زبان کا زخم سب سے گہرا ہوتا ہے، جارحانہ اور پرتشدد ماحو ل میں اہل سیاست اور می لارڈز اپنی اپنی زبانوں سے جو زخم لگا رہے ہیں وہ ملک کے جمہوری بدن پر کچوکے لگاتے رہیں گے۔ کیا اہل سیاست کو یاد نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو اپنے خلاف قتل کے مقدمے کے دوران متعصب اور کینہ توزججوں کو بار بار می لارڈ کہہ کر مخاطب کرتے رہے، کیا ہمیں یاد نہیں کہ تاریخ کا لافانی کردار سقراط منصفوں کے غلط فیصلے پر صاد کہتے ہوئے زہر کا پیالہ پی گیا اور کہا کہ اگر آج سقراط نے اس غلط فیصلے کو نہ مانا تو کل لوگ منصفوں کے صحیح فیصلوں کو بھی نہیں مانیں گے۔ انسانی معاشرت نے صدیوں کی مسافت طے کرکے اپنے اندر ہی سے کچھ لوگوں کو خدائی اختیار دے کر منصف بنایا ہے اور صدیوں کی ریاضت نے یہ طے کیا ہے کہ یہ منصف سیاہ کریں یا سفید کریں ان کے آگے سر جھکانا ہے، یہی مہذب معاشرے کی نشانی ہے۔ دوسری طرف منصفوں کو خدائی اختیار دینے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اقعی خدا بن جائیں، تاریخ ان کا حساب بھی لیتی ہے اور احتساب بھی کرتی ہے وہ منصف جنہوں نے سقراط کے خلاف فیصلہ سنایا تاریخ میں ان کا نام ظالموں کی فہرست میں آتا ہے۔ حضرت عیسی کے خلاف فیصلہ کرنے والے تاریخ کے بدترین کردار ٹھہرے اور ہمارے پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے والے ججوں کو تو خود عدلت عظمی نے غلط قرار دے دیا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ می لارڈز کو اپنے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کی کاٹ، حرمت اور اہمیت کا اندازہ نہیں۔ جج کا ہر لفظ حکم کی طرح ہوتا ہے اس لئے غصے یا پیار میں اسے احتیاط کرنی چاہیے، نہ غصے میں خود کو بِھڑ کہنا چاہیے اور نہ پیار میں جسٹس بندیال کی طرح گڈ ٹو سی یو کہنا چاہیے، نہ ہی جسٹس شیخ عظمت کی طرح وزیر اعظم کو اڈیالہ جیل کے سیل میں بند کرنے کی دھمکی دینا مناسب ہے۔ یہ سارے فقرے یہ سارے نشتر جمہوری جسد پر زخم لگاتے ہیں۔ دوسری طرف وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے کالی بھیڑیں کا لفظ استعمال کرنا بھی غلط ہے، ایسے الفاظ استعمال کرنے سے اشتعال بڑھتا ہے، تناؤ میں اضافہ ہوتا ہے اور جمہوری ڈھانچہ کمزور ہوتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ جمہوری اور آزاد جج ہیں ہمیشہ سے پارلیمان کو سپریم مانتے ہیں، اپوزیشن کے زمانے میں نواز شریف کے حق میں فیصلہ سنایا، عمران خان دور میں پیکا آرڈیننس کو کالعدم کرکے اس وقت کی حکومت کو ناراض کیا، اگر کسی مقدمے میں انکی رائے مختلف ہو تب بھی ان کا احترام آئینی اور اخلاقی تقاضا ہے۔ وزیر اعظم ہو یا کوئی بھی عام شہری ،اس کو آئینی طور پر فیصلوں پر تنقید کا حق تو حاصل ہے لیکن جج کو کالی بھیڑ کہنے کا اختیار نہیں ہے۔ بے نظیر بھٹو عدلیہ کو چمک کا شکار قرار دیتی تھیں، ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف فیصلے کو صحافیوں اور وکیلوں نے جوڈیشل مرڈر قرار دیا ،یہ تنقید کا مہذب انداز تھا اگر تنقید کرنی بھی ہو تو اسی لطیف پیرائے میں کرنی چاہیے۔
ہماری بدقسمتی کا آغاز عدلیہ اور طاقتوروں کے درمیان اشتراک سے ہوا ۔گورنر جنرل ملک غلام محمد ککے زئی برادری سے تعلق رکھتے تھے فنانس کے بہت بڑے ماہر تھے، دوسرے جسٹس منیر بھی ککے زئی برادری سے تعلق رکھتے تھے، دونوں کے اشتراک ہی کی وجہ سے نظریہ ضرورت کا فیصلہ آیا اور جمہوریت کیلئے زمین تنگ ہوتی چلی گئی یہاں برادری کے حوالے سے ایک لطیفہ نما واقعہ بھی یاد آ رہا ہے۔ جنرل ضیا الحق کا مارشل لا تھا جنرل کے ایم عارف انکے دست راست تھے وہ بھی ککے زئی برادری سے تعلق رکھتے تھے، وہ لاہور آئے تو برادری نے ان کے اعزاز میں محفل برپا کی، مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ کے ایم عارف چونکہ ہماری برادری کے ہیں اس لئے ساری برادری مارشل لا کا ساتھ دے۔ عاصمہ جہانگیر کے والد ملک غلام جیلانی بھی محفل میں موجود تھے کہ وہ بھی اسی برادری سے تعلق رکھتے تھے، وہ اس تجویز پر کھڑے ہوئے اور کہا کہ ہماری برادری کے نام میں دوک آتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر دو ک والاکچے کردار کا ہو جائے اور یوں یہ محفل کوئی فیصلہ کئے بغیر برخواست ہوگئی۔ المیہ یہ ہے کہ عدلیہ کے فاضل جج صاحبان نے خوف اور لالچ کے زیر اثر طاقت کی دہلیز پر سجدے کئے ہیں، آئین قانون اور مفاد عامہ کو پس پشت ڈالا ہے۔ مگر آج کی ساری کی ساری عدلیہ ایک رائے کی حامل نہیں اگر کچھ جج صاحبان طاقت کے زیر اثر آ بھی جائیں تو کچھ دوسرے مفاد عامہ، آئین اور جمہوریت کو پس پشت ڈالنے کو تیار نہیں، عدلیہ کے موجودہ رویے کو سراہنا چاہیے کہ پاکستان کے جمہوری سفر میں یہ ایک صحت مند روایت کی طرف رواں دواں ہے۔
ملک کے اہل سیاست بہت مشکلات سے گزرتے رہے ہیں۔ متعصب اور طاقت سے مرعوب ججوں کے فیصلوں کا شکار ہوتے رہے ہیں لیکن قدرت نے ان ساری آزمائشوں کے باوجود انہیں دوبارہ سے اقتدار دیا ہے انہیں اپنے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے، ماضی میں سپریم کورٹ پر حملہ اور اب ججوں کو کالی بھیڑیں قرار دینا صریحا غلط ہے ۔اسی طرح می لارڈز کوسمجھنا چاہیے کہ اس دور میں ان کا ایک لفظ، فقرہ یا طنز فورا وائرل ہو جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی مقدمے کے فیصلے سے پہلے ہی ان کا ذہن پڑھا جاتا ہے۔ اس سے می لارڈز کا تاثر مجروح ہوتا ہے۔عدلیہ ہو یا اہل سیاست ،انہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ دونوں جمہوریت کے پیڑ کی ہی دو شاخیں ہیں اگر ایک شاخ گر گئی یا اسے نقصان پہنچا تو طاقتور ہوائیں دوسری شاخ کوبھی خس و خاشاک کی طرح اڑا لے جائیں گی۔ دانش مندی کا تقاضا ہے کہ جمہوری پیڑ کو مضبوط کیا جائے، دونوں شاخوں پر کونپلیں اور پتے پھوٹنے دیئے جائیں نہ ایک شاخ دوسری شاخ پر سایہ کرکے یا طاقت کے بل پر اسکا راستہ روکے اور نہ ہی شاخیں ایک دوسرے سے الجھ کر سوکھنا شروع کردیں۔
آخر میں عرض ہے کہ میڈیا، فوج، عدلیہ اور انتظامیہ سب جمہوریت کے ہرے بھرے کھیت کا حصے ہیں، کوئی پتہ ہے تو کوئی تتلی، کوئی پھول ہے تو کوئی پھل۔ جمہوریت کے سبزے کو برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کھیت کے سارے حصہ دار اس کی حفاظت کریں ہمیں نہ تو کالی بھیڑوں کی ضرورت ہے جو سبزے کو کھائیں او ر نہ بِھڑوں اور بھونڈوں کی، جو اس کھیت کے باسیوں کو ڈرائیں، ہمیں تو خوبصورت تتلیوں کی ضرورت ہے جو اپنی موجودگی سے جمہوری کھیت کو باغ میں تبدیل کردیں جہاں جمہوری بلبلیں اور کوئلیں خوشی کے گیت گائیں، اس کے باسی باغ کے جمہوری پھل کھائیں اور ہر طرف خوشی اور اطمینان کا دور دورہ ہو….!
بشکریہ روزنامہ جنگ