قومی انتخابات کی تاریخ۔۔۔۔تحریر نعیم قاسم


میاں نواز شریف نے عمران خان کو جنرل ظہیر الاسلام کی بنائی ہوئی “تیسری سیاسی قوت” قرار دیتے ہوئے شاہد وہ وقت بھی یاد کیا ہو جب ضیاء الحق نے ان کے مضبوط کلے کی بات کی اور انہیں پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا _اس خوشی میں منعقدہ تقریب میں جنرل جیلانی نے ایک ویٹر کے سر سے پگڑی اتار کر میاں صاحب کو پہنا کر خوب قہقہے بلند کیے جنرل حمید گل نے آئی جی آئی بنا کر دائیں بازو کا ووٹ مجتمع کرکے پیپلزپارٹی پارٹی کے خلاف کامیابی دلائی اور وہ وزیر اعظم بنے بے نظیر بھٹو ہمیشہ نواز
شریف کی کامیابیوں کو “چمک” کا کرشمہ قرار دیتی تھیں 2013 کے انتخابات میں رزلٹ سے پہلے ہی انہوں نے وکٹری سپیچ کر دی تھی اس وقت پیپلزپارٹی سمیت سیاسی جماعتوں کی اکثریت نے اس جیت کی راہ ہموار کرنے میں جسٹس افتخار چوہدری کے لگائے گئے ریٹرنگ افسران کو قرار دیا کیونکہ میاں صاحب نے ان کی بحالی کے لیے لانگ مارچ کیا تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ 2018 کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ نے ان کی سرپرستی نہیں کی مگر 2024 کے انتخابات میں اس کا مکمل ازالہ کر دیا ہے فارم 47 پر ان کا بھائی وزیر اعظم اور بیٹی وزیر اعلیٰ بن گئ ہے تو بقول گورنر پنجاب سلیم حیدر اب میاں نواز شریف کس لیے ماضی کی زیادتیوں پر آہ زاریاں کرتے رہتے ہیں جب آپ بقول عمران خان ایمپائر ز کو ساتھ ملا کر کھیلنے کے عادی ہوں تو پھر کبھی نیوٹرل ایمپائرز آجائیں تو میچ ہارنے کی تکلیف تو ہو گی جب آپ اپنے ججز اور جرنیلوں اور الیکشن کمیشن کے ساتھ سیاست کریں گے تو مخالفین کو بھی حق حاصل ہے کہ اپنے حلیفوں کی مدد حاصل کریں اگر RTS سسٹم بیٹھنے پر اعتراض ہے تو فارم 47 پر بھی تو کریں تبھی اصولی سیاست ہوگی وگرنہ آپ کے نزدیک جنگ اور محبت میں سب جائز ہے تو دوسرے بھی اسی راہ پر چلیں گے لہٰذا
اتنی نہ بڑھا پاکئ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
پاکستان گیلپ سروے اور گیلانی ریسرچ فاونڈیشن کے بانی سربراہ ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی نے 1970 کے بعد منعقد ہونے والے گیارہ بارہ قومی انتخابات کے متعلق ایک کتاب لکھی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں “ہمارے ہاں مسئلہ انتخابات کے انعقاد یا معیار کا نہیں ہے ہر چار پانچ سال کے بعد دوہرائی جائے والی یہ مشق کوئی بھی نتیجہ پیدا کرنے سے قاصر ہے ہمارا نظام ایک دائرے میں گھوم رہا ہے 1970 کےبعدمنعقد ہونے والے تمام انتخابات کی کہانی کا ایک ہی پلاٹ ہوتا ہے _____پہلے مرحلے میں انتخابات کا اعلان ہوتا ہے _اس کے بعد انتخابی مہم چلائی جاتی ہے انتخابات کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے (کبھی ایوان صدر میں سیل بنتا ہے، کبھی آر ٹی ایس بھیٹ جاتا ہے تو کبھی انٹر نیٹ بند ہو جاتا ہے اور فارم 47 پر رزلٹ بنائے جاتے ہیں) حکومت بن جاتی ہے (اکثر یت اپوزیشن اور اقلیت کی حکومت بن جاتی ہے) مگر پھر کچھ عرصہ گزرتا ہے تو حکومت کے منتخب اور غیر منتخب عناصر کے درمیان تناؤ پیدا ہونے لگتا ہے یہ تناؤ جب ایک خاص سطح پر پہنچتا ہے تو حکومت یا وزیر اعظم کی چھٹی ہو جاتی ہے اسکے بعد ملک کچھ عرصہ غیر یقینی کیفیت میں رہتا ہے نگران حکومتوں کے نام پر اسٹیبلشمنٹ کے چہیتے موج میلے کرتے ہیں پھر انتخابات کا دوبارہ اعلان ہوتا ہے اور پسندیدہ سیاسی گروہوں کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی جاتی ہے اور ناپسندیدہ عناصر کا آرم ٹوسٹ کرکے سیاسی اکھاڑ ے میں اترنے کی اجازت دی جاتی ہے اور پھر یہ دوبارہ کہا نی شروع ہو جاتی ہے ”
میرے خیال میں یہ دائر ے کا سفر اس لیے رواں دواں ہے کہ ہم نے قسم کھائی ہے کہ تاریخ سے کچھ نہیں سیکھنا ہے ہمارے ذمہ داران سمجھتے ہیں کہ 1970 میں فری اینڈ فیئر الیکشن ہوئے تو ملک ٹوٹ گیا لہذا اب ہر الیکشن کے رزلٹ کو قومی مفادات کے تابع رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش جائز ہے اسے میں قانون اور آئین کی خلاف ورزی کچھ معنی نہیں رکھتی ہے کیونکہ ملک ہے تو قانون اور آئین رہے گا جب کہ ملک کے عوام کی اکثریت سمجھتی ہے کہ اگر قانون، آئین اور انصاف کی حکمرانی ہو گی تو یہ ملک معاشی اور سیاسی طور پر مضبوط اور توانا رہے گا
ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کا کہنا ہے “پاکستان کی سیاست کے مستقل بالذات دائمی نظریوں میں اولین مسلم لیگ کا پیش کردہ قومی ریاست کا تصور ہے دوم مذہبی جماعتوں کا پیش کردہ اسلامی ریاست کا تصور سوم علاقائی جماعتوں کا پیش کردہ وفاقی ریاست کا تصور ہے ان تین مستقل نظر یات کے علاوہ پاکستان کی سیاست نے اب تک دو جدید روایت شکن سیاسی شناختی نظریات کو جنم دیا ہے ایک 1967 میں پاکستان پیپلز پارٹی کا شناختی نظریہ اور دوسرا تحریک انصاف کا نظریہ جو 1996 میں منظر عام پر آیا ان روایات شکن نظریات کی پیدائش کا باعث وہ سماجی اور معاشی تبدیلیاں ہیں جو معاشرے میں کئی دہائیوں کے عرصے میں رونما ہوتی ہیں ”
پیپلزپارٹی تو اسٹیبلشمنٹ کی پٹھو بن کر روایت شکن انقلابی جماعت سے اقتدار پرست جماعت بن گئ ہے جسکا حقیقت میں کوئی سیاسی نظریہ، اصول اور وژن نہیں رہا ہے بس بھٹو اور بے نظیر کی شہادتوں پر سیاسی جسد خاکی کھڑا ہے اب وہ لوگ جو تاریخ کے تاریخی جدلیات عمل کے ارتقاء سے ناواقف ہیں وہ جھٹ کہہ دیتے ہیں کہ عمران خان جنرل پاشا یا ظہیر الاسلام کے پراجیکٹ تھے آگر جنرلز یا ججز کسی دوسرے کو لیڈر بنا سکتے ہیں تو وہ خود نہ بن جاتے اگر جنرل ظہیر الاسلام اور دوسرے جنرلز عمران خان کو پسند کرتے ہیں تو ایسے بہت سارے ججز اور جرنیل میاں نواز شریف کی جماعت میں شامل ہو کر سینڑز، وزراء اور گورنرز کے عہدے حاصل کرتے رہے ہیں ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کے مطابق “تحریک انصاف ایک ایسی روایت شکن جماعت بن کر اس خلا کو پر کرنے کے لیے ابھری ہے جو کئی دہائیوں سے پیدا ہو رہا تھا کالجز، یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ سماجی طور پر متحرک طبقے کے بڑھتے ہوئے گروہ کو سیاست میں اپنی نمائندگی کے لیے کسی شناخت کی ضرورت تھی جو انہیں تحریک انصاف کی صورت میں مل گئی تحریک انصاف اور عمران کے ساتھ سیاسی سفر میں وہ لوگ شامل ہو گئے جو بیرون ملک اور اندرون ملک اپنی محنت اور قابلیت سے خوشحال ہوئے ہیں ان میں فوج، بیوروکریسی اور کارپوریٹ اداروں میں کام کرنے والے مرد اور خواتین کی کثیر تعداد شامل ہے جو معاشرے میں سوشل ٹرانسفارمیشن کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے خواہاں ہیں “تحریک انصاف میں شامل افراد کی اکثریت روایتی گلی کوچے کی سیاست کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں مگر حیران کن طور پر 66 فیصد یوتھ نے بلے کے نشان سے محرومی کے بعد اپنے غیر معروف امیدواروں کو سوشل میڈیا کے ذریعے انتخابی کمپئن کر کے جس طرح کا میاب کرایا اس کی مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی ہے کڑووں روپے الیکشن پر خرچ کرنے والوں کو بغیر پیسا خرچ کیے شکست دینا عام بات نہیں ہے وہ تو فارم 47 نے ان کو مکمل سیاسی تباہی اور بربادی سے بچا لیا وگرنہ تمہاری داستان بھی نہ تھی داستانوں میں یہی روایت شکن نظریے کی طاقت ہے جسکا علمبردار عمران خان ہے شکر کریں کہ خیبر پختون خواہ کے عوام کی اکثریت کسی علیحدگی پسند لیڈر کی بجائے پنجابی لیڈر عمران خان کے پیچھے ہے وگرنہ مغربی سرحدی علاقے میں معاملات ہمارے کنٹرول میں نہ رہتے اب مسئلہ عمران خان کا نہیں رہا ہے پاکستان کے تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد بلاول، مریم جیسے

کرپشن کے انبار پر پلنے والوں کی غلامی میں نہیں رہیں گے یہ نوشتہ دیوار ہے عمران خان کو بھی اپنی اہلیہ کے فرح بی بی اور عثمان بزدار کے مبینہ مشکوک مالی معاملات کے ساتھ لاتعلقی ثابت کرنا ہوگی وگرنہ نوجوانوں کے لیے امیر جماعت اسلامی نعیم الرحمن جیسی شخصیات بھی موجود ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ خلق خدا کا دل موڑ سکتا ہے بشرطیکہ حافظ نعیم الرحمن کو جماعت اسلامی کی قدامت پسند بیوروکریسی فری ہینڈ دے تو بہتر، اہل، ایمان دار سیاسی قیادت کا خلا پر ہو سکتا ہے علاوہ ازیں ضروری ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست میں عمل دخل کی بجائے خود کو پیشہ ورانہ معاملات کی انجام دہی تک محدود رکھیں تو اللہ پاک اس ملک کے عوام کو اس قابل بنا دے گا کہ وہ اپنے حقیقی سیاسی نمائندوں کے ذریعے اپنی زندگی اور مفادات کا تحفظ کر لیں گے خدا کی حاکمیت اعلی کے بعد عوام کی با اختیار جمہوری حکومت ہی اس ملک کی سلامتی کو یقینی بنا سکتی ہے