باہمی ایثار۔ باہمی اتحاد مسئلے کا حل : تحریر محمود شام


’’خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘( البقرہ آیت 190)۔ ’’اور خدا ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘(آل عمران آیت5)۔ ’’خدا تکبر کرنے والے بڑائی کرنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘(النساء ۔ آیت 36)۔ ’’خدا خائن اور مرتکب جرائم کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘(النساء۔ آیت107)۔ ’’خدا حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘(المائدہ۔ آیت87)۔’’ خدا اِترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (القصص۔آیت 76)

(مضامین قرآن حکیم۔مرتب۔زاہد ملک۔صفحہ131)

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں۔ مسلمانوں کی اکثریت والے ملک میں شہر شہر چنگاریاں کیوں سلگ رہی ہیں۔ شعلے کیوں بھڑک رہے ہیں۔ بزرگوں نوجوانوں کی آرزوئیں، تمنّائیں کیوں خاک ہورہی ہیں۔ ظلم خاموشی سے برداشت کرنے والے سڑکوں پر کیوں نکل آئے ہیں۔ جب سے ایک نا اہل، سیلیکٹڈ، گھڑی چور،سائفر خور کو تحریک عدم اعتماد سے ہٹاکر انتہائی تجربہ کار،امانت دار،ملک کو مستحکم کرنے والوں کو لایا گیا ہے۔ ملک واہگے سے گوادر تک مسلسل بے چینی، انتشار، کرب میں مبتلا ہے۔ ڈالر کسی کے قابو میں نہیں آرہا ۔ نہ ہی اس کی قدر میں کمی کرناحکمرانوں کی اولیں ترجیح ہے۔ مہنگائی میں کسی طرح کی کمی، اشیائے ضروریہ کی رسد میں اضافہ کسی ضلعی، صوبائی، وفاقی حکمراں کی پالیسی نہیں ہے۔

نا اہل حکمرانوں اور ان کے سرپرستوں کی پالیسیاں سڑکوں پر ننگے سر پھر رہی ہیں۔

خلق خدا سے مسلسل زیادتی ہورہی ہے۔ زیادتی کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا۔

چھوٹے بڑے قصبوں، شہروں میں بزرگوں عورتوں بچوں پر ظلم ہورہا ہے۔ اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔

تکبر، رعونت۔ الاماں،الخدر۔ ایسا تکبر، ایسی رعونت پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ اپنی بڑائی دن رات ماری جارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ تکبر کو بڑائی مارنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

سالہا سال سے قومی خزانے میں خیانت کی جارہی ہے۔ جرائم کا ارتکاب کیا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ خائن اور مرتکب ِجرائم کو پسند نہیں کرتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ بہت سے مقتدر حد سے بڑھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔

شاہ تو اپنی جگہ اِترارہے ہیں۔ ان کے مصاحب تو ان سے کہیں زیادہ اِترارہے ہیں۔ خدا اِترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

آئیے۔ ہم سب اللہ تعالیٰ سے، اس رحیم و کریم سے گڑ گڑاکر معافی مانگیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ لوگ ہم پر مسلط ہیں۔ 22 کروڑ پر ظلم ہورہا ہے، سیاسی ظلم،اقتصادی ستم، عدالتی جور، سماجی جبر اور یہ وہ لوگ کررہے ہیں ۔ اقبال کہہ رہے ہیں:

خدا نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں

خبر نہیں روش بندہ پروری کیا ہے

جو لوگ خوف خدا نہیں رکھتے۔ وہ خیالِ ہم نفساں کیا رکھیں گے۔چھوٹے بڑے افسر، صوبائی،وفاقی حکمراں، وردی، بے وردی کوئی بھی بندہ پروری کی اہلیت میں نہیں رکھتا۔ نہ ہی کسی کو اپنے ہم وطنوں کی بے خواب راتوں کی تشویش ہے۔ رشوت کا بازار گرم ہے۔ کوئی عام معمولی کام بھی رشوت کے بغیر نہیں ہورہا۔

چاروں صوبوں اور وفاق میں کہیں ایسی حکومت نہیں ہے جسے عوام نے مینڈیٹ دیا ہو۔ کہیں کہیں کوئی بلدیاتی اداروں میں جیسے تیسے چنیدہ لوگ بیٹھے ہیں۔ ان کی طرف سے بھی اپنے ہم وطنوں کی اس حالت زار پر کوئی ہمدردی کوئی فکر ظاہر نہیں کی جارہی۔ سیاسی جماعتیں جو کسی جمہوری نظام کا سب سے مضبوط ستون ہوتی ہیں۔ ان میں سے کسی کی ہمت نہیں ہے کہ باہر نکلے عوام کا ساتھ دے سکے کیونکہ ان دنوں عوام بلا امتیاز، زبان و رنگ و نسل، بجلی کے جن ظالمانہ بلوں کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ وہ ان ساری جماعتوں کی پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہیں۔ وہ نگراں حکومت کے بنائے ہوئے نہیں ہیں۔

وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں

انہیں کہیں سے بلاؤ بڑا اندھیرا ہے

(ساغر صدیقی)

حکمراں چاہے اندھیرے کا خاتمہ اپنی ترجیح رکھیں یا نہیں۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ قومیں ایسے اندھیروں سے باہر نکلتی رہی ہیں۔ ہماری قوم نے بھی 76 سال میں بڑی بڑی آزمائشوں اور المیوں کا سامنا کیا ہے۔ غضب یہ کہ واہگہ سے گوادر تک ہمیں مایوس کردیا گیا ہے کہ عوام کو درپیش اس اقتصادی بحران سے نکلنا آسان نہیں ہے۔

یقیناً سرکاری ایوانوں، پریذیڈنٹ ہاؤس، وزیر اعظم ہاؤس، وزرائے اعلیٰ ہاؤسز سے کوئی امید نہیں رکھی جاسکتی۔ کیونکہ یہ ان کی ترجیح بھی نہیں ہے اور نہ ان کا اختیار ہے۔ عدلیہ بھی بہت دیر کرچکی ہے۔

راہ نجات درد مند پاکستانیوں کی دسترس میں ہے۔ اپنے سیاسی اور سماجی شعور سے ہم کو صراط مستقیم مل سکتی ہے۔ 22کروڑ کو حالات کے ،آئی ایم ایف کے، حکمرانوں کی انا کی رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اب تو خودکشیوں تک کی نوبت پہنچ گئی ہے۔ ماہرین معیشت یقیناً اس کرب سے نکال سکتے ہیں۔ یونیورسٹیاں، درسگاہیں، دینی مدارس، علمائے کرام، ائم مساجد، بے قاعدہ میڈیا سب اس کے حل بتا بھی رہے ہیں۔ بہت سے ممالک ایسی آزمائشوں سے سرخرو ہوکر نکلے ہیں۔ اس وقت وہ خوشحالی کے راستے پر گامزن ہیں۔ ہمیں امداد باہمی کے طریقے اختیار کرنے ہوں گے۔ ایک دوسرے سے تعاون بڑھانا ہوگا۔ اس بحران کی لپیٹ میں عام پولیس والوں کے گھر بھی آچکے ہیں۔ چھوٹے دیانتدار افسروں کے لئے بھی گزارہ مشکل ہے۔ چھوٹے دکاندار،تاجر،آڑھتی سب مہنگائی کے سامنے بے بس ہیں۔ مگر یہ سب کچھ قابل علاج ہے۔ عام بزرگ بھی راستے بتارہے ہیں۔مسیحا کے انتظار کی بجائے خود کچھ کرنا ہوگا۔

بات سمجھنے کی یہ ہے کہ ارباب حل و عقد جن سے ہم خیر کی امید رکھتے ہیں۔ یہ مشکلات اور محرومیاں ان ہی کی پیدا کردہ ہیں۔ یہ اذیت پسند ہمیں اس بے چارگی میںہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس پر خوش ہوتے ہیں۔ پھر کسی طاقت سے اس کسمپرسی میں ڈالنے کی داد بھی چاہتے ہیں۔ہمیں ہمت کرنا ہوگی۔ ہم صدیوں سے مشکلات کی مزاحمت کرتے آرہے ہیں۔ سفاک حملہ آوروں کا سامنا بھی کیا ہے۔ اب تو ہم قوت ایمانی سے سرشار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر قسم کے قدرتی وسائل سے نوازا ہے۔ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے۔ ایک دوسرے کا دُکھ درد جانیں۔ محلّے میں روزانہ کی بنیادوں پر ملیں۔ مالی طور پر جو کمی اور خلا ہے اس کو مقامی طور پر پُر کریں۔ آسمانوں سے فرشتے نہیں اتریں گے۔ نہ من و سلویٰ آئے گا۔ اپنے وسائل خود استعمال کریں۔ اللہ تعالیٰ کے نا پسندیدہ ظالموں، جابروں، متکبروں، خائنوں سے نجات، باہمی ایثار۔ باہمی اتحاد سے ہی میسر آئے گی۔آپس میں ایک دوسرے کے مسائل اور مصائب جان کر محلے کی سطح پر متحدہ ہو جائیں۔ ماہرین معیشت سے رابطہ کریں۔ متبادل توانائی کے راستے اختیار کریں۔ اپنے مینڈیٹ کے حصول پر زور دیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ