او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل اجلاس کے تین سیشن ہوں گے،ابتدائی ،اختتامی سیشن اوپن جبکہ ورکنگ سیشن ان کیمرہ ہو گا،شاہ محمود قریشی


اسلام آباد(صباح نیوز)وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہاہے کہاکہ 19 تاریخ کو او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کے تین سیسشن ہوں گے،ابتدائی اور اختتامی سیشن اوپن جبکہ ورکنگ سیشن ان کیمرہ ہو گا،جمعہ  سے مہمان وفود پاکستان آنا شروع ہو جائیں گے،وزیرخارجہ اہم ٹی وی اینکرز اور نیوزایڈیٹرز سے گفتگو کررہے تھے،وزارت خارجہ کی جاری تفصیلات کے مطابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی وزارتِ خارجہ میں اہم ٹی وی اینکرز اور نیوز ایڈیٹرز کو افغانستان کی صورتحال اور او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی

وفاقی وزیر برائے اطلاعات فواد حسین چوہدری اور وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب نے بھی اجلاس میں خصوصی شرکت کی ،وزیر خارجہ نے ٹی وی اینکرز اور نیوز ایڈیٹرز کو وزارت خارجہ آمد پر خوش آمدید کرتے ہوئے کہاکہ آج کے اجلاس کا مقصد او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کے اغراض و مقاصد کے حوالے سے آپ کو آگاہ کرنا تھا، پاکستان میں ایک طویل عرصے کے بعد 19 دسمبر کو او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کا غیر معمولی اجلاس ہونے جا رہا ہے،

انہوں نے کہاکہ 15 اگست کے بعد افغانستان میں جو تبدیلی رونما ہوئی اور اس کے بعد اس تبدیلی کے حوالے سے کئی خدشات سامنے آئے، ہمارے پڑوسی نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے “سینکشن پاکستان” کی میڈیا مہم چلائی-اللہ کے کرم سے ان کا جھوٹ بے نقاب ہوا اور ہمارے میڈیا نے اس جھوٹ کو بے نقاب کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا، مخدوم شاہ محمود قریشی کا کہناتھا کہ اس وقت افغانستان میں معاشی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، 15 اگست کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ صورتحال مزید خراب ہوئی تو افغانستان میں خانہ جنگی اور مہاجرین کی یلغار کا خطرہ بہت حد تک بڑھ جائے گا، کابل ائرپورٹ کے مناظر ساری دنیا نے ملاحظہ کیے ہزاروں لوگ وہاں انخلا کے منتظر تھے، پاکستان نے انخلا کے عمل میں بھرپور معاونت فراہم کی جسے عالمی سطح پر سراہا گیا،

مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہاکہ برسلز میں مجھے یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزف بوریل سے ملاقات کا موقع ملا،ان کے ساتھ افغانستان کی مخدوش معاشی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا، میں نے واضح کیا کہ اگر افغانستان کی صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو اس کے مضمرات نہ صرف خطے  بلکہ یورپ کیلئے بھی ضرر رساں ہوں گے،

انہوں نے کہاکہ افغانستان کے معاشی و انسانی بحران کے سبب مہاجرین کی یلغار کا خطرہ پھر سے سر اٹھا رہا ہے،  پاکستان، نے 15 اگست کے بعد افغانستان کے قریبی ہمسایہ ممالک سے رابطہ اور مشاورت کرنے کا فیصلہ کیا،ہم نے مشترکہ لائحہ عمل کی تشکیل کیلئے افغانستان کے چھ قریبی ہمسایہ ممالک کا فورم تشکیل دیا،اس فورم کا پہلا  ورچول اجلاس پاکستان جبکہ دوسرا تہران میں ہوا جبکہ تیسرا بیجنگ میں متوقع ہے،ہم نے ماسکو فارمیٹ میں اپنا نقطہ نظر پیش کیا،ہم نے ٹرائیکا پلس کے فورم کے ذریعے افغانستان کی صورتحال پر اپنا موقف پیش کیا،وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس میں مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ، اقوام متحدہ کی ایجنسیز، پی 5،اور اہم یورپی ممالک کے نمائندگان کو بھی مدعو کیا ہے،ہم کسی ایک طبقے کی بات نہیں کر رہے بلکہ لاکھوں افغان شہریوں کی بات کر رہے ہیں جو اس وقت شدید معاشی بحران کا سامنا کر رہے ہیں،

انہوں نے کہاکہ یو این ڈی پی کے مطابق 2022 کے وسط تک 97 فیصد افغان سطح غربت سے نیچے چلے جائیں گے،ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق محض 5فیصد افغانوں کو مناسب خوراک میسر ہے، افغانستان میں بنکنک سسٹم کی عدم دستیابی کے باعث افغانستان سے باہر مقیم لوگ، چاہتے ہوئے بھی، افغان شہریوں کی کوئی معاشی مدد بھیجنے سے قاصر ہیں،

مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہاکہ ہم سعودی عرب کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے بطور چیئر، او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس برائے افغانستان کی تجویز کو پذیرائی دی اور پاکستان کو میزبانی کا شرف بخشا،  انہو ں نے کہاکہ عالمی برادری افغانوں کی مدد پر آمادہ ہے لیکن انہیں کچھ نکات پر تشویش ہے، جن میں افغانستان میں انسانی حقوق کی پاسداری، دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کی ضمانت اور محفوظ انخلا جیسے نکات شامل ہیں،ہم نے عالمی برادری کے خدشات، افغان عبوری قیادت تک پہنچائے اور انہیں باور کروایا کہ انہیں عالمی برادری کے خدشات کو دور کرنا ہو گا،دوسری طرف ہم نے عالمی برادری کو بھی باور کروایا کہ وہ نوے کی دہائی کی غلطی نہ دہرائے، مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہاکہ اگر افغانستان میں صورتحال قابو میں نہ آئی تو یہ سب کیلئے خطرے کا موجب ہو گی، آج افغان عبوری حکومت کے پاس تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے وسائل موجود نہیں، وزیر خارجہ نے کہاکہ اوآئی سی کے اس اجلاس میں ہم نے افغان وفد کو بھی مدعو کیا ہے تاکہ وہ اپنا موقف خود پیش کر سکیں اور صورتحال سے آگاہ کر سکتے ہیں،

انہوں نے کہاکہ امریکہ کے 11 اہم کمانڈرز اور سابق سفرا، جو  افغانستان میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں، وہ اپنی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ افغانستان کو تنہا نہ چھوڑا جائے، ان کی مدد کی جائے، اس موقع پر وزیر اطلاعات نے کہاکہ روس اور امریکہ نے او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس میں اپنے نمائندوں کو بھیجنے پر آمادگی کا اظہار کر دیا ہے،  انہوں نے کہاکہ15 اگست کے بعد دو لاکھ نوے ہزار افغان شہری پاکستان میں آ چکے ہیں اگر اس تعداد میں اضافہ ہوا تو ہماری معیشت اس بوجھ کو برداشت نہیں کر سکے گی،