ہماری زبان اور دور جدید۔۔۔افشین شہریار، صدر تحریک نفاذ اردو پاکستان

دنیا کی تیز رفتاری اور موجودہ تیز رفتار تبدیلی کوٸی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
لوگوں کے ذہن میں یہ بات ہے کہ یہ ساٸنس و ٹیکنالوجی کا دور ہے اور اس کی زبان انگریزی ہے اور یقیناً ایسا ہی ہے کیونکہ اپنی زبان کو ساٸنس اور ٹیکنالوجی کی زبان بنوانا حکومتوں کی ذمہ داری ہے یہ معاملات قیادت کے کرنے کے ہوتے ہیں۔

اب ہمارے سامنے جب اردو آتی ہے تو وہ شعر وادب اور مذہبی ورثے کی زبان نظر آتی ہے۔ایک عام گھرانے کے ماں باپ کو لگتا ہے کہ شعر و ادب تو سب کے پڑھنے کا نہیں تو اگر اسے چھوڑ بھی دیا جاٸے تو کوٸی بات نہیں اسی لیٸے اس طرف توجہ اس وقت تک رہتی ہے جب تک اسے پڑھنا لازمی ہوتا ہے۔
دوسری طرف مذہب کے معاملات کو وہ اتنا ہی جانتے ہیں جیسے روزانہ نماز پڑھنا اور سال ایک مہینے کے روزے رکھنا اور دو عیدیں منانا اور عیدیں منانے کے لیٸے قرض تک لیتے ہیں اب اس سے آگے ان کی نظر نہیں نہ ہی ہمارا میڈیا اس پر کام کرتا ہے بلکہ وہ تو شور مچا مچا کر کسی نہ کسی بے کار معاملے کی طرف الجھاٸے رکھتا ہے۔

اب دنیاوی معاملات کو دیکھیں تو انگریزی اپنی طرف کھینچتی ہے کہ ساٸنس اور ٹیکنالوجی لازم ہے ۔
اس سب کے نتیجے میں نوجوان نسل اپنی شناخت اور مذہبی روایات سے ہی ہاتھ دھو بیٹھی ہے کیونکہ اس پر کام ہی نہیں کیا گیا۔

قیادت کی نااہلی یا مجرمانہ غفلت ہمیں اس بےہنگم نتیجے کی طرف لے آٸی ہے جس میں آگے کنواں پیچھے کھاٸی ہے۔
تہذیب و ثقافت کا حال ناقابل بیان ہے۔ایسے میں عوامی شعور بیدار کرنا اور والدین کو حقاٸق سمجھانا جان جوکھوں کا کام ہے لیکن جو کچھ اردو کے نفاذ کے لیٸے کام کیا جا رہا ہے اور جس طرح اراکین کی تعداد بڑھ رہی ہے اس سے امید ہے کہ تبدیل بھی ہو گا۔