معاشی عملیت پسندی اور نظریاتی جمود … تحریر حسین حقانی


گزشتہ ہفتے کے اخبارات کی شہ سرخیوں کا 1990 کی دہائی سے موازنہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت سے آج تک پاکستان کے معاشی حالات میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں آئی ۔1990 کی دہائی کی طرح آج بھی ملک کو زرمبادلہ کی کمی کا سامنا ہے کیوں کہ اس کی درآمدات زیادہ اور برآمدات کم ہیں۔ اس خلا کوپورا کرنے کیلئے بیرونی قرضے لینا پڑتے ہیں ۔ حکومت محصولات کی مد میں اس سے کہیں کم رقم اکٹھا کرپاتی ہے جتنی خرچ دیتی ہے ۔ اخراجات پورا کرنے کیلئے اسٹیٹ بینک کرنسی نوٹ چھاپتا ہے، جس کے نتیجے میں ملک افراط زر کا شکار ہوجاتا ہے ۔ معاشی ناکامی پر سیاست دان ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں ۔ اشیائے صرف کی گرانی اور بے روزگاری کی وجہ سے گلیوں اور سڑکوں پر احتجاج ہوتا ہے ۔ 1990کی سیاسی چپقلش کے نتیجے میں 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کرلیا ۔ اس کے بعد معاشی نظم، ریاستی اداروں کی نج کاری ، اورمحصولات بڑھانے کی کوششوں کا بہت چرچا ہوا۔ لیکن امریکہ میں گیارہ ستمبر کے دہشت گرد حملوں کے بعد پاکستان کو ایک مرتبہ پھر امریکہ سے امداد ملنا شروع ہوگئی اور یوں معاشی اصلاحات کی ضرورت جاتی رہی۔ گزشتہ چار عشروں کے دوران پاکستانیوں کی توانائی زیادہ تر نظریاتی اور سیاسی امور پر مرتکز رہی جس کی وجہ سے معاشی فیصلے نہ کیے جا سکے ۔ اقتدار پر فائز رہنے والوں میں صرف نواز شریف ہی معاشی حوالے سے واضح تصور رکھتے تھے ،نجکاری، عدم مرکزیت، معاشی آزادی، لیکن وہ بھی وضع کردہ اصلاحات کو عملی طور پر نافذ نہ کر سکے ۔

پاکستان کے زیادہ تر صدور اور وزرائے اعظم کے بیانات کا معروضی تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ انھیں اقتصادی امور میں اس سے کہیں کم دلچسپی ہوتی جتنی ان کے عہدے کا تقاضا ہے ۔ غیر مربوط پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان کو 1958سے اب تک 23 مرتبہ آئی ایم ایف سے قرض لینا پڑا ہے ، بشمول 1988 سے اب تک 14 مرتبہ اور2000 سے لے کر اب تک 6 مرتبہ۔ معاشی ضرورت کیلئے آئی ایم ایف کی طرف رجوع کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی مریض کو انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کرادیا جائے۔

جون 2023 میں ختم ہونے والے مالی سال میں پاکستان کی اقتصادی شرح نمو محض 0.29 فیصد رہی ، جب کہ گزشتہ سال اس کا ہدف پانچ فیصد رکھا گیا تھا ۔ یہ آبادی میں اضافے کی شرح، 2.5 فیصد سے کہیں کم ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ملکی آبادی معاشی نمو سے کہیں تیزی سے بڑھتے ہوئے معاشی بحران کی جڑیں گہری کررہی ہے ۔ پاکستان کو برس ہا برس سے بجٹ اور تجارتی خسارے کا سامنا رہا ہے ، اس کے زرمباد لہ کے ذخائر کبھی چند ماہ کی درآمدات کیلئے درکار ذخائر سے نہیں بڑھ پائے ۔اقتصادی ماہرین ہمیں بتاتے ہیں کہ پاکستان کے ہر معاشی مرض کا کوئی نہ کوئی علاج موجود ہے ۔ اس لئے معاملہ مسائل کے حل کا نہیں بلکہ رہنمائوں اور عوام کی طرف سے حل کو عملی طور پر نافذ کرنے کے عزم کی کمی کا ہے ۔ پاکستان کے زیادہ تر سیاست دان مبالغہ آمیز بیانات کے ذریعے اپنے حامیوں کو جذباتی طور پر ابھارتے رہتے ہیں ۔ مقبول عام بیانیہ یہ ہے کہ پاکستان ایک امیر ملک ہے جو بدعنوان سیاست دانوں کی وجہ سے غریب ہے ۔

بلاشبہ بدعنوانی ایک بری چیز ہے، لیکن یہ تجارتی خسارے یا مسلسل زرمبادلہ کی کمی کی بنیادی وجہ نہیں مزید یہ کہ زیادہ تر ممالک نے معاشی لحاظ سے اہم منصوبوں سے وابستہ بدعنوان افسران کی تحقیقات، مقدمے اور سزا کا ایسا نظام وضع کررکھا ہے جو ان افسران کو ملنے والی سزا کے باوجود ان سے متعلقہ منصوبوں کو متاثر نہیں ہونے دیتا۔ دوسر ی طرف پاکستان نے متعدد مرتبہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے کیوں کہ یہاں بدعنوانی کے الزامات لگا کر معاشی سرگرمی میں مداخلت کی جاتی ہے ۔ مقبول عام افسانوی نعروں کے برعکس بیرونی ممالک سے اربوں ڈالر ، جو پاکستانیوںنے لوٹ کر غیر ملکی بینکوں میں چھپائے ہوئے ہیں ، واپس لانے سے بھی ملک کے مسائل حل نہیں ہوں گے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی نہیں جانتا کہ کچھ پاکستانیوں نے کتنی رقم جائز یا ناجائز طور پر بیرونی ممالک میں رکھی ہوئی ہے ۔ گزشتہ چار سال کا تجربہ ہمیں باور کرانے کیلئے کافی ہونا چاہئے کہ کسی غیر ملکی حکومت سے یہ کہنا آسان نہیں کہ وہ کسی کی ملکیت ہمارے حوالے کردے ۔ اسی طرح بعض افراد کی جانب سے عطیات کے ذریعے محصولات کی کمی کو دور کرنے کی کوشش کی گئی، جیسا کہ 1990کی دہائی کی قرض اتارو، ملک سنوارومہم اور حال ہی میں ایک سابق چیف جسٹس کی طرف سے بنایا گیا ڈیم فنڈ بھی کارگر ثابت نہیں ہوا۔

پاکستان کے معاشی مسائل کا حل طے شدہ اقتصادی پیمانوں میں تلاش کرنا ہو گا …پیداواری صلاحیت میں اضافہ، ریاستی مالیات کا بہتر انتظام اور عالمی مسابقت۔ مختصر مدت میں ملکی بجٹ پورے کرنا ہوں گے۔ بہت سے سیاست دان اور میڈیا شخصیات آئی ایم ایف کے تقاضے کو غلط انداز میں پیش کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف بجلی کے نرخ یا ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کا نہیں کہتا۔ وہ صرف یہ کہتا ہے کہ حکومت اپنی آمدنی (جو براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں سے آتی ہے) اور اخراجات (جس میں ایندھن اور بجلی کیلئے خزانے سے دی جانے والی سبسڈی بھی شامل ہے) کے درمیان کمی لائے۔ سبسڈی میں کمی ہونے سے ایندھن اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے جس پر لوگ شکایت کرتے ہیں۔ حکومت دیگر اخراجات کو بھی کم کر سکتی ہے اور اپنی آمدنی بڑھانے کیلئیٹیکس اصلاحات کر سکتی ہے۔ زراعت سمیت متعدد شعبوں کی آمدنی پر فی الحال ٹیکس نہیں ۔ زمینداروں نے کئی دہائیوں سے زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانیکی مخالفت کی ہے۔ لیکن اس اہم شعبے پر ٹیکس لگانے کی ضرورت بھی اپنی جگہ پر موجود ہے ۔ اتنا ہی ضروری ہے کہ ریاستی ملکیت میں چلنے والے کاروباری اداروں سے جان چھڑائی جائے کیوں کہ ان پر مسلسل رقم ضائع ہورہی ہے۔ان کی نج کاری حکومت کا بوجھ کم کردے گی،ا ور وہ اپنے اثاثے غیر پیداواری ذرائع سے نکال کر پیداواری ذرائع میں لگاسکے گی ۔ طویل مدتی پالیسی کے طور پرپاکستانیوں کو معاشی عملیت پسندی کو اپنانا اور نظریاتی آنچ کو دھیما کرنا ہوگا جس کی وجہ سے پیداواری سکت کم ہوچکی اور غیر ملکی سرمایہ کار تو اس طرف کا رخ بھی نہیں کرتے۔ مذہبی عسکریت پسندی، فرقہ وارانہ بنیادوں پر بعض مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کیلئے علما کی کال، اور ججوں کے فیصلے جو سرمایہ کاری کے معاہدوں میں مداخلت کرتے ہیں (ریکوڈیک یاد رکھیں) معاشی ترقی کیلئے سازگار نہیں ہیں۔معاشی عملیت پسندی پاکستان کی تمام ممالک کے ساتھ کھلی تجارت کا تقاضا کرتی ہے، خاص طور پر قریبی پڑوسیوں کے ساتھ ، جس کیلئے سیاسی یا دیگر تنازعات کو ایک طرف رکھا جائے۔ انسانی وسائل کی تعمیر میں سرمایہ کاری کی جائے جس سے ملک کی تکنیکی بنیاد کو وسعت اور معیشت کو جدت ملے۔جب تک ایسا نہیں ہوتا ملک ایک آئی ایم ایف پروگرام سے نکل کر دوسرے پروگرام کی دلدل میں اترتا رہے گا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ