آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے حکومت پاکستان اور اس کا طبقہ اشرافیہ پاکستان کے عوام پر بوجھ بڑھا رہا ہے آئے دن بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے نئے نئے ٹیکس لگائے جا رہے ہیں ان ٹیکسوں کے لگاتے وقت یہ خیال نہیں رکھا جاتا ہے کہ یہ کس طبقے سے وصول کیے جارہے ہیں کیا ان لوگوں پر ٹیکس عائد کرنا جائز بھی ہے یا نہیں؟ یا ان کی آمدنی قابل ٹیکس بھی ہے یا نہیں پاکستان کی حکومت نے 80 فیصد بالواسطہ ٹیکس یعنی ان ڈائریکٹ ٹیکس عائد کر رکھے ہیں۔ چونکہ ٹیکس کا عملہ کرپٹ ہے اس لیے وہ 20 فیصد براہ راست ٹیکس وصول کرتا ہے اور رشوت سے اپنی جیبیں بھرتا ہے اس کے طبقہ امراء کے لیے ٹیکسوں میں بہت زیادہ رعایت اور مراعات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے پاکستان کی حکومتوں کو معیشت درست کرنے کا مشورہ دیتے ہیں وہ بھی حکومت پاکستان کی طرح کرپٹ اور رشوت خور ہیں ۔وہاں سے آنے والے افسران اکثر کرپٹ ہی نکلے ہیں چاہے وہ وزیر خزانہ بنے ہوں یا مشیر بنے ہوں یا اسٹیٹ بینک کے گورنر وہ پاکستان کو لوٹ کر ہی گئے ہیں۔یو این ڈی پی کی 2021 کی رپورٹ تھی پاکستان کا طبقہ اشرافیہ سالانہ 17 ارب ڈالر کی مراعات حاصل کرتا ہے یعنی یہ طبقہ پاکستان کے عوام کے ٹیکسوں کے 17 ارب ڈالر اپنی عیاشی میں اڑا دیتا ہے اور اس طبقہ اشرافیہ کو دوسری طرف ٹیکسوں سے بالکل چھوٹ ہوتی ہے ۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے اعلی سرکاری افسران اور طبقہ اشرافیہ کو مفت بجلی مفت پیٹرول اور مکانوں کے کرائے اور دیگر یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی پر کوئی اعتراض نہیں کیا ہے جس کا پاکستان کے قومی خزانے پر اربوں روپے اور اربوں ڈالر کا بوجھ ہے۔ اور یہ بوجھ پاکستان کے عوام سہتے ہیں۔ لیکن آئی ایم ایف کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔کیا یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے کیا یہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ جو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اس کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ 2023 اور 2024 کی یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں پاکستان 193 ممالک کی فہرست میں 164 ویں نمبر پر ہے پاکستان کی 49 فیصد آبادی مڈل کلاس ہے 47 فیصد غریب ہے چار فیصد امیر ہے۔ یہ چار فیصد پاکستان کے 50 فیصد وسائل پر قابض ہیں ۔ جبکہ ایک اور رپورٹ کے مطابق ورلڈ ان ایکوٹیبل ڈیٹا بیس کے مطابق ملک کا 10 فیصد طبقہ ملک کی 42 فیصد دولت پر قابض ہے اور 50 فیصد آبادی کے ہاتھ صرف 13 فیصد آتا ہے پاکستانی عوام یہ واضح طور پر سمجھتے ہیں یہ عالمی ادارے دانستہ طور پر چاہتے ہیں کہ پاکستان میں کرپٹ بیوروکریسی اور کرپٹ حکمران موجود رہیں تاکہ ان کے مفادات کا تحفظ کر سکیں ۔
ان نااہل بیوروکریٹس کی وجہ سے پاکستان بار بار ائی ایم ایف کے چنگل میں پھنستا ہے۔ یہ بیوروکریسی پاکستان میں سرمایہ کاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ ایسی شرائط لگاتی ہے جس کے بعد سرمایہ کار یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرے یا نہیں _یہ خود غرض مطلب پرست اپنی مراعات یعنی مفت بجلی مفت پیٹرول مفت مکان، مفت سرکاری گاڑی اور غیر سرکاری سفر میں بھی رعایت حاصل کرنے کے لیے قوم کا خون نچوڑتے رہتے ہیں اور ہر بجٹ میں اپنی تنخواہوں میں اضافہ بھی کرواتے ہیں۔ پاکستان سے آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ وہ رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس لگائے ۔لیکن حکومت پاکستان رئیل اسٹیٹ کے سب سے بڑے مجرم اور نادہندہ اور سیاست دانوں صحافیوں اور میڈیا پرسنز کو رشوت دینے والے ملک ریاض کو جیل میں بند نہیں کرسکتی ۔ پاکستان میں سابق وزرائے اعظم ، سابق صدور اور سابق آرمی چیف اور آئی ایس ائی کے سابق سربراہ تک جیل میں قید ہو چکے ہیں ـ لیکن جرم ثابت ہونے کے باوجود کوئی شخص قید نہیں ہوا تو وہ ملک ریاض ہے _ جس کے 190 اسٹرلنگ پاؤنڈ نیشنل کرائم ایجنسی برطانیہ نے پکڑے تھے۔ وہ رقم پاکستان کو واپس ملی تو قومی خزانے میں جانے کے بجائے ملک ریاض کے اکاؤنٹ میں دوبارہ پہنچ گئی۔ اس پر آئی ایم ایف ورلڈ بینک یا این سی اے نے کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ لیکن رئیل اسٹیٹ کے دوسرے لوگوں پر ٹیکس لگانے کی تیاری شروع کر دی گئی اور آئی ایم ایف کی طرف سے ان کے خلاف کاروائی کا مشورہ دیا گیا۔ یعنی درپردہ یہ ملک ریاض کی حمایت کی جا رہی ہے جبکہ ملک ریاض کا بحریہ ٹاؤن ریاست کے اندر ریاست ہے ۔بلکہ غنڈا گردی اور کرپشن کا سب سے بڑا مرکز ہے جو ملکی قوانین اور ضابطوں کی خلاف ورزی کو اپنا حق سمجھتا ہے اس لیے پاکستانی عوام اس بات کو سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ عالمی ادارے اور حکومت پاکستان دراصل ملک ریاض کی سرپرستی کرنے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے نفرت کرتے ہیں۔