فواد چوہدری کا جسمانی ریمانڈ مسترد کرنے کا فیصلہ کالعدم ،پولیس کی درخواست پر مزید دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور


اسلام آباد(صباح نیوز)اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سیشن کورٹ کے فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی ائی) کے رہنما فواد چوہدری کو دو روز جسمانی ریمانڈ پر دوبارہ پولیس کے حوالے کردیا۔جوڈیشل مجسٹریٹ نے پولیس کی درخواست پر سماعت کی اور وکلا کے دلائل کے بعد محفوظ کیا گیا فیصلہ سنادیا اور پی ٹی آئی رہنما کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔اس سے قبل گزشتہ روز عدالت نے پولیس کی درخواست مسترد کرتے ہوئے فواد چوہدری کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔اسلام آباد سیشن کورٹ نے اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں گرفتار رہنما  پی ٹی آئی فواد چوہدری کے جسمانی ریمانڈ مسترد ہونے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

قبل ازیں اسلام آباد پولیس کی جانب سے فواد چوہدری کے مزید جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔عدالت نے پی ٹی آئی رہنما کا جسمانی ریمانڈ مسترد ہونے کا فیصلہ چیلنج کیے جانے پر فواد چوہدری کو ساڑھے 12 بجے پیش کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد انہیں عدالت میں پیش کردیا گیا۔دریں اثنا پی ٹی آئی رہنما کی بعد از گرفتاری ضمانت کی درخواست پر ایک علیحدہ سماعت بھی مقامی عدالت میں ہوئی۔دونوں مقدمات پر ایف-8 کچہری (ضلعی عدالتوں کے لیے مختص جوڈیشل کمپلیکس) کے قریب واقع مختلف عدالتوں میں علیحدہ علیحدہ طور پر سماعت ہوئی۔قبل ازیں جوڈیشل مجسٹریٹ وقاض احمد راجا کی جانب سے فواد چوہدری کا جسمانی ریمانڈ مسترد ہونے کا فیصلہ چیلنج کرنے کے لیے اسلام آباد پولیس نے سیشن جج کے سامنے اپیل دائر کی تھی۔

پولیس کی جانب سے دائر اپیل میں جوڈیشل مجسٹریٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیکر فواد چوہدری کا مزید جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا کی گئی۔سیشن جج طاہر محمود خان نے پولیس کی درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کو 10 بجے سماعت کے لیے مقرر کر دیا۔10 بجے سماعت کا آغاز ہوا تو عدالت نے استفسار کیا کہ 2 روز کے جسمانی ریمانڈ میں کیا تفتیش کی؟ اسٹیٹ کونسل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ 2 روز کا جسمانی ریمانڈ ملا مگر عملا ہمیں ایک دن ہی مل سکا، فوٹو گرامیٹری ٹیسٹ کروانا ہے جو پنجاب فرانزک لیب میں ہونا ہے۔عدالت نے سماعت میں وقفہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ملزم کے وکلا کو نوٹس کی تعمیل ہوجائے پھر دلائل دیں۔وقفہ کے بعد سماعت کو دوبارہ آغاز ہوا تو فواد چوہدری کے وکیل ڈاکٹر بابر اعوان سیشن جج کے سامنے پیش ہوئے۔بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے ضمانت کے لیے رجوع کر رکھا ہے، ایڈیشنل اینڈ سیشن جج کو حکم دیں ہماری ضمانت کی درخواست سن لیں، حیران کن بات ہے کہ تفتیشی افسر پیش نہیں ہورہا، 10 بجے تفتیشی افسر کو بلایا گیا مگر وہ پھر بھی پیش نہیں ہوا۔عدالت کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ ساڑھے 10 بجے اس معاملے کو دیکھتے ہیں۔

بابر اعوان نے کہا کہ تفتیشی افسر عدالتی حکم کے باوجود پیش نہیں ہورہا، میں سینیئر سپریم کورٹ کا وکیل ہوں، صبح 8 بجے کا انتظار کر رہا ہوں، یہ تو بنانا رپبلک بن کررہ گیا ہے، پولیس کی اپیل پر ہمیں ابھی نوٹس نہیں ملا۔تفتیشی افسر کے آنے تک سماعت میں وقفہ کردیا گیا، دریں اثنا عدالت نے پولیس کی اپیل پر فواد چوہدری کو ساڑھے 12 بجے تک پیش کرنے کا حکم دے دیا۔عدالت کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ جسمانی ریمانڈ کی اپیل میں ملزم کی کمرہ عدالت میں موجودگی ضروری ہے۔سیشن کورٹ کی طرف سے سپریڈنٹ اڈیالہ جیل کو آگاہ کر دیا گیا، اس حوالے سے سیشن کورٹ سے اڈیالہ جیل فیکس کے ذریعے نوٹس فواد چوہدری کو بھیجوایا گیا۔وقفے کے بعد ساڑھے 12 بجے سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو سیشن جج طاہر محمودخان نے پراسیکوٹر کی عدم موجودگی پر انہیں طلب کرلیا۔بعدازاں پراسیکیوٹر عدالت میں پیش ہوئے اور ایف آئی کا متن پڑھ کر سنایا۔عدالت نے سرکاری وکیل کو اپیل کا متعلقہ حصہ پڑھنے کی ہدایت کی جس کے بعد سرکاری وکیل نے عدالت میں دلائل دینا شروع کردیے۔سرکاری وکیل نے کہا کہ فواد چوہدری کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ ملا تھا لیکن فوٹوگرامیڑک ٹیسٹ کرواناہے، پیمرا سے فوادچوہدری کی ویڈیو لی تاکہ فوٹوگرامیڑک ٹیسٹ کروایا جائے۔انہوں نے دلیل دی کہ فواد چوہدری کو فوٹوگرامیڑک ٹیسٹ کے لیے لاہور ساتھ لے کر جانا ضروری ہے، موبائل لیپ ٹاپ اور دیگر ڈیوائسز کے ذریعہ دیکھنا ہیکہ فواد چوہدری کے بیان کے پیچھے کون ہے۔

سرکاری وکیل نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ رات 12 بجے جسمانی ریمانڈ کا آرڈر دیاگیا، صرف ایک روز تفتیش کے لیے ملا، فواد چوہدری کی ایف آئی اے سے وائس میچ کروا لی گئی ہے، فوٹوگرامیڑک ٹیسٹ ابھی مکمل نہیں ہوا جسے مکمل کرنا ضروری ہے، فواد چوہدری سے الیکٹرک ڈیوائسز برآمد کرنی ہیں۔پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ موبائل، لیپ ٹاپ اور دیگر ڈیوائسز کے ذریعہ دیکھنا ہیکہ فواد چوہدری کے بیان کے پیچھے کون ہے، ٹیکنکلی طور پر ہمیں ایک دن کا جسمانی ریمانڈ ملا، ہم نے ٹائم ضائع نہیں کیا، ایک دن میں جو کام کر سکتے تھے کیا ہے۔پراسیکوٹر عدنان نے سیشن کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جسمانی ریمانڈ میں صرف وائس میچ کیاگیا، فوٹوگرامیڑک ٹیسٹ کے لیے لاہور جاناہے، تفتیشی افسر کے مطابق فوادچوہدری کا موبائل لیپ ٹاپ درکار ہیں، ہماری پیش رفت موجود ہے، ایسا نہیں ہے کہ پولیس نے ریمانڈ میں کچھ نہیں کیا، ہماری استدعا ہے کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کے فیصلے کو مسترد کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ تفتیشی افسر نے مزید 7 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی، جوڈیشل مجسٹریٹ کے فیصلے میں فوٹوگرامیڑک ٹیسٹ کا ذکر نہیں، تفتیشی افسر کو فواد چوہدری کا فوٹوگرامیڑک ٹیسٹ ہی درکار ہے، 25 جنوری کو فوادچودھری کو گرفتار کیا، جوڈیشل مجسٹریٹ وقاص احمدراجہ کا فیصلہ درست نہیں۔

سرکاری وکیل نے فوادچودھری کو کیس سے ڈسچارج کرنے کی استدعا کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ فوادچودھری کے خلاف کافی الیکٹرانک مواد موجود ہے، انہوں نے اپنے بیان کا اقرار کیا ہے۔دوران سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل کے روسٹرم پر آنے پر فواد چوہدری کے وکیل بابراعوان برہم ہوگئے، بابراعوان نے کہا کہ غیر ضروری طور پر سماعت کے دوران مداخلت نہ کریں، یہ الیکشن کمیشن نہیں، یہ عدالت ہے۔بابراعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فوادچوہدری اس وقت اڈیالہ جیل میں ہیں، 3 روز قبل فواد چوہدری سے ملاقات کی اجازت مانگی، ابھی تک اجازت نہیں ملی، پہلی بار دیکھا کہ ملزم کو کپڑا ڈال کر لائے اور اپنے وکلا سے اسے ملنے کی اجازت نہیں، فواد چوہدری کو جس طرح لے کر آئے یہ انسانی حقوق کی خلاف وزری ہے۔انہوں نے کہا کہ فوادچوہدری سے اپنی لیگل ٹیم کو بخشی خانے میں بھی نہیں ملنے دیا، کلبھوشن کی والدہ کو جو حق ملا وہ فواد چوہدری کے بچوں کو نہیں مل پایا، ان کو نوٹس ہی نہیں ملا، وہ عدالت میں موجود ہی نہیں، مجھے بتایاگیا کہ فواد چوہدری کو ساڑھے 12 بجے طلب کیاگیا، ایک بجنے والا ہے، فواد چوہدری کمرہ عدالت میں موجود نہیں ہیں، تفتیشی افسر کی جانب سے دائر کردہ اپیل کی درخواست پر مزید بات نہیں ہو سکتی۔اس دوران سرکاری وکیل کا لقمہ دینے پر وکیل بابراعوان نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ بس کردیں، حکومت آپ سے راضی ہے، آپ کو افسر بنا دیاجائیگا

انہوں نے کہا کہ یہ لوگ نہیں بتاتے کہ اعظم سواتی کو برہنہ کیوں کیاگیا، پروسیکیوٹر نے کہاکہ فواد چوہدری کی فوٹو کی تصدیق کروانے کے لیے لاہور لے کر جاناہے، فوادچوہدری کی وڈیو لیک تو نہیں ہوئی جس میں معلوم کروانا ہیکہ ٹانگ مرد کی ہے یا عورت کی۔دریں اثنا بابراعوان کی جانب سے بیان سے متعلقہ یو ایس بی عدالت کو فراہم کی گئی۔بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ فوادچوہدری کیخلاف مقدمہ آن لائن درج کیا گیا ہے، صوبہ پنجاب کے چیف سیکرٹری داخلہ کو معلوم تھاکہ وہ فراڈ کررہیہیں، عوام کو بے وقوف سمجھ رہے ہیں، ٹوٹل فراڈ ہے، آئی جی پنجاب کیا ماما ہے پوری قوم کا؟ انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے پی ڈی ایم کا پاکستان سے تعلق نہیں، پی ڈی ایم عمران خان کو ہٹانے کا کھل کر کہہ رہی ہے، شرم اتی ہے جس طرح پی ڈی ایم ملک پر حکومت کر رہی ہے، تحریک انصاف کے استعفی منظور نہیں ہو رہے، الیکشن کمیشن حکومت کی منشی بن چکی ہے، مجھے اپنے منشی پر فخر ہے، اسے سپریم کورٹ جانے سے بھی نہیں روکا جاتا۔دریں اثنا سخت سیکورٹی حصار میں فواد چوہدری کو سیشن جج طاہر محمود کی عدالت میں پیش کر دیا گیا۔

اس موقع پر ایف ایٹ کچہری میں اسلام آباد پولیس کے ساتھ ایف سی کے جوان بھی تعینات کیے گئے، کارکنان کی آمد کا سلسلہ جاری رہا اور حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کی گئی۔امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے پولیس ہائی الرٹ رکھی گئی اور ایف ایٹ کچہری کے داخلی دروازے پر کارکنان اور عام شہریوں جامع تلاشی کی گئی۔دوران سماعت عدالت نے فواد چوہدری کی ہتھکڑیاں کھولنے کا حکم دے دیا۔بابر اعوان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوشن نے فواد چوہدری کو گھر سے اٹھایا، ان کا موبائل پولیس کے پاس ہے، پولیس والے تو پہلے ہاتھ ڈالتے ہی جیب میں ہیں لیکن فوادچوہدری جیب میں بٹوا نہیں رکھتا،انہوں نے مزید کہا کہ میں نہیں کہوں گا کہ پنجاب واپس نہیں جاں گا، فواد پنجاب واپس جائے گا، فواد چوہدری نے صرف بیان دیا ہے، وہ کوئی دہشتگرد نہیں، وہ کون سا پلیٹلیٹس کا بہانا کرکے بھاگ گیا ہے؟دلائل مکمل کرنے کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل کی جانب سے جواب الجواب پر بابراعوان نے اعتراض اٹھا دیا۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ کیس کا ٹرائل ہوگا، بابر اعوان ٹرائل میں گواہ نہیں۔اس دوران الیکشن کمیشن کے وکیل اور بابراعوان کے درمیان شدید تلخ کلامی ہوئی۔

دریں اثنا الیکشن کمیشن کے وکیل نے فواد چوہدری کو کیس سے ڈسچارج کرنے کی استدعا پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری کو ڈسچارج کیسے کیا جاسکتا ہے؟ فواد نے اپنے بیان کا اقرار کیا ہے، فوٹوگرامیڑک ٹیسٹ کروانے کا مقصد ہی ویڈیو کو جانچنا ہے، فوادچوہدری کے کیس میں ابھی تفتیش اپنے ابتدائی عمل میں ہے۔دوران سماعت فواد چوہدری روسٹرم پر آگئے اور عدالت سے مخاطب ہوکر کہا کہ میں اپنے بیان سے انکار نہیں کر رہا، آزادی اظہارِ رائے پر انکار ہونا تو ملک میں جمہوریت کو ختم کرنے کے مترادف ہے، میں نیاپنا بیان مانا ہے، میرا یہ حق ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ آزادی اظہار رائے پر تالا لگانا پاکستان کو برما بنا دینے کے مترادف ہے، اگر عوام طاقتور لوگوں کو تنقید کرنے سے پیچھے ہٹ جائیں تو یہ جمہوریت نہیں رہتی۔فواد چوہدری نے کہا کہ میں اپنے بیان پر قائم ہوں، بیان سے پیچھے نہیں ہٹ رہا، میں کیسے الیکشن کمیشن کو منشی کہنے سے پیچھے ہٹوں؟ عزت اپنے عمل سے پیدا کی جاتی ہے، زبردستی عزت نہیں کروائی جاتی، مجھ پر بغاوت کا مقدمہ بھی دائر کر رہے ہیں، اگر تنقید نہیں لے سکتے تو ایسے عہدے قبول نہیں کریں۔

عدالت نے فواد چوہدری کے وکلا اور پراسیکیوشن کے دلائل سننے کے بعد مزید جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔بعدازاں عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے پولیس کی جانب سے فواد چوہدری کے مزید جسمانی ریمانڈ سے متعلق درخواست منظور کرلی۔عدالت نے جوڈیشل مجسٹریٹ کا گزشتہ روز کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے فواد چوہدری کو جسمانی ریمانڈ کے لیے دوبارہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے کا حکم دے دیا۔واضح رہے کہ گزشتہ روز عدالت نے فواد چوہدری کا مزید جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا تھا۔فواد چوہدری کی اہلیہ حبا فواد نیعدالت کے احاطے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج فواد چوہدری کو سیشن کورٹ بلایا گیا تھا، ان کے لیے پہلے بکتر بند گاڑی بھیجی گئی اور انہیں یہاں اسے لایا گیا ہے جیسے دہشتگرد کو لایا گیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ فواد چوہدری کو فیملی سے نہیں ملوایا گیا، ان کی 2 بچیاں باپ سے کئی روز سے نہیں ملیں، عدالت نے کہا کہ بخشی خانے میں فیملی اور بچیوں کو ملوایا جائے لیکن ہمیں نہیں پتہ کہ وہ کہاں لے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے اور بچیوں کو فواد چوہدری سے نہیں ملوایا جا رہا، آج فواد چوہدری بھی عدالت میں رو پڑے، میری چیف جسٹس اور وزیر اعلی پنجاب سے درخواست ہے کہ ہمیں ملوایا جائے۔دریں اثنا فواد چوہدری کی درخواست ضمانت پر اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں سماعت ہوئی۔سماعت کے لیے فوادچوہدری کے وکلا بابراعوان اور علی بخاری ایڈیشنل سیشن جج فیضان حیدر گیلانی کی عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کا آغاز ہوا تو ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ ہم دلائل دینے کے لیے تیار ہیں، اس پر ایڈیشنل سیشن جج فیضان حیدر گیلانی نے کہا کہ جب میرے سامنے فائل اور ریکارڈ ہی نہیں تو سماعت کیا کروں؟ سماعت 10 بجے تک ملتوی کیے جانے کے بعد دوبارہ آغاز ہوا تو عدالت نے ریمارکس دیے کہ فیصلہ کے خلاف درخواست دائر کی گئی ہے، تفتیشی افسر نے بتایا ہے۔بابر اعوان نے کہا کہ تفتیشی افسر کو یہاں آکر بتانا چاہیے تھا، ہمیں کوئی نوٹس نہیں ملا۔عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ عدالت کے ذریعے آپ کو پتا چل گیا ہے، آپ چلیں جائیں۔بابر اعوان نے کہا کہ ہمیں کوئی نوٹس نہیں ملا، چلیں پھر انتظار کر لیتے ہیں۔بعدازاں پولیس کے ریکارڈ آنے تک سماعت میں وقفہ کر دیا گیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں فواد چوہدری کے بھائی اور وکیل فیصل چوہدری نے فواد چوہدری کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست دائر کی تھی۔دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ فواد چوہدری پر جھوٹے الزامات لگائے گئے، مقدمے میں انہیں غلط نامزد کیا گیا، مدعی صرف انہیں ہراساں اور بلیک میل کرنا چاہتا ہے۔درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ فواد چوہدری کی ضمانت منظور کی جائے، عدالت نے درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ہفتہ تک ملتوی کر دی تھی۔دریں اثنا فواد چوہدری نے بھی جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے جسمانی ریمانڈ مسترد ہونے کا فیصلہ چیلنج کردیا ہے۔فواد چوہدری نے کیس سے ڈسچارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجنا نہیں بلکہ ڈسچارج کرنا بنتا تھا۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جج طاہر محمود خان نے فواد چوہدری کا مزید دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں پولیس کے حوالے کردیا۔الیکشن کمیشن کو دھمکیاں دینے کے کیس میں جوڈیشل مجسٹریٹ وقاض احمد راجہ نے شام 6 بجے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے فواد چوہدری کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا اور پولیس کو حکم دیا کہ وہ پیر کو فواد چوہدری کو دوبارہ عدالت میں پیش کریں۔25 جنوری کو فواد چوہدری کو اسلام آباد پولیس نے لاہور سے گرفتار کیا تھا،