فواد چوہدری کی گرفتاری کے خلاف دائر درخواست خارج

لاہور(صباح نیوز)لاہور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کی بازیابی کے حوالے سے تحریک انصاف کی جانب سے دائر درخواست خارج کردی گئی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے فواد چوہدری کی گرفتاری کے خلاف دائر درخواست خارج کرتے ہوئے کہا کہ انہیں گرفتار کیا گیا اور ریمانڈ کے لیے لاہور کی متعلقہ عدالت میں پیش کیا گیا۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے درخواست گزار سے کہا کہ اگر آپ مقدمے کا اخراج چاہتے ہیں تو اسلام آباد ہائی کورٹ فورم ہے، اگر یہ مقدمہ پنجاب میں ہوتا تو ہم دیکھ سکتے تھے کہ یہ مقدمہ درج بھی ہو سکتا تھا یا نہیں۔فواد چوہدری کے وکیل نے کہا کہ گرفتاری غیر قانونی ہے لہذا عدالت اس گرفتاری کو کالعدم قرار دے، جس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ میرے سامنے آپ کا یہ کیس نہیں ہے۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ میں شام سات، آٹھ بجے تک تو عدالت میں بیٹھ سکتا ہوں لیکن لائن کراس نہیں کر سکتا۔

لاہور ہائی کورٹ نے فواد چوہدری کی بازیابی سے متعلق درخواست خارج کر دی۔ اس سے قبل 4 مرتبہ سماعت میں وقفے آیا تاہم جب ابتدائی طور پر سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا تھا کہ فواد چوہدری کدھر ہیں؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ فواد چوہدری پنجاب پولیس کی تحویل میں نہیں ہیں، فواد چوہدری اسلام آباد پولیس کی تحویل میں ہیں جس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی پنجاب اور آئی جی اسلام آباد  شام 6 بجے اس عدالت میں پیش ہوں۔ شام چھ بجے سماعت شروع ہوئی تو آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان نے بھی تصدیق کی کہ فواد چوہدری پنجاب پولیس کے بجائے اسلام آباد پولیس کی تحویل میں ہیں۔

فواد چوہدری کو  صبح لاہور سے گرفتار کیے جانے کے بعد راہداری ریمانڈ کے لیے لاہور کی کینٹ کچہری میں پیش کیا گیا تھا جہاں پی ٹی آئی رہنما کا راہداری ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں  اسلام آباد کی متعلقہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ ان کے خلاف الیکشن کمیشن کے اراکین کو دھمکی دینے پر اسلام آباد کے کوہسار تھانے میں عہدیدار الیکشن کمیشن کی جانب سے ایف آئی آر درج کروائی گئی تھی۔ فواد چوہدری کو محکمہ انسداد دہشت گردی اور پولیس کے اہلکار لاہور کی کینٹ کچہری میں لائے جہاں انہیں اسلام آباد منتقل کرنے کے لیے راہداری ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔

فواد چوہدری کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیے جانے پر پی ٹی آئی کے حامی وکلا نے ان پر گل پاشی کی۔ اس موقع پر فواد چوہدری نے کہا کہ اتنی پولیس لگا دی ہے کہ شاید جیمز بونڈ کو پیش کرنا ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے دہشت گرد کی کیٹیگری میں رکھا گیا۔ دریں اثنا فواد چوہدری کی بازیابی کی درخواست پر سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ نے فواد چوہدری کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

لاہور ہائی کورٹ میں احمد پنسوٹا ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ فواد چوہدری کی گرفتاری غیر قانونی ہے، ان کو ایف آئی آر تک نہیں دکھائی گئی۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ پولیس نے گرفتاری کی وجوہات نہیں بتائیں، فواد چوہدری سپریم کورٹ کے وکیل اور سابق وفاقی وزیر ہیں۔ درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ فواد چوہدری کی گرفتاری کو غیر قانونی اور کالعدم قرار دیا جائے۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے مذکورہ درخواست سماعت کے لیے جسٹس طارق سلیم شیخ کو بھجوا دی تھی۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے درخواست پر سماعت کے بعد دوپہر ڈیڑھ بجے تک فواد چوہدری کو لاہور ہائی کورٹ میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

دوپہر 2 بجے سماعت کا آغاز ہوا تو فواد چوہدری کے وکیل اظہر صدیق نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل جواد یعقوب کے مطابق فواد چوہدری کو اسلام آباد لے جایا جا رہا ہے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ میں ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ بتا سکوں کہ فواد چوہدری کہاں ہیں۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ میں جو حکم دیتا ہوں اس پر عمل درآمد کرواتا ہوں، اگر فواد چوہدری اسلام آباد پہنچ بھی گئے ہیں تو انہیں واپس لائیں اور اس عدالت میں پیش کریں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالتی حکم پر من و عن عملدرآمد ہو گا، مجھے تھوڑا وقت دے دیں۔

بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت 30 منٹ کے لیے ملتوی کر دی تھی۔تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کی بازیابی کی درخواست پر سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا کہ فواد چوہدری کدھر ہیں؟ جس پر ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ فواد چوہدری پنجاب پولیس کی تحویل میں نہیں ہیں۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے ہدایت دی کہ آئی جی پنجاب کو فوری بلائیں، اس پر ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ آئی جی پنجاب رحیم یار خان سے لاہور آ رہے ہیں، وہ را ستے میں ہیں۔ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ فواد چوہدری اسلام آباد پولیس کی تحویل میں ہیں، جس پر لاہور ہائی کورٹ نے آئی جی پنجاب اور آئی جی اسلام آباد کو طلب کر لیا۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی پنجاب اور آئی جی اسلام آباد آج شام 6 بجے اس عدالت میں پیش ہوں۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے رجسٹرار کو کہا کہ عدالتی حکم سے آئی جیز کو آگاہ کریں۔جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے سماعت شام 6 بجے تک ملتوی کر دی تھی اور بعد ازاں سماعت کرتے ہوئے درخواست خارج کردی۔مقدمے کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہو گئے۔ فواد چوہدری کے وکیل نے نشاندہی کی کہ ان کے موکل کو پھر عدالت میں پیش نہیں کیا گیا، یہ بڑی الارمنگ بات ہے کہ عدالت نے حکم کیا لیکن پھر بھی انہیں پیش نہیں کیا گیا، معزز عدالت کے حکم پر عمل درآمد نہ کرنا افسوسناک ہے۔

آئی جی پنجاب نے کہا کہ میں رحیم یار خان میں تھا جہاں سگنلز کا بہت ایشو تھا، جب موبائل سگنل آئے تو فواد چوہدری کو پیش کرنے سے متعلق عدالتی حکم ملا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت میرا ٹریک ریکارڈ چیک کراسکتی ہے، میری کوشش تھی کہ اسلام آباد پولیس سے رابطہ کر سکوں لیکن میرا ان سے رابطہ نہیں ہو سکا، میرا آپریٹر آئی جی اسلام آباد اور ڈی آئی جی اسلام سے ابھی بھی رابطہ کر رہا ہے۔ عدالت میں اپنے بیان میں آئی جی پنجاب نے کہا کہ میں کسی عدالت کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتا،

فواد چوہدری پنجاب پولیس کی تحویل میں نہیں بلکہ اسلام آباد پولیس کی تحویل میں ہیں۔ اس موقع پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل جواد یعقوب نے فواد چوہدری کے خلاف درج مقدمے کی کاپی عدالت میں پیش کر دی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ اس ایف آئی آر کی بنیاد پر اسلام آباد پولیس نے لاہور کے متعلقہ پولیس اسٹیشن سے رابطہ کر کے گرفتاری کی، لاہور کی مقامی عدالت نے راہداری ریمانڈ پر فیصلہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری مغوی نہیں بلکہ ان کے وکلا نے ریمانڈ میں پیش ہو کر بحث کی ہے۔

فواد چوہدری کے وکیل نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ مغوی فواد چوہدری کو عدالت پیش کیا جائے، میں نے آج تک نہیں دیکھا کہ عدالت چار بار بلائے اور کسی کو پیش نہ کیا جائے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ اس سارے عمل میں پولیس کی بدنیتی شامل ہے، کوئی تو وجہ ہے فواد چوہدری کو اس عدالت پیش نہیں کیا جا رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری نے جو تقریر  شام پانچ بجے کی، میڈیا سے بات کرنے پر رات 10 بجے فواد چوہدری کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا،

اس مقدمے کی تفتیش کب ہوئی پولیس کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ پی ٹی آئی رہنما کے وکیل نے کہا کہ فواد چوہدری کے خلاف بغاوت کا مقدمہ سیاسی نوعیت کا ہے، پولیس رات کو آئی، انہین کوئی دہشت گرد تو نہیں پکڑنا تھا۔ جسٹس طارق سلیم نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ اس عدالت سے کیا چاہتے ہیں، آپ کی استدعا کیا ہے۔ وکیل نے جواب دیا کہ ہم چاہتے ہیں عدالتی حکم پر عملدرآمد ہو اور فواد چوہدری کو اس عدالت میں پیش کیا جائے، ہم چاہتے ہیں فواد چوہدری کی گرفتاری غیر قانونی قرار دی جائے۔

عدالت نے وکیل سے استفسار کیا کہ فواد چوہدری کی گرفتاری میں غیر قانونی کیا ہے، انہیں گرفتار کیا گیا اور ریمانڈ کے لیے لاہور کی متعلقہ عدالت میں پیش کیا گیا۔ جسٹس طارق سلیم نے کہا کہ اگر آپ مقدمے کا اخراج چاہتے ہیں تو اسلام آباد ہائی کورٹ فورم ہے، اگر یہ کیس پنجاب میں ہوتا توہم دیکھ سکتے تھے کہ یہ مقدمہ درج بھی ہو سکتا تھا یا نہیں۔ فواد چوہدری کے وکیل نے کہا کہ گرفتاری غیر قانونی ہے لہذا عدالت اس گرفتاری کو کالعدم قرار دے۔ جسٹس طارق سلیم نے کہا کہ میرے سامنے آپ کا یہ کیس نہیں ہے، میں شام سات آٹھ بجے تک تو عدالت میں بیٹھ سکتا ہوں لیکن لائن کراس نہیں کر سکتا۔ لاہور ہائی کورٹ نے سماعت کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے فواد چوہدری کی بازیابی سے متعلق درخواست خارج کر دی۔