کس سیاست داں کو احساسِ زیاں ہے‘‘ : تحریر کشور ناہید’’


ایران کے صدر اور 9دیگر زعما کا ہیلی کاپٹر موسم کی شدت سے دوچارہوا، تمام اداروں نے اگلے دن صبح کو ہیلی کاپٹر کا ملبہ اور زندگی سے آزاد زعما کو بڑے صبر ،تدبر کے ساتھ اور سنجیدگی برقرار رکھتے ہوئے، لحد تک پہنچایااور نائب صدر کو اختیارات دیتے ہوئے، یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ایران میں 28جون کو انتخابات ہونگے۔ یہ دستوری ثابت قدمی، ہمارے جیسے بحرانی ملک کو سبق سکھانے کیلئےکافی ہے۔ انڈیا میں 8قسطوں میں پورے ملک میں الیکشن، ساتھ ہی ساتھ مودی کی فروعی گفتگو پرنہ بولنے والے بھی میڈیا اور اخباروں میں اختلافی بیانات دے رہے ہیں۔ پاکستان میں نئی حکومت نے پیر جمائے ہی نہیں، پھر بھی ہتک عزت کا قانون ’ناں‘کے شور کے درمیان، پنجاب اسمبلی پاس کردیتی ہے۔ پاکستانی اس قانون کے خلاف کم اور سنجےلیلا بھنسالی کی فلم پر زیادہ تبصرے کر رہے ہیں، لاہوریئے تواس پر احتجاج ایسے کر رہے ہیں جیسے ان کی مقدس جگہ کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے۔ وہ تاریخی مقام تو ایوب خان کے زمانے میں بند کرنے کے آرڈر ہوئے تھے پھر بقول منو بھائی اس طرح ہر محلے میں کہیں چھوٹا کہیں بڑا ٹکسالی گیٹ کھل گیا تھا۔ 26سال پہلے یوم تکبیر پر چھٹی اس دن بھی نہیں کی گئی جب یہ تاریخی ایٹمی دھماکا کیا گیا تھا۔ چھٹی کا مطلب ہوتا ہے کہ معیشت کو اربوں روپے کا نقصان۔ اب جبکہ لوڈشیڈنگ اور گیس کی بندش کے باعث پیداواری اعشاریہ بہت کم ہے۔ جس بلوچ علاقے میں یہ دھماکہ کیا گیا وہاں اب گھاس بھی نہیں اُگتی۔ اس علاقے کو واقعی پیلی پڑنے والی پہاڑیوں کے مکین، قابلِ فخر مقام میں بدلتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ شاید یہ خیال بھی حکمرانوں کو جلد آجائے گا۔ اسی طرح نصاب میں بھی ایٹمی دھماکے کی اہمیت اور بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے یہ ایٹمی طاقت بجلی اور دیگر بنیادی صنعتوں میں استعمال کی جائے گی مگر نظر یہ آرہا ہے کہ پاکستان کے بے شمار شہروں میں 10گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سے گھبرا کر عورتیں، بچوں کو گود میں لئے مظاہروں میں شامل ہیں۔ 26 سال بعد، باسی کڑھی میں ابال کے پیچھے مقصود تھا نواز شریف کو تاحیات نون لیگ کا سربراہ بنانا۔ چلئے یہ بھی ہوگیا۔ مگر تاریخ کو مسخ کرنے کی سزا کس کو ملے گی کہ جس نے یہ خیال روبہ عمل لانے کیلئے سوچا اور جس کی بھنک کسنجر کے کان میں پڑی اور لاہور کے گورنر ہاؤس میں اس شخص نے بھٹو صاحب کا نام لئے بنا کہا تھا کہ اس کو ہم مثالی سزا دیں گے۔ بھٹو صاحب نے جس شخص کو یہ کام دیا، وہ اور ان کے ساتھیوں نے یہ کارنامہ سر انجام دیا۔ ان کا نام ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھا، جن کو مشرف کے زمانے میں نہ صرف گھر میں قید رکھا گیا بلکہ ایک دن لکھائی گئی تحریر جو معافی نما زبردستی تھی ٹی وی پر پڑھوائی گئی۔حکومتوں کا قید تنہائی دینے کا جنون کسی صورت کم نہ ہوا۔ وہ سڑک جو ان کے گھرکو جاتی تھی، اس میں داخلہ بند کر دیا گیا۔ خدا کی قدرت نے یہ ظلم و زیادتی دیکھتے ہوئےان کو اپنے پاس بلا لیا۔ اس دن بارش بھی بہت تیز ہوئی۔ اخباروں میں چھوٹی سی خبر تھی۔ مگر پاکستان کے کونے کونے سے چھتریاں پکڑے امیر غریب، عورتیں اور مرد، ڈاکٹر قدیر خان کے جنازے کو کندھا دے رہے تھے۔ 28مئی 2024ء کو چند لوگ ان کے مزار پر پھول چڑھا رہے تھے اور جس شخصیت نے محض اعلان کیا کہ ہم نے سات مرتبہ ایٹم بم کی قوت کا مظاہرہ، انڈیا کے ایٹمی دھماکے کے جواب میں کیا ہے وہ 26سال بعد اپنی چھینی گئی پارٹی عہدیداری واپس لینے کی بشاشت میں محسنِ پاکستان ڈاکٹر قدیر خان اور دیگر سائنسدانوں کیلئے حرفِ عقیدت کہنا بھول گیا۔ وہ تو ٹی وی پر ڈاکٹر مبارک مند نے حامد میر کے اُکسانے پر قدیر خان صاحب کو توصیفی کلمات سے نوازا، سارے فسانے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کس کے کہنے پر ہٹایا گیا تھا اور کس کی اجازت سے دوبارہ اخباروں میں انکے ساتھ جنرل جہانگیر کرامت کا نام سامنے آیا۔

2024ء میں الیکشن سے 6ماہ پہلےہر سمت گونج رہا تھا کہ پاکستان میں 66فیصد نوجوانوں کو جو ہر وقت نوکریوں کیلئے ملک سے جانا چاہتے ہیں ، سیاسی تربیت کس نے فراہم کی۔ سوفیصد اختلاف کے باوجود میں اور مجھ جیسے سنجیدہ سوچنے والوں کا عمران خان کی قیادت کی طرف دیکھنا ضروری ہوگیا ہے۔ جب نوجوان نسل اس شخصیت کی عاشق ملے تو پھر کسی بھی پارٹی میں چیئرمین کوئی بھی ہو جائے، ان کو فرق نہیں پڑتا۔ سارے بزرگ جن میں مولانا فضل الرحمان، ظفر صاحب ،پیرپگاڑا یا آصف زرداری، اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہو جائیں۔ نوجوان جس میں 16سے 26سال کی عمر کے لوگوں، چاہے غریب ہوں کہ امیر، کو قیدی 804پسند ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے کہ فوجی سربراہ ہوں کہ عوامی سربراہ، جھٹلا نہیں سکتے۔ یہ الگ بات کہ اس نے اپنے دورِ حکومت میں ایک بھی ایسا کام نہیں کیا ،بس بھوک سے مرتی قوم کو اشک شوئی کیلئے مسافر خانے اور چلتے پھرتے کھانوں کی ڈرل کو مقصد کی انتہا سمجھ لیا۔ عمران نے اب تک قوم کی قبولیت کو نہیں سمجھا ۔ ملک بھر میں مہنگائی، بے روزگاری اور قتل و غارت کے اس بازار میں روزانہ قیدی 804ہدایت دیتا ہےکہ ملک کی ترقی، تعلیم اور صحت کو ٹھیک کرنےکیلئے رضاکارانہ آگے بڑھو۔ ا پنے اپنے علاقے کے بزرگوں کا خیال رکھو اور ان پڑھ بچوں کیلئے تعلیمی اور فنی تعلیم کا اہتمام کروکہ تمہاری اس بے لاگ محنت کے باعث، قیدی کی زنجیریں خود بخود ناکارہ ہو جائیں گی۔ مت غور کرو موجودہ حکومت کس طرح 47نمبر فارم کے ذریعے آئی ہے۔ 26سال میں ایٹم بم سے ملک کی معیشت نےترقی کی کونسی سطح عبور کی ہے۔ یہ بھی اعتراف کریں بانیٔ تحریک کہ جنرل فیض اور باجوہ کے کہے پر جو کچھ کیاوہ سراسر غلطی تھی۔ کاش نواز شریف بھی اپنی غلطیوں اور موروثیت کو ختم کریں۔ دونوں گروپ عدلیہ کو مزید ثاقب نثار سمجھنا بند کردیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ