کیسے ممکن ہے میری ذات جدا ہو اس سے : تحریر ڈاکٹر صغریٰ صدف


الحمرا کے وسیع لان میں سینکڑوں کرسیوں پر بیٹھے اور چہار اطراف کھڑے ہزاروں لوگوں کے ہاتھوں میں آزادی کے جھنڈے اور لبوں پر ترانے تھے۔ دلوں میں جو تڑپ اور شدت تھی وہ آنکھوں میں جلتے عزم کے دِیے کو مزید جگمگا رہی تھی۔ یہ محفل کشمیر کے نہتے لوگوں پر ہونے والے مظالم اور مودی سرکار کے بے رحمانہ رویوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کے سبب یومِ یکجہتی کشمیر کے لئے منعقد کی گئی۔ یہ وہ محفل تھی جس میں سب دل سے شریک ہوئے، دل کے جذبوں کا اظہار کیا اور کشمیریوں کے لئے اپنی اپنی سطح پر کچھ کرنے کا اعادہ کیا۔ یہ ہماری اجتماعی سوچ کا اظہار تھا جسے ہم نے اپنی مشکلات میں گھر کر بھی کبھی نظرانداز نہیں کیا۔ یوں لگا کہ اس پروگرام کا مقصد عالمی ضمیر کی سوئی ہوئی توجہ کو بیدار کرنا تھا۔ اطلاعات و ثقافت کے تمام اداروں کے علاوہ ضلعی حکومت بلکہ پنجاب حکومت کی نمائندگی ہر طرف نظر آئی۔ گورنر پنجاب بلیغ الرحمن سمیت دیگر علمی، ادبی اور ثقافتی شخصیات وہاں موجود تھیں۔ کشمیری حریت پسند رہنما کی تقریر کا ایک ایک لفظ دلوں میں اترتا محسوس ہوا۔ یہ لکھی ہوئی تقریر نہیں تھی، جھیلے ہوئے درد کی کہانی تھی جسے اہلِ دل اور اہلِ درد لاہوریوں نے اسی کیفیت سے محسوس کیا۔

ہم جن کے لئے کشمیر شہ رگ کی مانند ہے اور یہ صرف زبانی کلامی نہیں بلکہ حقیقی طور پر ہے۔ ہم دونوں کی بقا ایک دوسرے سے منسلک ہے۔ ہمارے دریائوں کے کنٹرول بھارت کے پاس ہیں۔ وہ جب چاہے فالتو اور بے مہار پانی چھوڑ کر ہمیں خوفناک سیلاب سے ہمکنار کر دے اور جب چاہے ہمارا پانی روک کر ہماری زمین کو پیاسا صحرا بنا دے۔ جیسا وہ مختلف ڈیم بنا کر پہلے ہی کر چکا ہے۔ ہم ہمیشہ سے مقبوضہ کشمیر کی دگرگوں حالت پر ماتم کناں ہیں۔ ان کی جنگ لڑنے کو تیار ہیں مگر وقت کا جبر دیکھئے ہماری کوتاہیوں اور دشمن کی چالوں کے سبب آج ہمارا اپنا تحفظ اور بقا داؤ پر لگ چکا ہے۔ کشمیریوں کو اپنے ساتھ اب ہماری بھی فکر لاحق ہے لیکن ہم فکر کرنے کو تیار نہیں۔ ہم پر حملے کرنے والوں نے چاروں سمتیں سنبھالی ہوئی ہیں اور ہم آپس میں جھگڑ رہے ہیں۔ حکومت کرنے کو بے تاب رہنماؤں کے لئے غریب کی دو وقت کی روٹی اور سفید پوش کا بھرم اہم نہیں صرف انتخابات کا جلد انعقاد ضروری ہے تا کہ ان کا راج قائم ہو سکے، ان کی بادشاہت برقرار رہ سکے۔ حالات کی سنگینی کو سنجیدہ نہ لینا سب سے خطرناک رجحان ہے جس کا اس وقت ہم سب کو سامنا ہے۔ بے حسی نشے کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ کشمیریوں رہنماؤں نے بتایا کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ ہمارے ہر دُکھ سُکھ میں ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم کسی کھیل میں جیت جائیں تو وہ فخر کرتے ہیں اور ہم پر کوئی انہونی ٹوٹ پڑے تو وہ ماتم کرتے ہیں۔ وہ ہماری مشکلات سے آگاہ ہیں۔ ہم سے کسی جنگ کے متمنی نہیں صرف عالمی ضمیر کے بند دروازے کو کھٹکھٹانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ باتیں کئی دنوں سے کانوں میں گونج رہی ہیں۔ وہ باتیں نہیں مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے پیغامات تھے، ان کی جدوجہد کی کہانی کے کچھ حصے تھے۔ کاش وہ بھی ایک روایتی تقریر ہوتی جسے نہ سنجیدگی سے سننا نہ یاد رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ نہ چلنے اور اردگرد متحرک دشمن قوتوں کا ادراک نہ کر سکنے کے باعث ہم جس گہری کھائی میں گر چکے ہیں اس سے نکلنے کے لئے غیر روایتی اور کٹھن جدوجہد درکار ہے۔ ہم وہ قوم ہیں جو نہ محنت مشقت سے گبھراتی ہے اور نہ مشکلات سے خوفزدہ ہوتی ہے۔ طوفانوں کا سامنا کرنے کے لئے جابر قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔

کشمیریوں کا یہ شکوہ اور مطالبہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ ان کی رضا اور بقا سے جڑے مطالبات کو دلائل کی میز پر زیر بحث لاتے ہوئے انہیں بھی شریک کر لیا جائے یا ان سے مشورہ ہی کر لیا جائے تو اس کے بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔ یہ لمحہ اس بات کا متقاضی ہے کہ ہمیں اب روایتی خط و کتابت سے آگے بڑھ کر زیادہ مؤثر طریقے سے کشمیر کا مقدمہ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پروگرام کا انعقاد یقیناً صوبائی اور مرکزی حکومت کی پالیسی کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ کشمیر کاز کو کتنی اہمیت دیتی ہے۔ عمران شوکت علی نے کشمیریوں کے لئے ترانے پیش کر کے جس عزم اور تڑپ کے اظہار کا ساتھ دشمنوں کو للکارا اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا وہ جذبہ ہم سب کے کردار میں نظر آنا چاہئے۔ میں اپنا ہی لکھا ترانہ سن کر آبدیدہ ہوگئی۔

ممکن ہے میری ذات جدا ہو اس سے

میرا کشمیر لہو بن کے رگوں میں دوڑے

بشکریہ روزنامہ جنگ