ڈار صاحب پھر گلہ نہ کرنا : تحریر نوید چوہدری


ملک سے زیادہ دیر تک باہر رہنے کے سبب انسان زمینی حقائق کا بروقت اور درست ادراک نہیں کر پاتا ۔ خصوصا ملاقاتیوں اور رابطوں کا سلسلہ بھی ایک خاص دائرے تک محدود ہو جائے تو معلومات کے ذرائع اور سکڑ جاتے ہیں۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ باہر جاکر ملکی معاملات سے جڑے رہنے کی مسلسل کوشش کرنے والے بھی حالات و واقعات کا مکمل اندازہ نہیں لگا پاتے ۔ نواز شریف اور اسحاق ڈار کا شمار یقینا ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے لندن میں خود کو بہت محدود کرلیا تھا ۔ نواز شریف کو جب احساس ہوا کہ اس بے عملی سے ان کی جماعت مسلم لیگ ن کو بہت بڑے خسارے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تو اپنی صاحبزادی مریم نواز کو واپس بھجوا دیا۔ دیکھتے ہیں کہ اب وہ کتنا متحرک ہوتی ہیں اور سیاسی ڈیمج کو کیسے روکتی ہیں ۔ اپنی پارٹی کے سر پڑنے والی معاشی گراوٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے اسحاق ڈار کو نواز شریف نے پہلے ہی بھجوایا دیا تھا مگر وہ اس ٹاسک کو پورا کرنے میں بری طرح سے ناکام ہو گئے ۔ یہ بات ثابت ہوگئی کہ وزارت خزانہ سنبھالنے کے لیے انہوں نے کوئی ہوم ورک نہیں کیا تھا ۔ اگر کوئی کچا پکا پلان بنا بھی رکھا تھا تو وہ اس امر سے واقف ہی نہیں تھے کہ 2018کے بعد پاکستان کے مالی معاملات کے حوالے سے بہت بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں آچکی ہیں۔ اسحاق ڈار نے وزیر خزانہ بننے کے فوری بعد معیشت سنبھالنے اور ڈالر کے نرخ کنٹرول کرنے کے حوالے سے جو دعوے کیے اور پوری حکومت کے لیے مضحکہ خیز صورتحال پیدا کرچکے ہیں اب فیس سیونگ کا موقع بھی دستیاب نہیں۔ سادہ سا سوال ہے کیا اسحاق ڈار کو پتہ نہیں تھا کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا گیا وہ ہر صورت لاگو کرنا تھا اور 2022تک چلنا تھا۔اس معاہدے میں کورونا کے باعث جو تعطل آیا وہ بھی الٹا خرابی کا سبب یوں بن گیا کہ وبا سے نمٹنے کے لیے اربوں ڈالر کی عالمی امداد غیر متعلقہ چیزوں پر خرچ کردی گئی۔ یوں عالمی اقتصادی نظام میں یہ تاثر مزید پختہ ہوگیا کہ پاکستان میں شفافیت کا فقدان ہے ۔ اس کے بعد نہ صرف معاشی بلکہ سفارتی محاذوں پر بھی زبردست بحران پیدا ہوگیا کیونکہ ایک پیج مکمل طور پر پٹ چکا تھا ۔ پوری دنیا کو پتہ تھا کہ عمران خان محض نام کے وزیراعظم ہیں سارا نظام ملٹری لیڈر شپ چلا رہی ہے ۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو یا گورنر سٹیٹ بنک کو وائسرائے بنانے کا مشن تمام سرگرمیوں کے پیچھے باجوہ اینڈ کمپنی تھی۔سی پیک روک کر چین کو ناراض کیا گیا تو کیا یہ صرف کٹھ پتلی وزیر اعظم کا کام تھا؟ آئی ایس آئی نے دیگر شعبوں کی طرح معاشی معالات میں بھی اس حد تک مداخلت شروع کردی تھی کہ تاجروں کو طلب کرکے گائیڈ لائنز دی جاتی تھیں کہ تم لوگوں نے آگے کیا کرنا ہے۔ اس طرح سفارتی امور میں عمران خان کی غیر ذمہ دارانہ گفتگو سے جو رکاوٹیں پیدا ہوئیں ان سے دوست ممالک میں ریاستی عہدیداروں کے بارے میں بھی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔ کیا نواز شریف اور اسحق ڈار یہ نہیں جانتے تھے کہ عمران خان کی اقتدار سے فراغت کے بعد بھی جنرل باجوہ پی ٹی آئی کو سپورٹ کررہے ہیں۔ عدالتوں سے آنے والے عجیب و غریب فیصلے بھی پوری دنیا دیکھ رہی تھی ۔ اسحاق ڈار نے یہ سوچا بھی کیسے کہ اصل صورتحال سے پوری طرح واقف دوست ممالک لولی لنگڑی
حکومت کو نرم شرائط پر مالی امداد دے دیں گے ۔ باہر تو یہی پیغام جاچکا تھا کہ ریاست کا ایک پیج ان تمام ممالک کے لیے باربار الجھنیں پیدا کرتا جا رہا ہے۔ صرف ایک مثال ہی دیکھ لی ہوتی کہ داسو ڈیم پر دہشت گردی میں چینی انجینئروں کی ہلاکت کے بعد جس طرح سے کبھی حادثے اور کبھی سی این جی کا ٹینک پھٹنے کی خبریں چلا کر غیر ذمہ دار ریاست ہونے کا جو ثبوت دیا گیا اس نے چین کی قیادت اور قوم پر کیا تاثر چھوڑا ہوگا؟ خصوصا جب سی پیک کا مکو ٹھپنے کے لیے امریکہ کی کاوشیں اور فرمائشیں بھی چینی حکام کے علم میں ہوں ۔ کیا اسحاق ڈار کو یاد نہیں رہا تھا کہ ن لیگ کے دور حکومت میں ٹینکوں کی خریداری کے لیے رقم دینے کے معاملے سمیت بعض دیگر امور پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے لیے وہ ناقابل قبول شخصیت بن چکے ہیں۔ معاشی معاملات کی قطعی سوجھ بوجھ نہ رکھنے کے باوجود سی پیک کے حوالے جنرل باجوہ نہ جانے کہاں سے بریفنگ لے کر اسحاق ڈار سے جو عجیب و غریب سوالات کرتے تھے وہ بھی دونوں میں تلخی کا سبب بنے رہے ۔ اسٹیبلشمنٹ ان کے درپے تھی یہ سچ ہے کہ اسحاق ڈار بھی گرفتاری کے خوف سے پاکستان سے فرار ہوئے تھے ۔ انہیں واپسی سے پہلے سوچنا چاہیے تھا کہ آخر حالات کس حد تک تبدیل ہوئے ہیں ۔ وہ یہ بنیادی اصول بھی فراموش کرگئے کہ عالمی مالیاتی اداروں اور بیرونی ممالک نے معاملات ن لیگ کے ساتھ نہیں بلکہ ریاست پاکستان کے ساتھ طے کرنا ہیں۔ اس دوران یقینی طور پر ہم پاکستانیوں کی طرح دنیا کو بھی ایسی کوئی واضح حکمت عملی نظر نہیں آئی جو ہائبرڈ نظام میں کی جانے والی فاش غلطیوں کے ازالے کے لیے ہو ۔ اسٹیبلشمنٹ کی اپنی غلطیوں کے سبب پیدا ہونے والے بدترین مالی بحران کے سب سے اہم مرحلے میں شوکت ترین نے جس طرح آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی اس پر تمام اداروں کو سانپ سونگھ گیا۔ کسی دوسرے ملک میں ایسا جرم ہوا ہوتا تو مجرم کو فوری طور پر نمونہ عبرت بنا دیا جاتا۔ اس طرح کے واقعات سے بین الاقوامی برادری میں تاثر گیا کہ پاکستان کی اصل حکمران اسٹیبلشمنٹ یا تو کمزور ہو چکی یا پھر ڈبل گیم کررہی ہے۔ ایسے میں کوئی معمولی عقل رکھنے والا سوچ بھی کیسے سکتا ہے کہ مکمل گارنٹیاں پیشگی طور پر لیے بغیر ایک ڈالر بھی نقد دے یا ایک ڈالر کی بھی سرمایہ کاری کرے۔اسحاق ڈار کے آنے سے بہت پہلے عمران حکومت کے دوران ہی شوکت ترین نے کہہ دیا تھا کہ بیڑا غرق ہوچکا، شبر زیدی کا دعوی تھا پاکستان ڈیفالٹ کر چکا۔ چودھری سرور نے بتایا کہ صرف چھ ارب ڈالر کے قرضے کے عوض ہمارا سب کچھ لکھوا لیا گیا ہے۔ تو کیا یہ سب کوئی راز تھا۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کے فواد چودھری، شوکت ترین، عمر ایوب جیسے وزرا ٹی وی پر آکر قوم کو بتا رہے تھے کہ مہنگائی کے سونامی کے لیے تیار ہو جا ہم آئی ایم ایف کے سامنے سرنڈر کرنے لگے ہیں۔ عالمی برادری کے بنیادی اصولوں میں ایک یہ بھی ہے کہ جو معاہدہ کرکے مکر جائے اسکا جینا مشکل بنا دیا جاتا ہے ۔ عمران خان نے حکومت جانے سے چند روز قبل بجلی، پٹرول کی قیمتوں میں کمی کرکے یہ واردات بھی کر ڈالی۔ شیخ رشید جیسے کریکٹر اس وقت مزے لے کر بیان کرتے رہے کہ عمران تو چلا گیا مگر اگلی حکومت کی راہ میں بارودی سرنگیں بچھا گیا ہے ۔ عمران حکومت کی معاشی پالیسی اس قدر غیر واضح اور ناقص تھی کہ حکومت جانے کے ایک موقع پر شوکت ترین کے منہ سے نکل گیا اچھا ہوا اقتدار سے باہر آگئے کیونکہ ہمارے پاس ملک کو مالی بحران سے نکالنے کا کوئی پلان تھا ہی نہیں ۔ کیا قبیح منظر ہے کہ صرف پی ٹی آئی حمایتی سوشل میڈیا ہی نہیں بعض ٹی چینلوں پر بیٹھے اینکر بھی پورا زور لگا رہے ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے۔ قانون اور ادارے ان پر ہاتھ ڈالنے پر تیار نہیں اور اگر ان کے ہاتھ کانپ رہے ہیں تو سیاسی کمزوری کی سب سے بڑی علامت مسلم لیگ ن کیا کرلے گی ۔ اسی دوران اسحاق ڈار کے خلاف میڈیا مہم بھی شروع کردی گئی ہے جو صرف پی ٹی آئی والوں کی جانب سے نہیں بلکہ نیوٹرل سمجھے جانے والے چینل اور اخبارات بھی پیش پیش ہیں ۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ مہنگائی کا عذاب ڈبل کردے گا ۔ سیاسی طور پر دبکی ہوئی ن لیگ معاشی محاذ پر بھی پیچھے ہٹتی چلی گئی تو اسٹیبلشمنٹ اسے بوجھ قرار دے کر اتار پھینکے گی۔ ایسا ہوا تو ڈار صاحب کو گلہ نہیں کرنا چاہیے ۔ ان کی پارٹی نے یہ بلا خود اپنے سر مول لی ہے۔ مالی امور پر اسحاق ڈار کے ساتھ زبانی کلامی جھڑپوں سے تنگ اسٹیبلشمنٹ کے لیے مفتاح اسماعیل بڑی حد تک قابل قبول آپشن تھے۔ سارے حقائق کا اچھی طرح علم ہونے کے باوجود مفتاح اسماعیل کام بھی کررہا تھا اور لوگوں کی نفرت کا بوجھ بھی اٹھا رہا تھا ۔ ہوسکتا ہے کہ ن لیگ کو جلد خیال آجائے کہ نواز شریف کی طرح اسحاق ڈار بھی محفوظ اثاثے کے طور پر لندن میں ہی رہ جاتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ ملک میں جاری افراتفری سے اداروں کی لاتعلقی سے لگ رہا ہے کہ رجیم چینج کا فیصلہ ملک میں اقتصادی انقلاب لانے کے لیے نہیں بلکہ لاڈلے کی حماقتوں کے باعث آئی ایم ایف کے پاس پھنسا ہوا قرضہ حاصل کرنے کے لیے کیا گیا ۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات