اسرائیل غزہ کے مریضوں کو موت کی سزا دے رہا ہے، انسانی حقوق گروپ


مقبوضہ بیت المقدس (صباح نیوز) مقبوضہ فلسطین میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم “بی تسلیم” نے “اسرائیل”کی نافذ کردہ پالیسی کے نتیجے میں محصور غزہ کی پٹی میں صحت کے نظام کی تباہی سے خبردار کیا ہے۔

تنظیم نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ اقدامات محصور فلسطینیوں کی ضروریات کو پورا کرنے میں رکاوٹ بن رہے ہیں اور غزہ کے باشندوں کو مقبوضہ بیت المقدس اور مغربی کنارے کے اسپتالوں میں علاج کروانے سے روکنے جیسے سنگین نتائج کا باعث ہیں۔

انسانی حقوق گروپ نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل نے اپنی پالیسیوں کے ذریعے ایک ایسی صورت حال پیدا کی ہے جس کی وجہ سے غزہ کی پٹی میں صحت کے نظام کے لیے اپنے کام کو انجام دینا مشکل ہو گیا ہے اور بہت سے ایسے مریض ہیں جن کا علاج صرف غزہ سے باہر ہی دستیاب ہے۔ مگر اسرائیلی ریاست کی طرف سے عاید کردہ پابندیوں کی وجہ سے وہ سفر نہیں کرسکتے۔

تنظیم نے مزید کہا کہ قابض حکام علاج کے حصول کے لیے ان کے باہر نکلنے کی سہولت فراہم کرنے کے بجائے جو کہ صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر دستیاب ہے، مختلف من مانی ہدایات، شرائط اورپیچیدہ طریقہ کار کے ذریعے ان کے باہر نکلنے میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں، جس سے وہ موت تک بیماری میں مبتلا رہتے ہیں۔

انسانی حقوق گروپ نے وضاحت کی کہ غزہ کی پٹی کے مریض جن کو علاج کی ضرورت ہے وہ مغربی کنارے، بیت المقدس، اسرائیل یا دیگر ممالک کے اسپتالوں تک رسائی کے لیے اجازت نامے کے لیے درخواستیں جمع کرانے پر مجبور ہیں۔بیان میں کہا گیا ہے ہر سال ہزاروں مریض ایسی درخواستیں جمع کرواتے ہیں لیکن درخواستوں کی منظوری کا تناسب بہت کم ہے۔ زیادہ تر مریضوں میں کینسر کے امراض کا شکار لوگ ہوتے ہیں۔

اس نے زور دے کر کہا کہ اسرائیل غزہ کے مریضوں کی درخواستوں کو منظور کرنے میں جلدی نہیں کرتا اور اسرائیلی فوجی حکومت کے دعوے کے مطابق “ہنگامی نوعیت کے” علاج کے علاوہ اجازت نامے کے اجرا کو قبول نہیں کرتا۔وہ مریض جو اسرائیل کے انتہائی سخت شرائط پورا کرتے ہیں انہیں من مانی طور پر علاج کے دوران بھی مشکلات سے گذرنا پڑتا ہے۔

سال 2021کے ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ کی پٹی کے 15,466 مریضوں نے بیرون ملک علاج کے لیے درخواستیں جمع کروائیں۔ ان میں سے نصف سے زیادہ درخواستیں (8,661 یا 56فی صد)بیت المقدس کے اسپتالوں میں علاج کے لیے تھیں اور 30 فی صد درخواستیں (4,639) مغربی کنارے کے دوسرے ہسپتالوں میں علاج کے لیے تھیں۔ ان میں سے صرف 14 فی صد (2,165  درخواستیں) 1948 میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے لیے تھیں۔

بی تسلیم نے کہا ہے کہ زیادہ تر معاملات میں، درخواست دہندگان کو ان کی علاج سے ملاقات سے ایک دن قبل ایک فون پیغام کے ذریعے جواب موصول ہوتا ہے جس میں انہیں بتایا جاتا ہے کہ آیا قابض حکام نے ان کی درخواست کو منظور یا مسترد کر دیا ہے یا یہ کہ “ابھی بھی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔ سال 2021 کے دوران جمع کرائی گئی درخواستوں میں سے 37 فیصد قابض حکام نے درخواست دہندگان کو مطلع کیا کہ وہ مسترد کر دیے گئے ہیں یا وہ “تحقیقات کے تحت” ہیں یا درخواست دہندگان کو کوئی جواب نہیں ملا، 38 فیصد درخواستیں کم سن مریضوں کی ہیں جن کی تعداد 4,145بنتی ہے۔ 60سال سے زیادہ عمر کے مریضوں کی 24 فی صد درخواستیں 2,906 مسترد کر دی گئیں یا درخواست دہندگان کو کوئی جواب نہیں ملا۔