عبداللّٰہ سنبل کی پرچھائیں : تحریر ڈاکٹر صغری صدف


یہ دنیا عجیب اور اس میں موجود مخلوقات کا آپسی ربط ایک معمہ۔ کچھ لوگ ہمیں بغیر وجہ کے اچھے لگتے ہیں اور کچھ اتنے زہر کہ ان کی محفل میں بیٹھنا ناقابل برداشت۔اس پر بہت بات ہوچکی، سائنس انسانی رویوں میں محبت، نفرت، پسند اور ناپسندیدگی سے جڑے عوامل کی وجوہات دریافت نہیں کرسکی لیکن تال میل کے تمام اسباب روحانی ہیں۔ جنہیں خاص عطا اور کرم بھی کہا جا سکتا ہے۔یہ روحانی کرنیں شخصیت کو قابل تعریف اور چاہت بنا دیتی ہیں کہ اپنے پرائے سب مسحور ہو جائیں۔ ہم سب یہ تجربہ کرتے ہیں کہ کچھ لوگ جن سے روزمرہ معاملات میں ہمارا زیادہ رابطہ اور واسطہ نہیں ہوتا، زندگی کی میز پر ہمارے ہمراہ رہتے ہیں۔ہماری دعاؤں میں شامل اور محبتوں میں حصہ دار رہتے ہیں۔ عبداللہ سنبل بھی ایک ایسی شخصیت تھی۔دس گیارہ برس قبل جب وہ کچھ دیر سیکریٹری اطلاعات و ثقافت تھے تو اس روحانی تعلق کی ظاہری تجدید ہوئی جو روحوں کے درمیان جانے کب سے قائم تھا۔ منفرد،مختلف اور کم گو ایسا کہ خاموشی بولتی محسوس ہو۔ مجھے چند میٹنگز کے بعد احساس ہو گیا کہ وہ صرف اتنا ہی نہیں جتنا نظر آتا ہے بلکہ نفیس اجلے لباس میں مقید سلجھے ہوا بظاہر سمندر کی طرح پرسکون شخصیت ہے عبداللہ سنبل ایک کرم یافتہ انسان تھا جس کے مقدر میں زمانے کی محبتیں اور عقیدتیں لکھی ہوئی تھی اسلئے اس کی اچانک موت نے ہر دل کو دہلا دیا کہ مثبت سوچ اور رویے کی خوشبو کبھی نہ ملنے اور واسطہ پڑنے والوں تک بھی اثر کر چکی تھی۔ اچھی موسیقی، شاعری اور فنون سے دلچسپی ایسی شخصیات کےپیکیج میں انسٹال ہوتی ہے۔اسلئے ایسی آڈیو وڈیوز کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔ سب لوگ اس کی تعریف کرتے تھے شاید مہربانی کا تاثر اور مددگار رویہ ہر فرد کا حوصلہ بڑھاتا تھا۔اسی لئے تو کتنے لوگوں نے عبداللہ کی رخصتی کو اپنے کسی عزیز کی رخصتی کی طرح محسوس کیا۔ہر شخص پکار اٹھا، ہائے اتنا اجلا اور خوبصورت انسان چلا گیا جس کی وجہ سے سول سروس جیسے تنقید اور شکوک کے شکار محکمے کا وقار قائم تھا۔ ایسے لوگوں کی تو بہت ضرورت تھی انہیں تو زندہ رہنا چاہئے۔یہ ہم سوچتے ہیں۔قدرت کی اپنی منصوبہ بندی ہے اُس کو جس سے جو کام لینا ہے اسی کی انجام دہی تک زندگی کی مہلت برقرار رکھنی ہے۔عبداللہ سنبل کو جلد واپس بلانا مقصود تھا اسلئے سب سے بڑے صوبے کی چیف سکریٹری والی کرسی سمیت بڑی پوسٹوں پر تعیناتی کے دوران جو تاثر ثبت کرنا تھا مکمل ہو گیا تھا۔ میری عبداللہ سے آخری گفتگو پچھلے سال اگست میں ہوئی۔ جب میرے عزیز اور بہت عمدہ شاعر قمر ریاض نے مجھ سے مشورہ کئے بغیر نہ صرف اچانک عمان، بلکہ سلالہ اور دیگر شہروں کی کنفرم ٹکٹیں بھیج دیں۔ میں نے ٹھیک وقت پر چھٹی کی فائل چیف سیکرٹری آفس تک پہنچادی، صندوق میں سامان بھی رکھ لیا مگر کئی دنوں بعد جب صبح سات بجے کی فلائٹ تھی تو خبر ملی کہ فائل تو ابھی تک چیف سیکرٹری دفتر میں ہی ہے کہ اُن دنوں چیف صاحب کے پنجاب حکومت سے کچھ اختلافی معاملات چل رہے تھے اور وہ دفتر نہیں آرہے تھے۔میں نے شام پانچ بجے کے قریب عبداللہ سنبل کو فون کیا اور چیف سیکرٹری آفس سے فائل نکلوانے کی استدعا کی۔ ساڑھے چھ بجے واپس فون آیا کہ میڈم آپ کی فائل ا سٹاف کے ذریعے فارورڈ ہو کر سی ایم آفس پہنچ چکی ہے۔ وہاں سے منظوری کے بعد مجھے رات ساڑھے گیارہ بجے اجازت نامہ موصول ہوا۔ تو ایسا تھا عبداللہ سنبل، احساس اور خیال کرنے والا۔ کم ازکم پچاس بار وٹس ایپ پر میں نے، اس ہفتے چائے پینے آؤں گی آپ کے آفس، پیغام بھیجا ہوگا جس کے جواب میں فورا ًویلکم میڈم، مگر فرصت کی گھڑی نصیب نہ ہوئی۔ روح کی سننے والے جاگتے رہتے ہیں کہ حاضر رہنا ان کے فرائض میں شامل ہوتا ہے، عبداللہ سنبل بھی لمبے جگراتے کے بعد سکون کی نیند سو کر اٹھے گا تو لطافت کے اگلے درجے میں پرموٹ کر دیا جائے گا کہ روح کا سفر تو رواں رہتا ہے۔ وہ یقیناً وہاں خوش اور مطمئن ہو گا۔ ہم اداس ہیں کہ ہمیں اس خونخوار ماحول میں عبداللہ سنبل جیسے دوست رویے،نرم لہجے اور اپنائیت کے احساس کی ضرورت ہے۔ زندگی کی مصروفیات کو خود پر سوار نہ کریں۔ہم خیال لوگوں سے ملیں، تبادلہ خیال کریں اور ہمیشہ مثبت رہیں۔وہ ستمبر کے مہینے میں پیدا ہوا اور اسی مہینے اپنی اٹھاونویں سالگرہ منانے سے پہلے نئے سفر پر روانہ ہوگیا۔ عبداللہ سنبل کی یاد پرچھائیں کی مانند سرکاری دفاتر کے درودیوار میں رچ بس چکی ہے۔ وہ ایک ضابطے اور مددگار کے طور پر نئے آنے والوں کی رہنمائی کرتی رہے گی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ