہیں سکتی۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت