’’میں نے آئین بنتے دیکھا ‘‘ ۔۔۔۔ تحریر: عمران ظہور غازی


’ میں نے آئین بنتے دیکھا‘ الطاف حسن قریشی کی کتاب کی جلد اوّل ہے جس میں انگریزوں کی برصغیر آمد اوراس خطے کومنظم اور متحد کرنے پرقانون سازی پر مشتمل ہے۔ کتاب کا دوسرا حصّہ انگریز کی برصغیر میں آمد اور مسلم علماءوسیاسی قائدین کی انگریز کی غلامی کے خلاف سرفروشانہ جدوجہد اور مزاحمت کا روشن باب جبکہ تیسراحصہ حکیم الامت شاعر مشرق علامہ محمد اقبال، قائداعظم محمد علی جناح اوردوسرے اکابرین کی بے مثالی آئینی ودستوری جدوجہد کے تذکرے پر مشتمل ہو گا جس کے نتیجے میں پاکستان کا قیام معرض وجود میں آیا۔


الطاف حسن قریشی پاکستان کے نامور صحافی، چوٹی کے دانشور اور مصنف ہیں۔ پاکستان کے لیے ان کی خدمات لازوال اور یاد رکھی جانے والی ہیں۔ وہ نظریہ پاکستان کی آبیاری کرنے والے اس دبستان سے تعلق رکھتے ہیں، جنہوں نے نظریاتی صحافت، سیاست اور اخلاقی وتہذیبی اقدار کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس ضمن میں ماہنامہ اردو ڈائجسٹ ، اوّل دن سے ان کی ادارت میں سرگرم عمل ہے۔ تاریخ پاکستان کے کتنے قیمتی روشن ابواب ان کے سامنے تشکیل پائے، پاکستان کو بنانے، سنوارنے اور تاریخ کے ابواب میں ان کا حصہ کسی سے کم نہیں رہا، بطور صحافی ودانشورر انہوں نے ہمیشہ اس جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالا اورجاندار کردار ادا کیا۔ الطاف حسن قریشی بانی جماعت مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی کی خدمات اور جماعت اسلامی کی جدوجہد کے ہمیشہ معترف رہے،بالخصوص سیّد مودودی کے ساتھ ان کا نہایت عزت واحترام اور محبت کا رشتہ ہمیشہ استوار رہا جو ان کے رخصت ہو جانے کے بعد آج بھی قائم اور تروتازہ ہے۔ جماعت نے بھی ہمیشہ انہیں اپنے قریب پایا اور اپنا سمجھا، یہ تعلق نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط ہے جس میں دن بہ دن استواری اور محبت نے پختگی اوردوام پایا ہے۔گویا یہ نصف صدی کاقصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں۔
الطاف حسن قریشی تاریخ پاکستان کے چشم دیدگواہ ہیں۔ انہوں نے اپنی تازہ تصنیف ’’ میں نے آئین بنتےدیکھا ‘‘ کی جلد اوّل میں قیام پاکستان تک کے عمل کی سیاسی وآئینی جدوجہد کی جیتی جاگتی تصویر کشی کی ہے۔ جس میں برطانیہ کے زیراقتدار90سالہ دور حکومت کی آئینی وقانونی اصلاحات اور تحریکات کو رقم کیا ہے جس سے قیام پاکستان کے بعد کی آئینی وقانون جدوجہد کو سمجھنا آسان تر ہو گیا ہے۔کتاب کے پہلے حصّے کے کل 25 ابواب ہیں۔ان کا اسلوب سادہ سہل شستہ اور رواں وراں ہے انہوں نے ایسے لکھا ہے کہ بڑے بڑے ایشوز کو چند جملوں میں سمجھا دیا ہے یہ ان کے ا سلوب کی خاص بات ہے۔
پاکستانی تاریخ کےآئینی ،قانونی اور سیاسی پہلوؤں نیز آئین سازی کے عمل کو سمجھنے، آگے بڑھنے اور روکاوٹوں کے تذکرے پر مشتمل ان کے قلم سے یہ قیمتی لوازمہ ہے۔کتاب کے مندرجات مضامین اور سوچ سے اس کا اندازہ ہوتا ہے آئین وقانون کی حکمرانی اور اس پر عمل درآمد موجودہ دور میں بھی پاکستان کا بڑا مسئلہ ہے۔
1973ء میں بننے والے متفقہ آئین پر اس کی روح کے مطابق کم ہی عمل ہوا ہے جس میں واضح ہے کہ حاکمیت اللہ کی ہو گی اور قرآن وسنت کی ترویج واشاعت کی جائے گی ۔ 1973 میں آئین تو بن گیامگر آج تک اس پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں ہو پایا۔ انسانی حقوق ہوں یا سود کی ممانعت کا مسئلہ اختیارات کے تعین اورجمہوری آزادیوں کے ایشوز ہوں یا اردو کے نفاذ کا مسئلہ، تذکرہ توسب کا موجود ہے مگر اصل صورت حال یہ ہے کہ طلباء یونین پر پابندی ہے ، بلدیاتی نظام منظم نہیں ہے ، ادارے تباہ حال ہیں ، پی آئی اے ، ریلوے ا ور اسٹیل مل کی حالت زار کے پیش نظر انہیں فروخت کرنے کے منصوبے ہیں۔
تحریک پاکستان کے مقاصد فراموش کرنے کے نتیجے میں ملک دو لخت ہوا ، مسائل کی بنیادی وجہ 1973 میں بننے والے متفقہ آئین پر عملدرآمد کا نہ ہونا ہے۔ آج بلوچستان میں بدامنی اور نا انصافیوں کا دور دورہ ہے، جمہوریت تباہ حال ہے، گزشتہ ادوار میں طاقت کاایسا کلچر متعارف ہوا کہ جو طاقتور ہے اسی کا حکم سربلند ہے اور وہی کامیاب اور وسائل واختیارات کا بھی مالک ہے۔ اسی سوچ نے عام الناس کو ہی نہیں نسل نو کو پاکستان سے لاتعلق اورمایوس کرنے میں حصّہ ڈالا ہے۔
حالیہ دور میں ہونے والی 26 ویں آئینی ترمیم اسی مائنڈ سیٹ کا نتیجہ ہے،آج تک طالع آزماؤں اور اشرافیہ نے مل کر آئین کو توڑا بھی اور اس پر عملدرآمد بھی نہیں ہونے دیا۔
یہ کتاب کا پہلا حصہ ہے جس میں قائد اعظم کی قیادت میں کی جانے والی قیام پاکستان کے لئے آئینی وقانونی جدوجہد کا خلاصہ ا ورجوہرآ گیا ہے۔ کتاب کے دوسرے اور تیسرے حصّے میں پاکستان میں دستوری جدوجہد کے مختلف مراحل کا تذکرہ ہو گا جو کتاب کا اصل اور الطاف حسن قریشی کے قلم کی جولانیوں کا آئینہ دار ہو گا۔ پاکستان کی 90 سالہ تاریخ میں ہونے والی اس آئینی جدوجہد سے نسل نو کم کم ہی واقف اور شناسا ہے۔ الطاف حسن قریشی نے آئینی، قانونی وسیاسی جیسے خشک اور دقیق موضوع پر نہایت اور عام فہم اور رواں انداز میں لکھا ہے جس نے کتاب کی قدروقیمت میں اضافہ کر دیا ہے اور نسل نو کیلئے آئین وقانون کی روح تک رسائی قدرے آسان ہو گئی ہے۔
’میں نے آئین بنتے دیکھا ‘ کی ایک ایک سطر بلکہ حرف پاکستان ، نظریہ پاکستان کے ساتھ محبت کا آئینہ دار ہے ۔وکلاء ، ججز، دانشور ، صحافی حضرات ، سیاسی کارکنوں اور نسل نو میں آئین وقانون کی حکمرانی کا شعور گہرا کرنے کا ذریعہ بنے گی۔ تاریخ پاکستان کے باب میں یہ ایک قابل قدر اور دلچسپ اضافہ ہے۔ جس سے آئین سازی کے عمل اور جدوجہدکو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ کتاب کی طباعت واشاعت عمدہ اور جاذب نظر ہے۔ کتاب پڑھنے کے لائق اور دلچسپ ہے۔