صدر مملکت کی تنخواہ کا ایشو سامنے آیا ہے۔ خبر تو یہ ہے کہ صدر مملکت نے دو مرتبہ اپنی تنخواہ میں اضافہ مانگ لیا ہے۔ اس خبر کے بعد عمومی رد عمل یہی سامنے آیا ہے کہ کیا صدر مملکت کو علم نہیں کہ ملک کس قدر معاشی بحران کا شکار ہے۔
بجلی کے بلوں پر پورے ملک میں احتجاج ہو رہا ہے۔ ایسے موقعے پر جہاں حکمرانوں کو قربانی دینی چاہیے ۔ وہاں صدر مملکت دو مرتبہ اپنی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
یہ سوال بھی کیاجا رہا ہے کہ صدر مملکت کے پاس تو پہلے ہی بہت سی مراعات ہیں۔ وہ ایوان صدر میں رہتے ہیں۔ ان کا سب کچھ پہلے ہی سرکار کے ذمے ہے۔ ان کا کیا خرچہ ہے کہ ان کی تنخواہ میں اضافہ کیا جائے۔ وہ پہلے ہی آٹھ لاکھ روپے سے زائد تنخواہ لے رہے ہیں۔
ان کے مقابلے میں وزیر اعظم اور وزرا کی تنخواہیں بہت کم ہیں۔ کیا تمام سرکاری مراعات کے ساتھ آٹھ لاکھ سے زائد تنخواہ صدر مملکت کے لیے کم ہے ۔
وزیر اعظم صرف اڑھائی لاکھ روپے کی تنخواہ میں کام کرتا ہے۔ وزرا کی تنخواہ اس سے بھی کم ہے۔ کیا صدر مملکت کو اس بات کا احساس ہے۔ کیا اس ماحول میں صدر مملکت کو اپنی تنخواہ بڑھانے کی بجائے کم کرنے کا نہیں کہنا چاہیے۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں۔ لیکن ایک قانونی تقاضہ بھی ہے۔ پاکستان میں قانون ہے کہ کسی بھی سرکاری اہلکار کی تنخواہ صدر مملکت سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔
قانون میں لکھا ہے کہ چاہے ایک روپے لیکن صدر مملکت کی تنخواہ پاکستان میں سرکارسے تنخواہ لینے والوں میں سب سے زیادہ ہوگی۔ اس قانون کا مقصد یہ ہے کہ صدرریاست کے سربراہ ہیں۔ وہ پاکستان کے سپریم کمانڈر ہیں۔
مسئلہ یہ نہیں ہے کہ صدر مملکت کی تنخواہ سب سے زیادہ ہونی چاہیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سب کی ان سے کم ہونی چاہیے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ ماتحت زیادہ تنخواہیں لیں اور صدر مملکت کی تنخواہ کم ہو۔
یہ تو ریاست کو مذاق بنانے والی بات ہے۔ یہ ممکن ہے کہ صدر مملکت تنخواہ نہ لینے کا اعلان کر دیں اور ان کی تنخواہ واپس قومی خزانہ میں جمع کر دی جائے۔ وہ کسی بھی طرح اپنی تنخواہ عطیہ کر سکتے ہیں۔ لیکن قانونی تقاضہ یہی ہے کہ کوئی بھی ان سے زیادہ تنخواہ نہیں لے سکتا۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں کچھ عہدوں کی تنخواہ صدر مملکت سے زائد ہو گئی ہے۔ ان میں چیف جسٹس پاکستان،اعلی عدلیہ کے ججز اور دیگر نیم سرکاری اداروں کے سربراہان بھی شامل ہیں۔ صدر مملکت کی جانب سے یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ ریاست کے سرکاری اہلکار ان سے زیادہ تنخواہ کیسے لے سکتے ہیں۔ ان کی نشاندہی قانونی طور پر درست ہے۔
سوال یہ نہیں کہ صدر مملکت کی تنخواہ بڑھائی جائے، سوال یہ ہے کہ جس کی تنخواہ صدر مملکت سے زیادہ ہو گئی ہے۔
اس کی تنخواہ صدر مملکت کی تنخواہ سے کم کی جائے۔ ہم نے ماحول بنا دیا ہے کہ صدر مملکت کی تنخواہ بڑھائی جائے۔ ہم یہ سوال کیوں نہیں کر رہے کہ جس کی تنخواہ صدر مملکت سے زیادہ ہو گئی ہے۔ اس کی کم کی جائے۔
میری رائے میں جس نے اپنی تنخواہ بڑھا کر صدر مملکت سے زیادہ کر لی ہے۔ اس نے قانون توڑا ہے۔ اس کو پتہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ پاکستان کے قانون کے مطابق صدر مملکت سے زیادہ تنخواہ نہیں لے سکتا۔ اس کا اپنی تنخواہ بڑھانا غلط ہے یااس قانون کی خلاف ورزی جرم ہے۔ صدر مملکت نے تو قانون کی اس خلاف ورزی کی نشاندہی کی ہے۔
اور ہم سب صدر مملکت کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ حالانکہ میرے نزدیک غلطی وہاں ہوئی جہاں کسی کی تنخواہ صدر مملکت کی تنخواہ سے بڑھ گئی ہے۔ آپ سوال کر سکتے ہیں کہ سرکاری اہلکاروں کی تنخواہ بڑھانے کا اختیار تو حکومت کے پاس ہے۔کوئی اپنی تنخواہ کیسے بڑھا سکتا ہے۔
سرکار میں تو کسی کے پاس بھی اپنی تنخواہ خود مقرر کرنے کا اختیار نہیں۔ سرکاری تنخواہوں کا ایک طریقہ کار ہے۔ کس گریڈ کا افسر کیا تنخواہ لے گا، کیا مراعات ہوں گی ،سب لکھا ہوا ہے۔پھر یہ قانون کس نے توڑا ہے۔ اگر سرکار نے خود ہی قانون توڑا ہے تو پھر کیا کریں۔ کیا حکومت اس قانون کے ٹوٹنے کی ذمے دار نہیں ہے؟
لیکن میری تحقیق کے مطابق پاکستان میں اب ایسے ادارے بھی موجود ہیں جنھیں مالی خود مختاری بھی دی گئی ہے۔ وہ اپنی تنخواہیں اور مراعات خود ہی مقرر کرتے ہیں۔
اپنی تنخواہوں میں اضافہ بھی خود ہی کرتے ہیں۔ اس لیے حکومت کا اس میں کوئی خاص عمل دخل نہیں ہے۔ عدلیہ بھی ایسا ہی ایک ادارہ ہے۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ جہاں تنخواہ صدر مملکت سے زیادہ ہو گئی ہو وہاں تنخواہ بڑھانے اور کم کرنے کا اختیار حکومت کے پاس نہیں۔ اس لیے حکومت کچھ نہیں کر سکتی۔ پھر اب کیا کیا جائے؟
ایسے میں حکومت کے پاس تو قانون کی پاسداری قائم رکھنے کے لیے ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ صدر مملکت کی تنخواہ بڑھا دی جائے۔ ایک تحقیق کے مطابق صدر مملکت اس وقت آٹھ لاکھ روپے سے زائد تنخواہ لے رہے ہیں جب کہ چیف جسٹس بارہ لاکھ روپے سے زائد تنخواہ لے رہے ہیں۔ وزیر اعظم اڑھائی لاکھ روپے تنخواہ لے رہے ہیں۔
تنخواہوں میں یہ بے ہنگم فرق پاکستان کے نظام حکومت کے اندر موجود بے ہنگم صورتحال کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ پاکستان کا انتظامی سربراہ وزیر اعظم ہے۔ سب اختیارات وزیر اعظم کے پاس ہیں۔ لیکن وہ انتہائی کم تنخواہ لے رہے ہیں۔ صدر مملکت اور وزیراعظم کی تنخواہ میں بہت فرق ہے۔ سیاسی صورتحال اس سے الٹ ہے۔صدر مملکت نے صرف وزیراعظم کی ایڈوائس پر عمل کرنا ہے۔ سارا کام وزیراعظم نے کرنا ہے۔
صدر مملکت نے حکومت کے کاموں کی توثیق کرنی ہے اور جہاں وہ سمجھیں دوبارہ غور کے لیے کہنا ہے۔ جہاں وزیراعظم دوبارہ غور کے بعد بھی اپنی رائے پر قائم رہے وہاں صدر مملکت کا توثیق کا اختیار بھی ختم ہو جاتا ہے۔ وزیراعظم کی بات حرف آخر بن جاتی ہے۔ ہم نے عدلیہ کو انصاف کی فراہمی میں آزادی اور خود مختاری دینی ہے لیکن تنخواہوں میں اضافہ کا اختیار تو حکومت کے پاس ہی ہونا چاہیے۔ آپ دیکھ لیں آج قانون ٹوٹ چکا ہے۔
یہ صدر مملکت کی تنخواہ کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ نظام حکومت کا معاملہ ہے۔ آپ قانون بدل دیں اور کہہ دیں کہ کوئی بھی صدر مملکت سے زیادہ تنخواہ لے سکتا ہے۔آپ کہہ دیں صدر مملکت کی کوئی تنخواہ نہیں ہوگی۔ لیکن اگر قانون ہے تو اس پر عمل بھی ہونا چاہیے۔ قانون کو ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینکا جا سکتا۔ یہی نظام حکومت ہے۔
میں صدر مملکت کے بہت سے اقدامات کا ناقد ہوں۔ میں انھیں آئین وقانون کے مطابق بھی نہیں سمجھتا۔ لیکن پھر بھی اس بار صدر مملکت قانون کی بات کر رہے ہیں۔ میں ان کی تنخواہ بڑھانے کے حق میں نہیں بلکہ جس کی زیادہ ہو گئی ہے، اس کی کم کرنے کے حق میں ہوں۔ یہی درست حل ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس