واپڈا کا مساویانہ سلوک۔اکیسویں صدی کی کہانیاں۔۔(اکرم سہیل)


واپڈا کے اعلی آفیسران سے آزاد کشمیر کے کچھ لوگ 1962 کے ایک مکتوب کے حوالہ سے آزاد کشمیر کے بجلی کے صارفین کا پاکستان کے صارفین کے برابر ‘مساویانہ سلوک’ کے موضوع پربات چیت کر رہے تھے۔ آزاد کشمیر والوں کا موقف تھا کہ آزاد کشمیر میں منگلا ڈیم سے 2 روپے فی یونٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے لیکن ہمیں22 روپے یونٹ دی جا رہی ہے۔ آزاد کشمیر کے لوگوں کے ساتھ منصفانہ اور مساویانہ سلوک نہیں ہو رہا ہے ۔اس پر واپڈا کے ایک آفیسر پرجوش انداز میں کہنے لگے۔ ” اس سے زیادہ آپ لوگوں کے ساتھ اور کیا مساویانہ سلوک کیا جا سکتا ہے۔کہ ھم نے پاکستان میں بجلی کے بلوں کے ذریعہ بجلی کے پرائیوٹ پاور پروڈیوسرز کی جیبیں بھرنے اور فری بجلی استعمال کرنے والوں کا بوجھ عوام پر ڈالنے کیلئے بجلی کے بلز اتنے بڑھا دیئے ہیں کہ پاکستانی عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں اور وہ خود کشیاں کر رہے ہیں ۔ اگرچہ آپ کے علاقہ میں بجلی 2 روپے فی یونٹ پیدا ہو رہی ہے،لیکن ہم نے صرف مساویانہ سلوک کی خاطر آزاد کشمیر کو دی جانے والی بجلی کے ٹیرف میں بھی وہی اضافہ لاگو کر دیاہے تاکہ آپ لوگوں کی بھی پاکستانیوں کے برابر چیخیں نکلیں اور پاکستانیوں کے ساتھ آپ کے رشتے مضبوط ہوں اور آپ کے ساتھ مساویانہ سلوک کرنے کا وعدہ بھی پورا کیا جا سکے۔لیکن افسوس ہے کہ ابھی تک آپ کے علاقے میں کوئی خود کشی نہ ہوئی ہے۔” مساویانہ سلوک کے یہ دلائل سننے کے بعد آزاد کشمیر والوں کی بولتی بند ہو گئی اور وہ وہاں سے جان بچا کر بھاگ گئے۔