اب یہ دن بھی دیکھنا تھا؟ گجرات کے چوہدری پرویزالہی کو گاڑی سے گھسیٹ کر اغوا کرنیوالے انداز میں اسلام آباد پولیس نے نہ صرف گرفتار کیا بلکہ اب وہ ایم پی او۔ کے تحت نظر بند ہیں اور وہ بھی اٹک جیل میں جہاں پہلے ہی اس وقت ریاست کے سب سے مطلوب شخص سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان قید ہیں اور بظاہر ان کے جلد باہر آنے کے امکانات معدم ہوتے جارہے ہیں۔ اندرون خانہ کیا ہورہا ہے اس کی خبر صرف مخبروں کے پاس ہے مگر عین ممکن ہے کہ قائدین کو ایک جگہ رکھنے کے کچھ سیاسی مقاصد بھی ہوں۔ چوہدری پرویز الہی کو خاصی امید تھی کہ لاہور ہائی کورٹ کے واضح حکم کے بعد انہیں رہائی مل جائے گی مگر یہ ہو ناسکا اور رہائی کے فورا بعد انہیں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا ۔ آخر ان سے ایسی کیا حکم عدولی ہوئی ہے جس کی سزا مل رہی ہے حالانکہ ہماری سیاست میں چوہدری برادران ہمیشہ رہاستی اداروں کے ساتھ کھڑے رہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ اب برداران کی اپنی راہیں جدا ہیں۔ اب اس کا تعلق ان کا اور ان کے بیٹے چوہدری مونس الہی کے تحریک انصاف میں شمولیت سے ہے جس کا اپنا ایک سیاسی پس منظر ہے۔ عجیب حسن اتفاق ہے کہ وہ چوہدری جن کی نہ شکل عمران خان کو پسند تھی اور نہ ہی ان کے دور حکومت میں ان کے درمیان کوئی ٹھوس رابطے تھے مگر پچھلے چند ماہ میں انہوں نے جس طرح قید کاٹی اس نے خود ان کے خاندان میں چوہدری ظہورالہی مرحوم کی یاد تازہ کردی جنہوں نے 70 کی دہائی میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی کے دور میں مشکل وقت دیکھا۔ یہ خبر ضرور نظر سے گزری کہ اٹک جیل کے اہم ترین قیدی کی ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ چوہدری پرویزالہی میں یہ تبدیلی کیسے آئی کہ بڑے بھائی کا بھی ساتھ چھوڑ دیا جو انہیں انگلی پکڑ کر سیاست میں لائے تھے۔ مارچ اور اپریل2022کے درمیان ایسا کیا ہوا کہ شہباز شریف کی جگہ وزیراعظم بنتے بنتے ایک کال پر بنی گالہ چلے گئے اور یوں جو گاڑی وزیراعظم ہاوس جارہی تھی وہ اٹک جیل پہنچ گئی۔ سنا ہے جیل کی دوستی بڑی پائیدار ہوتی ہے۔ چوہدریوں نے 80 کی دہائی سے آج تک ریاست اور اس کے اداروں کے ساتھ بے وفائی نہیں کی۔ ریاست کے اندر ریاست کے تصور کو ان سے اور شریفوں سے زیادہ بہتر کون جان سکتا ہے۔ بھٹو سے اختلافات کی تاریخ ہے اسی لیے 18اکتوبر 1999 کو بے نظیر بھٹو نے خو دکش حملے کے بعد جو خط لکھا تھا، اپنے قتل کی سازش کا، اس میں پرویز الہی کا نام بھی شامل تھا۔ محترمہ کی شہادت کے بعد 2008 میں جب پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان چند ماہ کے ہنی مون کے بعد کشیدگی بڑھی تو آصف زرداری لاہور میں چوہدری برادران کے پاس پہنچ گئے اور جو الفاظ پرویزالہی نے مجھے بتائے زرداری صاحب کے وہ کچھ یوں تھے۔ میں نہیں چاہتا کے ہمارے بچے دشمنیوں میں جوان ہوں۔ سچ یہ ہے کہ انہوں نے پھر تعلق نبھایا بھی اور ہمارے نہ مانگنے کے باوجود کابینہ میں لیا ۔پرویز الہی نائب وزیراعظم بنے۔ ایسا ہی کچھ عمران کیخلاف اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد ہونے جارہا تھا کہ کال آہی گئی۔
ایسا ہی کچھ چوہدریوں اور عمران کے تعلقات میں ہوا۔2002کے انتخابات ہونے والے تھے کہ عمران کو ایوان صدر سے فون آیا کیا لیکشن کے سلسلے میں اجلاس ہے۔ خان صاحب نے کور کمیٹی جس میں پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل معراج محمد خان اور حامد خان بھی شامل تھے کو اعتماد میں لیا تاہم حامد خان نے جنرل مشرف سیملاقات سے انکار کردیا ان کا موقف تھا کہ اس سے پارٹی کو نقصان ہوگا معراج صاحب کا بھی یہی موقف تھا تاہم عمران کے کہنے پر وہ ساتھ چلے گئے اس کا احوال خود معراج صاحب نے ایک بار سنایا تھا کہ۔ وہاں پہنچے تو ایک طرف چوہدری شجاعت تو دوسری طرف پرویزالہی تھے۔ ان دونوں سے خان کو اتنی ہی نفرت تھی جتنی شریفوں اور زرداریوں سے۔ اجلاس سے واضح ہوگیا کہ عمران کو میا نوالی کے علاوہ کوئی سیٹ نہیں ملے گی ۔ عمران نے باہر نکل کرکہا حامد ٹھیک کہتا تھا سب چور ہیں مشرف دھوکے باز ہے۔ کہتے ہیں اس اجلاس میں جنرل احتشام ضمیر نے خان صاحب کو ایک فہرست تھما دی تھی ممکنہ انتخابی نتائج کی۔ حقیقت یہ ہے کہ چوہدردی پرویز الہی عملا وزیر اعلی تھے۔ اس سب کے باوجود عمران بحیثیت وزیر اعظم لاہور آتے تو شاذونادر ہی چوہدریوں سے ملتے۔ تقریبا بات چیت بندتھی۔ جیسے ہی 2021میں زرداری، پرویزالہی قربتیں بڑھیں خان صاحب نے نیب کے ذریعیچوہدریوں کیخلاف ریفرنس کھلوادیا پھر معاملات طے ہوگئے تو ریفرنس ختم ہوگیا۔
عمران اور جنرل قمر باجوہ کے درمیان جنرل فیض کے معاملے پر معاملات بگڑے تو چوہدری کنفیوژن کا شکار ہوگئے۔ عمران پر حملہ ہوا ، خان نے حاضر سروس isi کے جنرل کا نام لیا تو چوہدریوں نےF ir کی حمایت نہ کی مگر عمران کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کردیا چوہدری شجاعت کے سمجھانے کے باوجود ،جس کی وجہ پرویز الہی کے صاحبزادے مونس الہی تھے۔ اب ایک طرف چوہدری برادران میں دراڑ آگئی تو دوسری طرف مونس الہی نے والد کو پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے رہنے کو کہا اور وہ آج تک کھڑے ہیں جبکہ بزدار سمیت درجنوں رہنما ساتھ چھوڑ گئے۔سیاست بھی کیا ظالم چیز ہے جو کل تک ایک دوسرے کی شکل دیکھنا بھی برداشت نہیں کرتے تھے اور کیا کیا القاب سیایک دوسرے کو نوازتے تھے آج ایک ہی جیل کے ساتھی ہیں۔ سکھ کے وقت کے ساتھی نہیں دکھ کے تو بن گئے۔ رہ گئی بات انصاف کے ایوانوں کی تو میں حیران ہو ں کہ اب عدالتوں کو یہ حکم بھی دینا پڑتا ہے کہ آئندہ اس شخص کو کسی اور مقدمہ میں بھی گرفتار نہ کیا جائے مگر شاباش ہے اس نظام کو وہ پھر بھی گرفتار کرلیتا ہے۔چلو ایمان مزاری جو پی ٹی آئی کی سابقہ رہنما شیریں مزاری کی بیٹی ہیں ضمانت پررہا ہوگئیں پتا نہیں کیوں کبھی کبھی مجھے ان میں انسانی حقوق کی بڑی آواز عاصمہ جہانگیر کی جھلک نظر آتی ہے۔ جو کچھ ڈاکٹر یاسمین راشد اورپی ٹی آئی کی دیگر خواتین گرفتار کارکنوں کے ساتھ ہوا اس پر دیگر سیاسی جماعتوں کی خاموشی برقرار ہے اسی طرح جس طرح مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کی خواتین کے ساتھ پی ٹی آئی کے دور میں ہوا ۔
اٹک جیل کا خاص مہمان یہ ضرور سوچ رہا ہوگا کہ اقتدار میں جو لوگ میرے دائیں، بائیں کھڑے تھے ان میں علی محمد خان، شہر یار آفریدی، عمر چیمہ، محمود الرشید، اعجاز چوہدری اور حلیم عادل شیخ کیوں نہ تھے۔ یہ بھی ضرور غور کر رہے ہونگے کہ جس شخص کی خاطر سب سے لڑائی مول لی وہ بھی دغا دے گیا…. پنجاب کا وزیراعلی عثمان بزدار۔ پہلے ہی بات مان لیتے تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ