یونیورسٹیاں۔ بند گلی سے نکال سکتی ہیں : تحریر محمود شام


آج اتوار ہے۔ بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں۔ بہوؤں اور دامادوں کے ساتھ نشست کا دن۔دوپہر کا کھانا ساتھ کھائیں۔ ان کی حیران کردینے والی باتیں سنیں۔ ان کے ذہنوں میں تڑپتے سوالات کے جواب دیں۔ ان سے آگے بڑھنے کے راستے سیکھیں۔ میں تو پورا یقین رکھتا ہوں کہ یہ نوجوان ہم سے زیادہ معلومات رکھتے ہیں۔

میں جامعہ کراچی کے آرٹس ایڈیٹوریم( سماعت گاہ کلیہ فنون) میں اسٹیج پر بیٹھا ہوں۔ میرے سامنے میرا مستقبل ہے۔ سینکڑوں طلبہ اور طالبات ان سے بھی زیادہ تعداد میں۔ وہ کتنے گھنٹوں سے غالب جیسے مشکل الکلام شاعر کی تخلیقی جہات پر اساتذہ کی گفتگو بہت دلجمعی اور غور سے سن رہے ہیں۔ ہمہ تن گوش(all ears)کی مجسم تصودیر۔ یہ توجہ یہ انہماک مجھے کبھی اپنے آئندہ سے مایوس نہیں ہونے دیتا۔ پہلے میں بھی شاکی رہتا تھا کہ یونیورسٹیاں بانجھ ہو گئی ہیں کچھ نہیں ہو رہا ہے لیکن سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں آنا جانا ہوتا ہے۔تو وجدان یہ سرگوشی کرتا ہے۔

ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالاہے

شیخ الجامعہ خالد محمود عراقی نے بھی وقت نکالا ۔ ڈین آف سوشل سائنسز نے بھی۔ طلبہ و طالبات نے غالب کی اپنی پسندیدہ نظمیں بھی تحت اللفظ پڑھیں۔ عظمی فرمان فاروقی اب شعبہ اردو کی سربراہ ہیں۔ انہیں دیکھ کر ڈاکٹر فرمان فتحپوری اپنی شفقت و مہربانی کے ساتھ یاد آجاتے ہیں۔ ذکیہ رانی اس مذاکرے کی مہتمم ہیں۔ صدف تبسم ناظم ۔ میں بیٹھے بیٹھے غالب کے دور میں پہنچ گیا ہوں۔ جہاں بادشاہ بھی ہیں۔ انگریز بھی۔ جنرل بھی۔ چیف جسٹس بھی۔ وزیر داخلہ بھی۔ مگر اب 200 سال بعد دنیا صرف غالب کو جانتی ہے۔ ان کی بادہ گساری سمیت بہت اچھی طرح۔ اس وقت کے سپہ سالار قاضی القضا کا کوئی ذکر بھی نہیں کرتا۔ یہ ہے حرف و دانش کی برتری۔

یونیورسٹیاں ہماری قوت ہیں۔ ان کے برآمدوں۔ کمروں اور سماعت گاہوں میں مستقبل پرورش پا رہا ہے۔ قوموں کو ہمیشہ یونیورسٹیوں نے ہی بند گلیوں سے نکالا ہے۔ اب بھی اگر اساتذہ اور طلبہ۔ طالبات۔ یعنی دو نسلیں اپنی خودی پہچان لیں تو اس عظیم مملکت کو انسانوں کے پیدا کردہ بحرانوں سے نکال سکتے ہیں۔

جواں مرگ امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے شاعری کو اقتدار سے بڑی قوت نافذہ قرار دیا تھا۔ جب اقتدار۔ حکمران کو بد عنوان کرتا ہے۔ تو شاعری راستہ صاف کرتی ہے۔ شاعری انسان کو اس کی وسعتوں اور توانائی کا احساس دلاتی ہے۔ نئے امریکی صدر کی حلف برداری میں بھی ایک جواں سال شاعرہ سے نظم سنی گئی۔ جس میں پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا۔ ساکنان شہر قائد شاعری کی ترویج اور ترسیل کے لیے تگ و دو میںمصروف ہیں۔ عالمی مشاعرہ تو 25فروری کو ہورہا ہے۔ مگر وہ مختلف مقامات پر شعری نشستیں منعقد کرکے اس کے لیے ایک خیر مقدمی ماحول تخلیق کررہے ہیں۔ میں ہمیشہ کہتا رہتا ہوں کہ کوئی دور ہوجمہوری ۔ فوجی۔ یا پیوندی۔ نہ کبھی عشق رکتا ہے اور نہ ہی شاعری۔ ہمارے نوجوان شعرا کیسے کیسے مضامین باندھ رہے ہیں۔ ان کے تخیل کی پرواز ہم سب کو بلندیوں کی طرف لے جاتی ہے۔ پاکستان آرٹس کونسل میں جنوری فروری میں پیدا ہونے والے شعرا کے ساتھ نشست رکھی گئی۔ بڑھاپے میں آپ کی ترکیب استعمال صرف محفلوں مشاعروں کی صدارت رہ جاتی ہے۔ آج کل ہمارے ساتھ یہی ہورہا ہے۔

ان ہی دنوں امریکی صدر جو بائیڈن کا اسٹیٹ یونین خطاب سننے میں آیا۔ امریکی بڑے کمال کی قوم ہیں۔ دنیا کی ساری قوموں کو آپس میں لڑواتے ہیں۔ مگر خود شیر و شکر رہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے کچھ کوشش کی تھی۔ پاکستانی سیاست دانوں کی طرح آپس میں لڑوانے کی۔ لیکن امریکی سالہا سال کی خانہ جنگیوں۔ قتل و غارت گری۔ کالے گورے کی کشمکش سے ہوتے ہوئے اتنے تحمل مزاج ہوگئے ہیں کہ ایک بار جو صدر منتخب ہوجائے۔ پھر اسی کو اپنا مسیحا، اپنا قائد تسلیم کرلیتے ہیں۔ صدر بائیڈن بھی اپنے اسی خطاب میںبار بار یہ جملہ دہرا رہے تھے کہ وہ ہر امریکی کے صدر ہیں۔ اس جملے پر امریکی ایوان میں صرف ان کی جماعت کے ارکان تالیاں نہیں بجارہے تھے۔ ری پبلکن ڈیموکریٹ سب کھڑے ہوکر توثیق کررہے تھے۔ اسپیکر ان کی اپوزیشن پارٹی کے ہیں۔ وہ بھی اس پر جوش تعظیم میں پیچھے نہیں رہے۔ اسٹیٹ یونین کے خطاب کی پیروی ہماری پارلیمنٹ میں بھی مشترکہ اجلاس بلاکر کی جاتی ہے۔ ہم صدر غلام اسحق خان سے لے کر، صدر فاروق لغاری، صدر رفیق تارڑ، صدر آصف زرداری، صدر ممنون حسین اور اب صدر عارف علوی کے خطاب میں دیکھتے آ رہے ہیں کہ کسی صدر کو اپنی آواز، اپنا سربراہ سمجھ کر نہیں سنا گیا۔ گو بابا گواور اس قسم کے نعرے، ہنگامہ، شور سننے کو ملا ہے۔ ہماری قبائلیت اور سرداری غلامی ہمارے ذہن سے نہیں نکلتی۔ صدر بائیڈن کووڈ کے نتیجے میں ڈوب جانے والی معیشت کو بحال کرنے کے اقدامات بتارہے تھے۔ امریکہ کا عالمی وقار دوبارہ حاصل کرنے پر فخر کا اظہار کر رہے تھے۔ ہم دیکھ رہے تھے کہ ہر چند منٹ بعد ایوان تالیوں سے گونج اٹھتا تھا اور زیادہ بڑی کامیابی کا ذکر ہوتا تو سارے ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہوجاتے تھے۔ ایک صحافی کی حیثیت سے ہمیںشہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں اسی ایوان میں ان کا خطاب سننے کا موقع بھی ملا تھا۔ پہلی مسلم خاتون وزیراعظم اور جمہوریت کے لیے جیلوں گرفتاریوں کی صعوبتیں برداشت کرنے والی جراتمند بیٹی ہونے کی حیثیت سے اس وقت کے کانگریس والوں نے بھی اس طرح پذیرائی کی تھی۔ ایک ایک جملے پر کھڑے ہوکر تالیاں۔

امریکی اپنی صفوں میں کتنا اتحاد اور کتنی یگانگت رکھتے ہیں اورہم غریب قوموں میں نفرتیں پیدا کرتے ہیں، حکومتوں کے تختے الٹواتے ہیں۔ ان کی کوشش یہ رہتی ہے کہ جنگوں کی آگ بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کے اس پار رہے۔ ان کی سرزمین اس کا ایندھن نہ بنے اور ایک ہم ہیں کہ دنیا میں کہیں بھی جنگ ہو۔ ہم اس میں کودنے کو تیار رہتے ہیں امریکیوں کے لیے تو ہم نہ جانے کتنی بار ہی عسکری خدمات پیش کرچکے ہیں۔ کتنے نوجوانوں فوجیوں، افسروں کی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ اب یہ سوشل میڈیا، فیس بک، واٹس ایپ گروپ، انسٹا گرام، چیٹ جی بی ٹی اور بہت کچھ امریکہ سے ہی ایجاد ہو رہا ہے۔ اپنے ہاں تو امریکہ کے خلاف کوئی بات ہو، اس کا راستہ مسدود کر دیتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں فرقہ پرستی، مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی، اپنے حکمرانوں، لیڈروں، فوج، عدلیہ کے بارے میں بے سروپا ہزاروں ڈالر نچھاور کرتے ہیں۔

ایک بار پھر یونیورسٹیوں سے گزارش کہ آگے بڑھیں اساتذہ طالب علم، محققین، قوم میں نفرتیں ختم کروائیں۔ بد زبانی، بد اخلاقی کے رجحانات کی جڑیں کاٹیں۔

طالب علم اپنی طاقت پہچانیں۔ پاکستان کو بند گلی سے نکالنے میں رہنمائی کریں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ