ہم سب زندگی کے صحن میں بکھری ہوئی ایک جیسی خوبصورتیوں، کثافتوں اور معاملات کو اپنی تحریر میں زیرِ بحث لاتے ہیں۔مگرہماری تخلیقی،تنقیدی اور تحقیقی تحریر دوسروں سے یکسر مختلف ہوتی ہے،اس کی وجہ ہماری سماعت، بصارت، مشاہدے، مطالعے کی سنجیدگی کی سطح کے علاوہ چیزوں کو دیکھنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت، ادارک کی سطح اور حقیقت کی کھوج کا پیدائشی ہنر ہے جو ہماری ذات کا حصہ ہوتا ہے۔ ایک کھیت میں کھلے پھولوں کو مختلف زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے تو منظر کی ترتیب مختلف دکھائی دیتی ہے، یوں زاویہ نگاہ،سوچ اور فہم ہماری تحریر کومنفرد رخ عطا کرتا ہے۔ہمارے ارد گرد بہت سے لوگ اپنے اس منفرد رخ کے باعث ہمیں متاثر کرتے ہیں۔ان کی بات دل میں کھبتی اور احساس میں سماتی چلی جاتی ہے۔یاسمین حمید بھی ایک ایسی دل نواز شخصیت ہیں جن کی تحریر، انداز بیان اور گفتگوہمیشہ سوچ کے نئے جزیروں کی خبر دیتی ہے۔باسی لفظوں سے نیا پن پیدا کرنا ان کا خاص کمال ہے۔دھیمے لہجے میں بولتی ہیں مگر ان کے لفظوں کی گھن گھرج دور تک سنائی دیتی ہے۔ بعض اوقات ان کی نظم فکر کے ٹھہرے پانیوں میں ارتعاش پیدا کر کے جمود کو توڑتی نئے سفر کا وسیلہ بنتی ہے۔اردو نظم نگاری میں وہ ایک معتبر حوالہ بن چکی ہیں، آجکل غزل بھی خوب کہہ رہی ہیں۔تخلیق کے ساتھ ان کا تنقیدی و تحقیقی کام بھی سراہنے کے لائق ہے، خصوصا اردو کے تریسٹھ نظم نگاروں کا تعارف اور انگریزی ترجمہ پر مشتمل کتاب، جو عالمی سطح پر اردو نظم کی پذیرائی کا سبب بنی۔جنوبی ایشا کے قد آور شاعروں کی منتخب نظموں کا اردو ترجمہ جہاں زبان کا دائرہ وسیع کرتا ہے وہیں لکھنے والوں کی سوچ اور تخیل کے منظرنامے میں بھی وسعت کا باعث بنتا ہے۔ دنیا کے بہت سے مسائل اور معاملات ایک جیسے ہوتے ہیں۔ہر خطے کے ادیب کے خوابوں میں مماثلت ہوتی ہے کیونکہ وہ دنیا کو محبت اور امن کا گہوارہ بنانے کا خواہشمند ہوتا ہے اس لئے زندگی بھر جبر واستحصال، نفرت اور تقسیم کی فضا کے خلاف نبرد آزما رہتا ہے ۔ ایسی صورت میں ادیب کے لئے یہ جاننا بہت ضروری اور سود مند ہوتا ہے کہ خطے کے مختلف ملکوں میں رہنے اور مختلف حالات کا سامنا کرنے والے ادیب کیا سوچ اور لکھ رہے ہیں۔فیض پر لکھے انگریزی مضامین اور نئے اردو افسانے کی تدوین و تالیف کا فریضہ انجام دے چکی ہیں۔اس وقت ان کی تازہ کتاب ایک اور رخ میرے سامنے ہے جو پندرہ مضامین، جدید نظم میں طرزِ احساس کی تبدیلیاں،شعری تخلیق میں نئی پرانی جہات کا تصور، اردو میں مقبولِ عام شعری ادب اور سماجی رویے، اردو شاعری کے مرکزی کردار اور مضامین کا ارتقا،اردوشاعری کاموجودہ منظرنامہ، ہمارامعاشرہ اور عورت لکھاری،ادب ادیب اور قاری،چند باتیں، شکریہ فاروقی صاحب،فہمیدہ ریاض کی شاعری زہرا نگاہ کی شاعری،کچھ بانو قدسیہ کے بارے میں،تنویر انجم کی نظم،انیس اشفاق کا ناول پری زاد اور پرندے اور پاکستانی انگریزی ادب کے ستر سال پر مشتمل ہے۔ ہر مضمون اچھوتا اور فکر کو مالا مال کرنے والا ہے۔خصوصا اس کے مطالعے سے اردو ادب کا طالب علم ادب کی مختلف جہتوں کو بہتر طور سمجھ سکتا ہے۔ زیادہ تر مضامین شاعری اور خواتین لکھاریوں کے حوالے سے ہیں۔میری نگاہ میں اس کتاب کا سب سے اہم مضمون ہمارا معاشرہ اور عورت لکھاری ہے۔اس طویل تحریر میں تخلیق کے سفر میں عورت کو پیش آنے والی مشکلات اور تہذیبی و سماجی رکاوٹوں کا تذکرہ ہے۔وہیں ایسے اچھوتے شعر اور نظم کے حصے بھی رقم کئے ہیں جو اظہار اور تحریر کی بندشوں کے دور میں خواتین تخلیق کار کہہ گئیں۔میرتقی میر کی بیٹی کا شعر ملاحظہ کریں اور سوچیں کہ میر تقی میر نے تذکرہ نکات الشعرا میں 104شاعروں کے تذکرے میں ایک بھی عورت کو شامل نہ کیا۔ شعر دیکھیں
کچھ بے ادبی اور شبِ وصل نہیں کی
ہاں یار کے رخسار پہ رخسار تو رکھا
ایک اور رخ، یقینا ادب کی چاہ رکھنے والوں کا ادبی ذوق نکھارے گی، علمی و ادبی شعور کی تربیت کرے گی، آج کے ادبی افق پر رکھی معلومات سے روشناس کرے گی اور تخلیق کار و قاری کے درمیان رابطے کا وسیلہ بنے گی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ