لندن میں میاں نواز شریف سے ملاقات : تحریر مزمل سہروردی


لندن میں میاں نواز شریف سے ایک ون آن ون ملاقات ہوئی، ملاقات میں پاکستان کے سیاسی حالات اور آیندہ انتخابات سمیت تقریبا تمام موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ لیکن آج کل عام آدمی کی دلچسپی اس بات میں زیادہ ہے کہ میاں نواز شریف واپس آرہے ہیںیا نہیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ اب اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ واپس آرہے ہیں۔

ان کی واپسی کی تیاریاں حتمی مراحل میں داخل ہو چکی ہیں۔ میری گفتگو میں گو ایک واضح تاریخ تو سامنے نہیں آئی۔ لیکن واپسی میں کوئی ابہام نہیں ہے۔

میاں شہباز شریف بھی اس وقت لندن میں تھے۔ وہ بھی میاں نواز شریف کی وطن واپسی کے پروگرام کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔ میاں نواز شریف بھی واپسی کے لیے تیار ہیں لیکن ان کے ذہن میں کافی سوال ہیں لیکن یہ سوال واپسی میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ تا ہم وہ مستقبل کی سیاست کے حوالے سے ایک مربوط لائحہ عمل تیار کر رہے ہیں۔
ان کے نزدیک واپسی کوئی بڑی بات نہیں ہے، اصل سوال ہے کہ واپسی کے بعد کیا پالیسی ہوگی۔ عوام کے ساتھ کیا بات کرنی ہے۔ ہم عوام کو کیا دے سکتے ہیں اور عوام کو ہم سے کیا امیدیں ہیں۔

میاں نواز شریف ملک کی عمومی صورتحال پر پریشان نظر آئے۔ ان کی رائے میں ملک کا بہت نقصان ہو گیا ہے۔ پاکستان کے اس نقصان کا کون ذمے دار ہے؟ ان کو کیا سزا مل سکتی ہے، کہیں تو حساب ہونا چاہیے۔

ملک کو اس دلدل میں پہنچانے والے کیسے آزاد پھر سکتے ہیں۔ ان کی رائے میں ملک کی تباہی کا سفر 2014کے دھرنے سے شروع ہوا۔ نواز شریف کے مطابق ان کا ذاتی نقصان کوئی زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ انھوں نے جیل کاٹی۔ ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی۔انھیں غلط سزائیں دی گئیں۔ ان کے ساتھیوں کو جیل میں ڈالا گیا۔ ان کی بیٹی کو جیل میں ڈالا گیا۔

بھائی کے ساتھ ظلم ہوا لیکن اس سب کی وہ اہمیت نہیں جو پاکستان کے نقصان کی ہے۔ ہمارے ساتھ جو ہوا ہم نے برداشت کر لیا۔ لیکن پاکستان کے ساتھ جو ہوا ہے اس کا کیا کریں۔ میاں نواز شریف کے خیال میں پاکستان کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو معافی نہیں ملنی چاہیے۔ نواز شریف نا امید نہیں ہیں۔

ان کے خیال میں ہم پاکستان کو اس بحران سے نکال سکتے ہیں۔ موجودہ معاشی بحران کوئی ایسا بحران نہیں جس کا کوئی حل نہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے لوڈ شیڈنگ کے بحران کو حل کیا۔ ایٹمی دھماکے کیے۔ اس لیے ہم ملک کو موجودہ معاشی بحران سے نکال سکتے ہیں۔

ہم نے ماضی میں بھی کام کر کے دکھایا۔ کچھ دیر خاموشی کے بعد مسکراتے ہوئے میاں نواز شریف نے کہا ہمیشہ ہمارا کام ہی ہمارا جرم بن گیا۔ جب ہم کام کرتے ہیں تو باقی ڈر جاتے ہیں۔

اس لیے ہمیں نکالنے کے لیے سازشیں شروع ہو جاتی ہیں۔ انھیں خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے، ہمیں ووٹ سے تو نہیں نکالا جا سکتا پھر غیرآئینی طریقے سے نکالنے کے لیے سازشیں شروع ہو جاتی ہیں۔ بس یہی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

میاں نواز شریف مہنگائی سے بھی کافی پریشان لگے۔ انھوں نے کہا کہ میرے دور میں مہنگائی کی شرح دیکھ لیں اور بعد میں دیکھ لیں۔ لیکن اگر اللہ اور پاکستان کے عوام نے موقع دیا تو مہنگائی کو صرف بریک ہی نہیں لگائیں گے بلکہ کم بھی کریں گے۔

ہم نے بجلی چوری رکوانے کے لیے قانون سازی بھی کی تھی اور کام بھی کیا۔ لیکن ہمارے بعد سب زیرو ہوگیا، اور آج آپ صورتحال دیکھ لیں، کام نہ کریں تو ملک کو نقصان ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف ملک میں بروقت انتخابات کے حق میں ہیں۔

ان کی رائے میں کوئی بھی ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ یا کوئی بھی غیر منتخب سیٹ اپ ملک کے مسائل کو حل نہیں کر سکتا۔ حق حکمرانی صرف عوام کے منتخب نمایندوں کے پاس ہی ہو سکتا ہے، آپ کتنے بھی ماہر ٹیکنوکریٹ لگا لیں وہ ملک کے مسائل کا حل نہیں کر سکتے، یہ تجربے دنیا کے کئی ممالک میں ہوئے اور ناکام ہو گئے ہیں۔ ہمیں اب ایسے تجربات کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہیے بلکہ ان سے توبہ کر لینی چاہیے۔

ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ بھی آمریت کی ہی ایک شکل ہے۔ جیسے آمریت ملکی مسائل کا حل نہیں کر سکتی ایسے ہی ٹیکنوکریٹ بھی نہیں کر سکتے۔ ماہرین بھی جمہوری سیٹ اپ کے ساتھ ہی کام کر سکتے ہیں۔ جہاں عوام کا اعتماد انھیں حاصل ہو۔ انھوں نے کہا اب ملک کے ساتھ تجربات ختم کر دینے چاہیے اور آئین وقانون کے مطابق ملک کو چلانے پر بات ہونی چاہیے۔

میں نے کہا ملک میں تو ہر طرف محاذ آرائی ہے۔ نواز شریف نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا یہ کوئی اچھی بات ہے۔ اس محاذ آرائی نے ملک کو کیا دیا ہے۔ملک کو آج پھر اتحاد کی ضرورت ہے۔ ملکر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک دوسرے کو گالی دینے کی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کے راستے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بات کرنے کے راستہ تلاش کر لیتے ہیں۔ یہی سیاست کی خوبصورتی ہے جو سیاسی قوتوں سے بات نہیں کرتے ان کا حشر سب کے سامنے ہیں۔ سیاست کرنی ہے تو سیاسی لوگوں کے ساتھ ملکر کرنی ہے۔ اختلاف کی بھی حدود ہونی چاہیے۔

میاں نواز شریف کی رائے میں پاکستان میں جھوٹ کی سیاست نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ جھوٹے الزامات نے دیکھیں ہمیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ پاکستان میں جھوٹ کا ایک بازار گرم رہا ہے۔ آپ برطانیہ میں دیکھیں یہاں بھی سیاست ہے۔ لیکن یہاں کوئی کسی پر جھوٹا الزام نہیں لگا سکتا۔ یہاں جھوٹا الزام لگانے والا خود پکڑ میں آجاتا ہے۔

ہمیں پاکستان میں جھوٹ کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ جھوٹ کی سیاست اور جھوٹ کی صحافت دونوں ہی ملک کے لیے نقصان دہ ہیں۔ سچی صحافت ہی اصل صحافت ہے۔ آپ سچ لکھیں ۔ لیکن جھوٹ کو آزادی اظہار نہیں کہا جا سکتا۔ جھوٹ پر پکڑ ہونی چاہیے۔

اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں سچ کی تلاش مشکل ہو گئی ہے۔ یہ افسوسناک نہیں تو اور کیا ہے۔ جہاں جہاں جمہوریت مضبوط ہوئی وہاں جھوٹ ختم ہوا ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس