بھارتی حکومت نے یاسین ملک کو عدالت میں پیشی کا عدالت حکم مسترد کر دیا

جموں: بھارتی حکومت نے نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین یاسین ملک کو عدالت میں پیشی کا  عدالت حکم مسترد کر دیا ہے ۔

جموں میں انسداد دہشت گردی کی بھارتی عدالت نے جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین یاسین ملک کو22 دسمبر کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا تاہم جمعرات کو سماعت کے موقع پر یاسین ملک کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا ۔ پراسیکیوٹر مونیکا کوہلی نے عدالت کو بتایا ہے کہ بھارتی حکومت نے یاسین ملک کو دہلی سے باہر لے جانے پر پابندی لگا رکھی  ہے  ۔

عدالت نے  یاسین ملک کے خلاف 30 سال قبل بھارتی فضائیہ کے 4  اہلکاروں کے قتل کے مقدمے کی سماعت23 جنوری 2023 تک ملتوی کردی ہے ۔ گزشتہ ماہ عدالت نے   یاسین ملک کے پروڈکشن آرڈر جاری  کیے تھے ۔کے پی آئی کے مطابق اس وقت  عدالت میں محمد یاسین ملک کو نئی دہلی کی تہاڑ جیل سے ویڈیو لنک کے زریعے پیش کیا گیا تھا، 2020  میںعدالت میں یاسین ملک اور دیگر چھ افراد کے خلاف 1990 میں بھارتی ائر فورس کے چار  اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ان کیسوں میں پولیس نے جن افراد کو ملزم ٹھہرایا ان میں یاسین ملک اور شوکت بخشی کے علاوہ، جاوید احمد میر، وجاہت بشیر قریشی، محمد سلیم ننھا جی، جاوید احمد زرگر، منظور احمد صوفی ، انجینرعلی محمد میر، محمد اقبال گندرو، محمد ضمان میر اور معراج احمد شیخ شامل ہیں۔جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے محبوس چیرمین محمد یاسین ملک ان دنوں نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں۔

یاسین ملک اور اور ان کے ساتھیوں پر الزام ہے کہ انہوں نے جنوری 1990 کو، سکواڈرن لیڈر روی کھنہ اور تین دیگر آئی اے ایف اہلکاروں کو مبینہ طور پر سری نگر کے راولپورہ میں قتل کر دیا تھا۔قابل ذکر ہے کہ یاسین ملک چار آئی اے ایف اہلکاروں کے قتل کے مرکزی ملزم  نامزد ہیں -مارچ 2019 میں بھارتی حکومت نے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ یاسین ملک کو اس سال  ایک جعلی مقدمے میں عمرقید کی سزا  دی تھی وہ تہاڑ جیل میں  قید  ہیں۔