سال 1973ءمتفقہ آئین، گولڈن جوبلی سب منائیں : تحریر محمود شام


بحران گھمبیر ہوتا جارہا ہے۔ آسمان سے بھی سوال اتر رہے ہیں۔ زمین کی گردشیں بھی بہت کچھ پوچھ رہی ہیں۔ محسوس ہورہا ہے کہ سب پھنس گئے ہیں۔ ہر طرف کنٹینرز لگے ہیں۔ مراجعت ہوسکتی ہے۔ نہ پیش رفت۔جہاں پنجاب کی سندھ اور بلوچستان سے سرحدیں ملتی ہیں۔ وہاں عوام کی بڑی تعداد نے موجودہ صوبائی اور وفاقی حکمرانوں کے خلاف اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔ قانونی برادری میں بھی موجودہ حکومتوں کے حامی وکلا ہار رہے ہیں۔

سب حق سچ کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔

……

رات بھیگ رہی ہے۔ نوجوانوں، عمر رسیدہ پاکستانیوں، خواتین کا بڑا اجتماع ایکسپو سینٹر کراچی میں پاکستان بھر سے ،دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے شعرا، شاعرات کو توجہ سے سن رہا ہے۔ جس شعر میں سوال ہوتا ہے وقت کو چیلنج کیا جاتا ہے۔ اس پر یہ مجمع پھڑک اٹھتا ہے۔ مشاعرے ہماری تہذیبی روایت ہیں۔ یہ ہمارے جذبات کو ترتیب دیتے ہیں۔ ہمیں جھاڑیوں بھری پگڈنڈیوں سے موٹر وے پر لے آتے ہیں۔ کئی کئی گھنٹے دریوں پر جم کر بیٹھے یہ سامعین بھی ذہنوں میں بہت سے سوالات لے کر آتے ہیں۔ آرزو یہ ہوتی ہے کہ شاید کسی غزل سے انہیں منزل کا اشارہ مل جائے۔عالمی مشاعرے کیلئے ساکنان شہر قائد کتنی تگ و دو کرتے ہیں۔ محمود احمد خان، فرحان الرحمٰن، جمال، عدیل اور جانے کتنے لوگ رات دن لگتے رہتے ہیں۔ خواہش یہی ہوتی ہے کہ بھٹکتے مسافروں کو وہ راستہ دکھائیں جو منزل تک لے جاتا ہے۔ یہاں ساری سیاسی پارٹیاں آتی ہیں۔ پی پی پی کے وقار مہدی ہیں۔ جو اَب سینیٹ کے رکن ہیں۔ پی پی پی کو یہ داد تو دینی چاہئے کہ وہ اپنے پرانے کارکنوں، متوسط طبقے کے لوگوں کو ایوان بالا تک پہنچانےکا فیصلہ کرتی ہے۔ ایک ہوجانے والی ایم کیو ایم کے فاروق ستار، خالد مقبول صدیقی، مصطفیٰ کمال الگ الگ آرہے ہیں۔ سامعین میں حیدر عباس رضوی بھی ہیں۔ میرے ساتھ انٹرنیشنل سامع جہانگیر خان بیٹھے ہیں۔ لاہور،ملتان، سبّی اور اسلام آباد سے آئے ہوئے معزز مقبول شعراء۔ شہر قائد کے ساکنوں کا بلند شعری ذوق ملاحظہ کررہے ہیں۔پاکستان کے عوامی ذہن کے رجحانات اگر کوئی ادارہ حقیقی انداز میں جانچنا چاہے تو مشاعروں کے اشعار اور سامعین کی داد سے مدد مل سکتی ہے۔ یہاں دریوں صوفوں کرسیوں پر پاکستان کی ساری نسلیں بیٹھی ہیں۔ نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والی۔ پاکستان ٹوٹنے کے بعد آنکھیں کھولنے والی۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جنہوں نے پاکستان بنتے ٹوٹتے دیکھا۔ وہ بھی ہیں جو ارب پتی بلکہ کھرب پتی ہیں۔ وہ بھی جو روزانہ کمانے کیلئے نکلتے ہیں۔ لیکن سب کی تشویش ایک سی ہے۔ گورنر کامران ٹیسوری بھی اُردو کے عشق میں اپنے لاؤ لشکر کیساتھ آئے ہیں۔سوالات ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ سوال کرنیوالی قومیں ہی آگے بڑھتی ہیں۔ اور جس دَور میں ہم سانس لے رہے ہیں وہاں سوال کرنے پر ہی ہتھکڑیاں لگ جاتی ہیں۔ اب اینکر پرسنوں۔ سیاسی عہدیداروں کیساتھ80سالہ لیفٹیننٹ جنرل(ر) امجد شعیب بھی کٹہرے میں لائے جارہے ہیں۔ مشاعرے سے رات کے پچھلے پہر فارغ ہونے کے بعد ہمیں اگلی صبح بزم مکالمہ میں پیش ہونا ہے۔پیاسوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ طارق جمیل اور ان کے رفقا کسی صاحب فکر و نظر کو پچاس منٹ دیتے ہیں کہ وہ مقررہ موضوع پر زبانی یا تحریری اپنے خیالات کو بیان کرے۔ پھر سامعین کے سوالات ہوتے ہیں۔ ان میں سابق بیورو کریٹ، تاجر، صنعت کار، شاعر، لیکچرراور ڈاکٹر ہوتے ہیں۔ ایسی نشستیں ملک بھر میں ہورہی ہیں۔ بہت اہم سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ سود مند تجاویز پیش کی جاتی ہیں یہ نشستیں قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے اجلاسوں سے زیادہ پُرمغز ہوتی ہیں۔ خلوص نیت ہر لحظہ غالب ہوتا ہے۔ کاش کوئی بڑا میڈیا انکی رُوداد سے عوام کو آگاہ کرے۔ موضوع تھا۔ ’’پاکستان میں سیاسی نظام کی ناکامی کے اسباب۔‘‘میں نے 100 سوالات کے ذریعے 1947 سے 2023 تک کا جائزہ لیا ہے۔ بہت انہماک سے میری معروضات سنی گئی ہیں۔ اس کے بعد سوالات۔ جن سے نرا خلوص جھلکتا ہے۔

اسی دوپہر کے بعد میری سہ پہر سندھ اسمبلی کے نئے آڈیٹوریم میں گزرتی ہے۔ موضوع ہے۔’’1973کے آئین کی گولڈن جوبلی‘‘ ایک متفقہ منظور شدہ آئین اگر پچاس سال سے موجود ہے۔ تو ایک شایان شان تقریب کا حق تو بنتا ہے۔ مگر یہ خوشیاں صرف پی پی پی کیوں منارہی ہے۔ یہ تو پاکستان کی ہر پارٹی ہر ادارے۔ ہر شعبے کی ذمہ داری ہے۔ آئین تو سب کیلئے ہے۔ جنرل ضیا الحق کی سفاکی بھی یہ آئین برداشت کرگیا۔ جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت کی طالع آزمائیاں بھی۔ یہ ساری سیاسی پارٹیوں کی عرق ریزی کا مرقع ہے۔ اسلئے اسے 1956اور 1962ء کےدساتیر کی طرح منسوخ کرنے کی ہمت نہیں ہوئی ہے۔ مجھے اس ہال میںبہت سی بہنیں۔ بھائی نظر آرہے ہیں۔ جنہیں میں شہر قائد کی سڑکوں چوراہوں پر آنسو گیس کی بوچھاڑ میں لاٹھیاں کھاتے دیکھ چکا ہوں۔ اسٹیج پر بلاول بھٹو زرداری ہیں ۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ ۔ سابق وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ جو 1973 کی آئین ساز کمیٹی کے ارکان میں سے زندہ آخری رکن ہیں۔ 18ویں ترمیم کے لئے رتجگے کرنے والے میاں رضا ربانی ہیں۔ جسٹس(ر) رشید اے رضوی۔ جسٹس (ر) مقبول باقر۔ اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج الدین۔ اس تقریب کے مہتمم نثار کھوڑو، سعید غنی میرے ساتھ بیٹھے ہیں۔ سینیٹر وقار مہدی ۔ اسٹیج پر کوئی خاتون نہیں ہے۔ اہم نکات اپنائے جارہے ہیں۔ میں یہ تجویز دے رہا ہوں کہ 12اپریل 2023ء کو جب آئین کے پچاس سال پورے ہوں۔ تو اس آئین کو منظور کروانے والے شہید ذوالفقار علی بھٹو کی آخری آرام گاہ گڑھی خدا بخش بھٹو پر موجودہ وزیراعظم، ان کی کابینہ، چیف جسٹس، آرمی چیف، قومی اسمبلی کے اسپیکر اور سینیٹ کے چیئرمین سب حاضری دیں۔ اس موقع پر مولانا مفتی محمود ۔ خان عبدالولی خان۔ پروفیسر غفور احمد۔ مولانا شاہ احمد نورانی۔ سردار شیر بازمزاری۔ غوث بخش بزنجو۔ سب کو یاد کیا جائے۔ میاں محمود علی قصوری اور عبدالحفیظ پیرزادہ کو بھی خراج عقیدت پیش کیا جائے۔ بعد میں یہ عہد بھی کریں کہ اس آئین کی حدود میں رہتے ہوئے آگے بڑھیں گے۔ نعرے بلند ہورہے ہیں۔’’وزیراعظم بلاول‘‘۔ نعرے لگانے والی اس نسل کے دادا ،نانا کے نعرے سن چکا ہوں۔ ’بھٹو جیوے۔ صدر تھیوے‘ پھر ان کی اگلی نسل ’وزیراعظم بے نظیر۔ اب تیسری نسل یہ نعرے لگارہی ہے۔ کہیں نعرے بلند ہوتے ہیں۔ وزیراعظم مریم نواز اور آج کل کی مقبول پی ٹی آئی کا نعرہ ہے وزیراعظم عمران۔

مگر وزیراعظم بنانے کے فیصلے تو کہیں اور ہوتے ہیں۔ وہاں پتہ نہیں کوزہ گر کس کیلئے چاک گھمارہے ہونگے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ