خلا اور تعطل میں کیا فرق ہے؟ … تحریر : وجاہت مسعود


عنوان میں تجرید کا عنصر کچھ زیادہ ہو گیا ہے۔ جیسا کہ ہماری آبادی کے پھیلاؤ سے واضح ہے، ہم اجتماعی طور پر مجرد طبع نہیں ہیں۔ 3 کروڑ 40 لاکھ سے چلے تھے، شبانہ روز محنت اور یک نکاتی ارتکاز کی مدد سے 24 کروڑ 90 لاکھ کا ہندسہ عبور کر چکے ہیں۔ اس میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی آبادی ہم بوجوہ شمار نہیں کرتے۔ قدرتی سائنس اور ریاضی تو ایک طرف، ہم تو جغرافیے کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ خلائی تحقیق جیسا وقیع موضوع ہی کیوں نہ ہو، ہمیں کچھ ہلکی پھلکی موسیقی کی جستجو رہتی ہے۔ اس میں بھی طاؤس و رباب کو حضرت اقبال نے قلم زد کر دیا اور بادہ و ساغر ہمارے ایک زاہد تنگ نظر کے ذوق ِامتناع کی نذر ہو گئے۔ لے دے کے شاعری ہمارا اثاث البیت ٹھہری ہے۔ بایں ہمہ سمجھنا چاہیے کہ زوال ٹکڑوں میں نمودار نہیں ہوتا، بحران کی یورش ہمہ جہت اور چہار سو ہوتی ہے۔ معاشرے کا کوئی شعبہ انحطاط سے مامون نہیں رہتا۔ شاعری میں ہم نے پاک ٹی ہاؤس کی ایک چھوٹی سی میز پر ایسے آفتاب و مہتاب مجتمع دیکھے کہ شہرت بخاری کی خود شناسی پکار اٹھی، اٹھ جائے جس روز، تو آئے گا بہت یاد۔ اور آج انہیں سے رجوع کرنا پڑ رہا ہے۔ جولائی 1969 میں انسان نے چاند پر قدم رکھا تو اسے اگست 1945 کے ایٹمی حملوں کے بعد ارتقائے انسانی کا اہم ترین مرحلہ شمار کیا گیا۔ یہ مضمون شاعری میں بھی راہ پا گیا۔ شہرت بخاری نے مطلع کہا، ہم شہر میں اک شمع کی خاطر ہوئے برباد…لوگوں نے کیا چاند کے صحراؤں کو آباد۔ کچھ دور سے احمد فراز کی آواز آئی، بستیاں چاند ستاروں کی بسانے والو… کرہ ارض پہ بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ۔ یاد رہے کہ یہ جولائی 1969 تھا۔ بھارت نے اگست 1969 میں انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن (ISRO) کی بنیاد رکھی۔ پاکستان کوئی نو برس پہلے ڈاکٹر عبدالسلام کی سربراہی میں خلائی تحقیق کا ادارہ سپارکو قائم کر چکا تھا۔ اب اس ادارے کا کیف و کم یہ ہے کہ آخری مرتبہ 2003 میں مقامی وسائل سے تیار کردہ سیارہ خلائی مدار میں روانہ کیا گیا تھا لیکن یہ سیارہ اپنی موعودہ میعاد 5 برس مکمل نہیں کر سکا اور دو برس بعد خلا کی پنہائیوں میں کہیں کھو گیا۔ رواں برس سپارکو کا کل بجٹ کوئی ساڑھے 7 ارب روپے (تقریبا 25 ملین ڈالر) ہے۔ میجر جنرل عامر ندیم 2018 سے ادارے کے سربراہ ہیں جنہوں نے ایروناٹیکل انجینئرنگ میں بی ایس کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ دوسری طرف بھارت نے اس سال اپنے خلائی ادارے کے لئے ساڑھے 12 ہزار کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ ادارے کے سربراہ سومناتھ ایروسپیس انجینئر ہیں۔ 23 اگست 2023 کو ان کی نگرانی میں چاند کے جنوبی قطب پر پہلی مرتبہ کامیابی سے اترنے والے خلائی جہاز چندریان تھری پر کل 75ملین ڈالر کی لاگت آئی ہے۔ موازنے کیلئے یوں سمجھ لیجیے کہ 2013میں خلائی سفر کے موضوع پر بننے والی امریکی فلم Gravity پر 100 ملین ڈالر اٹھ گئے تھے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ محض چند روز قبل روس کا خلائی جہاز چاند کے اسی منطقے میں اترتے ہوئے تباہ ہو گیا تھا۔ وجہ یہ کہ 1976 کے بعد سے روس نے قمری تحقیق پر توجہ ہی نہیں دی۔ بھارت کا خلائی ادارہ اس وقت دنیا میں دسویں درجے پر شمار کیا جاتا ہے اور آئندہ برس امریکا کے ساتھ مل کر خلائی اسٹیشن قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ سائنسی اعتبار سے چندریان کی بڑی کامیابی یہ ہے کہ بھارت کا خلائی پروگرام محض ذرائع ابلاغ اور مشاہداتی سرگرمیوں جیسے محدود مقاصد کی بجائے عالمی سطح پر سائنسی طاقتوں کی ٹھوس خلائی تحقیق میں شامل ہو گیا ہے۔ اب تک چندریان نے چاند پر آکسیجن، گندھک، سلیکون، کیلشیم اور لوہے کے آثار دریافت کر لئے ہیں۔ اگر ہائیڈروجن کے نمونے مل گئے تو چاند پر پانی کی موجودگی بعید از قیاس نہیں رہے گی۔ اس شعبے میں پیش رفت سے بھارتی معیشت کے لئے نئی راہیں کھلیں گی۔ نجی اور سرکاری سطح پر سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہو گی۔ بھارتی ماہرین 2040 تک خلائی معیشت کا حجم 100 ارب ڈالر تک لے جانا چاہتے ہیں۔ اس ضمن میں سیاسی اور عسکری پہلو سے فوائد سامنے کی بات ہے۔

سوال یہ ہے کہ پاکستان اس شعبے میں بہت پہلے داخل ہونے کے باوجود پیچھے کیوں رہ گیا؟ کسی ملک کی سائنسی ترقی وہاں کے سیاسی استحکام اور معاشی حالت سے جدا کر کے نہیں دیکھی جا سکتی۔ اس برس ہماری معاشی شرح نمو 0.29 رہنے کا امکان ہے۔ ایک فیصد سے بھی کم شرح نمو قبل ازیں ہماری تاریخ میں صرف 4 مرتبہ پیش آئی ہے۔ دراصل گزشتہ چار دہائیوں میں ہم نے جن امور سے شغف رکھا ہے، وہ سائنسی، تعلیمی، معاشی ترقی کی طرف نہیں لے جاتے۔ خلا میں پرواز کا شوق خلا میں معلق رہ کر پورا نہیں ہو سکتا، اور یہ خواب ملکی بندوبست میں بار بار تعطل سے بھی پورا نہیں ہوتا۔ خلا کو تسخیر کرنا ہے تو اجتماعی ترجیحات میں تسلسل لانا پڑے گا اور اس کے لئے متعدد امراض کہنہ سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔ اس وقت ملک کو چار بنیادی مسائل کا سامنا ہے، داخلی اور بیرونی قرض، اندھا دھند بڑھتی آبادی، ناخواندگی نیز معیاری تعلیم کی کمی اور سرمایہ کاروں میں اعتماد کا بحران۔ اب اس چہار طرفہ کھائی میں آپ سلامتی کے اندرونی اور خارجی خطرات، سیاسی ثقافت کی کمزوریاں اور تمدنی انتشار جیسے اشاریے بڑھاتے چلے جائیں، بنیادی سوال یہ ہے کہ ہمیں قوم تعمیر کرنا ہے یا ذاتی اور طبقاتی مفادات کی بھٹی گرم رکھنا ہے۔ اگر ہم قوم کو تقسیم در تقسیم اور مسلسل تجربات کی مشق کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں تو پھر سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کا خواب ترک کر دیں۔ خلائی تسخیر کے لئے جس تسلسل کی ضرورت پڑتی ہے، وہ تعطل اور عبوری تجربات سے برآمد نہیں ہو سکتا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ