گالی گلوچ بریگیڈ یا سیاسی جماعتیں؟ … تحریر : حامد میر


کرن تھاپر بھارت کے ان چند صحافیوں میں سے ایک ہیں جن سے ہر حکومت ناراض رہتی ہے۔ بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی 2007 میں ان سے ناراض ہوئے تھے اور آج تک ناراض ہیں۔ کرن تھاپر کے ساتھ ان کا انٹرویو شروع ہوا تو گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام میں مودی انتظامیہ کے ملوث ہونے کے بارے میں سوال پر مودی لاجواب ہوگئے۔ مودی نے صرف تین منٹ کے بعد یہ انٹرویو ختم کر دیا اور پھر کبھی کرن تھاپر کو انٹرویو دینے کا خطرہ مول نہیں لیا۔ بہت سال پہلے کرن تھاپر کے کاٹ دار سوالات نے بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک کو مقبولیت بخشی۔ آج کل وہ دی وائر کیلئے انٹرویو کرتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کرن تھاپر نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ پاکستان کے حالات پر میرا انٹرویو کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کی طرح میں بھی ایک صحافی ہوں آپ میری بجائے حکومت کے کسی نمائندے کا انٹرویو کریں۔ کرن تھاپر کا کہنا تھا کہ بھارت میں ان کے ناظرین یہ جاننا چاہتے ہیں کہ عمران خان کا کیا مستقبل ہے اور پاکستان میں انتخابات ہونگے یا نہیں ؟ میں نے انٹرویو سے بچنے کی کوشش کی کیونکہ پاکستان کے حالات پر پاکستانی میڈیا پر بولنا آسان ہے لیکن بھارتی میڈیا پر بولنا مشکل ہے کیونکہ وہاں ٹیلی ویژن پر ہونیوالی گفتگو بھی پاک بھارت جنگ بن جاتی ہے اور موجودہ حالات میں پاکستان کا دفاع خاصا مشکل کام ہے۔ کرن تھاپر نے کہا کہ آپ نوے دن کے اندر انتخابات کی حمایت کر رہے ہیں حالانکہ ایسا ہوتا مشکل نظر آتا ہے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ نوے دن میں الیکشن کیوں چاہتے ہیں ؟میں جانتا تھا کہ وہ اور بھی بہت کچھ پوچھیں گے پہلے بھی ان کو کئی مرتبہ انٹرویو دے چکا ہوں۔ وہ گفتگو کو پاک بھارت جنگ میں تبدیل نہیں کرتے لہذا میں نے انٹرویو پر رضامندی ظاہر کر دی۔ یہ ایک لائیو انٹرویو تھا اور انٹرویو مکمل ہونے کے بعد میں روز مرہ معمولات میں مصروف ہو گیا۔ کچھ دیر بعد ایک اور معروف بھارتی چینل سے فون آ گیا بہت شائستہ لہجے میں احتجاج کرتے ہوئے کہا گیا کہ آپ بار بار کرن تھاپر کو انٹرویو دیتے ہیں ہمیں وقت نہیں دیتے جو ناانصافی ہے۔ میں نے بھی عاجزی کے ساتھ کہا کہ ایک صحافی ایک دن میں کتنے انٹرویو دے سکتا ہے میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ ہر وقت انٹرویو دیتا رہوں۔ شاید میرے الفاظ نامناسب تھے لہذا بھارتی صحافی نے کہا کہ کرن تھاپر کے ساتھ انٹرویو کے بعد سوشل میڈیا پر آپ کے خلاف جو طوفان برپا ہے شاید وہ ہمارے ساتھ انٹرویو پر برپا نہ ہوتا کیونکہ ہم آپ سے پاکستان اور بھارت کے کرکٹ میچ پر بھی بات کرتے لیکن کرن تھاپر نے تو ایک سوال بھی کرکٹ کے بارے میں نہیں کیا۔ میں نے بتایا کہ ہمارا اصل موضوع پاکستان کا آئین تھا پھر بھارتی صحافی نے کہا کہ میں آپ کو کچھ لنکس بھیج رہا ہوں آپ خود ہی دیکھ لیں آپ کے انٹرویو پر کیا ردعمل ہے۔

بھارتی صحافی نے مجھے بہت سے لنکس بھیج دیئے۔ میرے پاس وقت نہیں تھا کہ میں ان لنکس پر جاکر ردعمل دیکھتا۔ پھر ایک تحریک انصاف کے رہنما کا فون آ گیا۔ کہنے لگے کہ آپ نے کرن تھاپر کو یہ تو صحیح کہا کہ انتخابات نوے دن میں ہونے چاہئیں لیکن یہ صحیح نہیں کہا کہ عمران خان کے پاس سٹریٹ پاور نظر نہیں آ رہی ۔میں نے اپنے اس بھائی کو یاد دلایا کہ میرے اصل الفاظ یہ ہیں کہ عمران خان ایک مقبول لیڈر ہے جس نے گزشتہ سال کئی ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی لیکن دو مواقع پر انکی سٹریٹ پاور کا امتحان آیا۔ پہلی دفعہ مئی 2022 میں جب انہوں نے اسلام آباد پر چڑھائی کا اعلان کیا اور پھر واپس چلے گئے ۔دوسری مرتبہ وہ نومبر 2022 میں راولپنڈی آئے اور دو صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کرکے واپس چلے گئے۔تحریک انصاف کے رہنما نے شکوہ کیا کہ آپ نے کرن تھاپر کو یہ کیوں کہا کہ عمران خان کے دور میں آپ پر نو ماہ تک پابندی رہی آپ کو کہنا چاہئے تھا کہ یہ پابندی جنرل قمر جاوید باجوہ نے لگوائی۔مجھے جواب میں کہنا پڑا کہ جب مجھ پر پابندی تھی تو بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں سٹیفن سیکر کو میں نے یہی کہا تھا کہ مجھ پر پابندی اسٹیبلشمنٹ نے لگوائی ہے لیکن بطور چیف ایگزیکٹو عمران خان بھی ذمہ دار ہیں ۔یہ فون بند ہوا تو مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما کا میسج آگیا۔ مختصر میسج میں لکھا گیا تھا کہ کرن تھاپر کو دیئے جانے والے انٹرویو میں آپ تحریک انصاف کے ترجمان لگ رہے تھے ۔میں نے اس دوست کو کال بیک کیا اور ہنستے ہوئے پوچھا کہ آپ کو میرے کون سے جملے میں تحریک انصاف کی ترجمانی نظر آئی ؟ کہنے لگے آپ بار بار نوے دن میں الیکشن پر کیوں اصرار کر رہے ہیں یہ اصرار تو تحریک انصاف کر رہی ہے۔ میں نے بڑے ادب سے انہیں عرض کیا کہ نوے دن میں الیکشن آئین پاکستان کی دفعہ 224میں لکھا ہوا ہے اور میرے خیال میں مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں کیا جانے والا کوئی بھی فیصلہ آئین کی خلاف ورزی کا جواز مہیا نہیں کرتا۔ اسی شام کشمیری حریت پسند رہنما سید علی گیلانی کی برسی پر ہونے والے ایک تعزیتی ریفرنس میں ایک ریٹائرڈ جرنیل نے اپنی کڑاکے دار انگریزی میں کہا کہ کرن تھاپر نے تم سے پوچھا کہ پاکستان میں پھر سے مارشل لا کا خطرہ تو نہیں اور تم نے جواب دیا کہ اٹھارہویں ترمیم نے کسی بھی عدالت کو مارشل لا کی توثیق سے روک دیا ہے حالانکہ تمہیں جواب دینا چاہئے تھا کہ پاکستان میں تو عملی طور پر مارشل لا لگ چکا ہے۔ میں نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد ریٹائرڈ جرنیل سے پوچھا کہ کیا آپ یہ بیان ٹی وی پر آکر دیں گے؟ جرنیل صاحب نے برا منا کر منہ موڑ لیا۔میں نے اس روٹھے ہوئے جرنیل کو ذرا سی گستاخی کے ساتھ کہا کہ آپ لوگوں نے مفاد پرست سیاستدانوں کے ساتھ مل کر وطن عزیز کا جو حال کر دیا ہے اس میں کسی بھارتی ٹی وی چینل پر پاکستان کا بہترین دفاع صرف یہ ہے کہ آئین پاکستان کی دفعہ 6 نے فوجی بغاوت کا راستہ ہمیشہ کیلئے بندکر دیا ہے کیونکہ کوئی عدالت آئین توڑنے والوں کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتی اسلئے جج صاحبان خوف کی زنجیریں توڑ کر آئین کا دفاع کریں۔ روٹھے ہوئے جرنیل نے یہ سن کر دوبارہ میری طرف دیکھا اور ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تم ٹھیک کہتے ہو۔

کرن تھاپر کے ساتھ انٹرویو پر تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) دونوں مجھ سے ناراض ہیں کیونکہ میں نے ان دونوں کے مفاد میں کچھ نہیں کہا۔مجھے جو آئین پاکستان کے مطابق درست لگا وہ میں نے کہہ دیا۔دونوں جماعتیں آج کل سوشل میڈیا پر گالی گلوچ کے مقابلے میں مصروف ہیں اور اس مقابلے نے دونوں میں فرق ختم کر دیا ہے۔دونوں کے پاس عوام کے مسائل کا ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے گالی گلوچ اور الزام تراشی۔کرن تھاپر اور مجھ جیسے گستاخ صحافی اس قسم کے گالی گلوچ بریگیڈز کا ہمیشہ ٹارگٹ بنے رہیں گے اور یہی بطور صحافی ہمارا فخر ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ