اضطراب : تحریر حمیرا طارق


آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے مرکزی سنئیر نائب صدر سردار محمد الطاف حسین خان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ آزاد کشمیر کے حوالے سے بالعموم اور ضلع سدہنوتی کے حوالے سے بالخصوص جب بھی آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی تاریخ لکھی جائے گی تو سردار محمد الطاف حسین خان کا نام نمایاں طور پر لکھا جائے گا۔ آپ کو اپنے تعلیمی کیرئیر کے دوران ہی مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان جیسی شخصیت کی شفقت اور سیاسی تربیت میسرآ گئی۔ آپ نے ضلع سدہنوتی میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے لئے ایک ایسے دور میں اپنی خدمات کا آغاز کیا جب اس علاقے میں مسلم کانفرنس کا نام لینے کے لئے بھی بڑے حوصلے اور جذبہ جنون کی ضرورت ہوتی تھی۔ آپ نے آج تک اپنی شعوری زندگی کا تقریباً تمام دورانیہ مسلم کانفرنس کے ساتھ وابستگی اور خدمات کی انجام دہی میں گزارا۔ آپ ضلع کونسل پونچھ (موجودہ پونچھ ڈویژن) کے دو دفعہ چئیرمین رہے۔ آپ نے اس دوران تعمیر و ترقی کے حوالے سے بے مثال اور شاندار خدمات سر انجام دیں۔ ضلع سدہنوتی کے قیام نیز تحصیل تراڑکھل، منگ اور بلوچ کی تحصیلوں کے قیام کا تمام کریڈٹ سردار الطاف حسین خان کو جاتا ہے۔ آپ نے چیئرمین معائنہ و عمل درآمد کمیشن کی حیثیت سے بھی فرائض سر انجام دیے۔ آپ کی زوجہ محترمہ صابرہ الطاف بھی پانچ سال تک آزاد کشمیر اسمبلی کی ممبر رہیں۔
آزاد کشمیر میں حالیہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے سردار الطاف حسین خان کی پلندری کے گاؤں نمب گوراہ آمد ہوئی۔ اس موقع پر ان سے سیر حاصل گفتگو ہوئی اور ان سے کئی اہم امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ ہم نے پوچھا کہ آپ ماضی بعید میں بھی ہمارے علاقے میں بے شمار دفعہ تشریف لا چکے ہیں۔ اور آج کافی عرصے کے بعد ایک مرتبہ پھر یہاں تشریف لائے ہیں۔ ماضی بعید میں اور آج میں آپ کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے تو میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے اس خصوصی نشست کا اہتمام کیا۔ یہاں بہت عرصے تک نہ آ سکنے کی وجہ عرض کرتا چلوں کہ خرابی صحت کی وجہ سے یہاں آنے کا موقع نہیں مل سکا۔ اب اللہ تعالٰی کے فضل سے صحت پہلے سے کافی بہتر ہے تو آپ کے علاقے میں آنے اور اپنے لوگوں سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں کے لوگوں کی شفقت ، مہربانی اور ان کے پیار اور محبت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ بلکہ یہاں کے لوگ بالخصوص بزرگ پہلے سے زیادہ پیار اور محبت سے ملے ہیں اور اسی طرح عزت سے پیش آئے ہیں۔ البتہ میں یہاں کے نوجوانوں میں سیاسی تربیت کا فقدان دیکھ رہا ہوں۔ اس لئے میں محسوس کرتا ہوں کہ ان کی سیاسی تربیت بہت ضروری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ان کی سیاسی تربیت کی جائے تو ان کی صلاحیتوں میں نکھار آ سکتا ہے۔ تربیت کے حوالے سے ایک واقعہ شئیر کرنا چاہتا ہوں کہ سردار عبدالقیوم صاحب سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ سردار صاحب آپ کی طبعیت کا کیا حال ہے؟ وہ مسکرا کر کہنے لگے کہ “الطاف طبیعت تو میری بہت اچھی ہے البتہ صحت میری ٹھیک نہیں ہے”۔ اس دن مجھے صحت اور طبیعت کے فرق کا پتہ چلا۔ لیکن ان کا انداز ایسا مشفقانہ تھا کہ میری اصلاح بھی ہوگئی اور میری عزت نفس بھی مجروح نہیں ہوئی۔ لہذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ تربیت بے حد ضروری ہے۔
ہم نے ان سے پوچھا کہ ہمارے بہت سے ریاستی باشندوں نے غیر ریاستی ہواؤں کے اثر کو قبول کرتے ہوئے اپنے لیے نئے مساکن اور نئے آشیانے تعمیر کر لئے ہیں۔ وہ کون سے عوامل تھے جن کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ اور آپ جیسے چند دوسرے نظریاتی لوگوں نے “مسلم کانفرنس” سے وابستہ رہنے کو ہی ترجیح دی ؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ “مسلم کانفرنس” نے ہماری جو سیاسی اور اخلاقی تربیت کی ہے یہ اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ میرے ساتھ بہت سے نظریاتی لوگ آج تک اسی جماعت سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ ریاست کی اپنی جماعت ہے اور آزاد جموں و کشمیر کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ اپنی ریاست کے ساتھ بے لوث محبت کا نتیجہ ہے کہ کبھی کسی اور جماعت کی طرف جانے کا فیصلہ نہیں کیا۔ ہمارا یہی عزم ہے کہ جب تک پورا کشمیر آزاد ہو کر پاکستان کے ساتھ شامل نہیں ہو جاتا اس وقت تک ہم نے اپنی اس حیثیت کو برقرار رکھنا ہے۔
اس سوال پر کہ ماضی میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس اور پاکستان مسلم لیگ کا آپس میں بہت گہرا تعلق رہا ہے لیکن اب یہ تعلق ٹوٹ چکا ہے اس تعلق کے ٹوٹنے کی کیا وجہ ہے؟ سردار محمد الطاف حسین نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ ہمارا تعلق قائداعظم نے قائم کیا تھا۔ قائد اعظم نے کہا تھا کہ کوہالہ کے اس پار مسلم کانفرنس ہی مسلم لیگ ہے اور کوہالہ سے ادھر مسلم لیگ ہی مسلم کانفرنس ہے۔ ہمیں یہ سٹیٹس دینے والے لیڈر موجودہ لیڈروں سے بہت بڑے لیڈر تھے۔ مسلم لیگ کی موجودہ قیادت نے ہم سے یہ سٹیٹس چھیننے کی کوشش کی اور ہمیں مسلم کانفرنس کا نام ختم کر کے مسلم لیگ ن میں ضم ہونے کا کہا۔ ہم قائداعظم کی طرف سے دیے گئے اس سٹیٹس کو کیسے تبدیل کر لیتے۔ جبکہ ہم یہ جانتے تھے کہ یہ لوگ ہمیں اس جال میں پھنسا کر اپنے کچھ دیگر مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ برسوں پرانا یہ تعلق بالآخر ٹوٹ گیا۔
ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ مسلم لیگ سے یہ تعلق توڑ کر مسلم کانفرنس کو نقصان اٹھانا پڑا۔ کیونکہ آزاد کشمیر میں برسوں تک حکمران رہنے والی پارٹی مسلم کانفرنس آج اسمبلی میں صرف ایک سیٹ تک محدود رہ گئی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم جانتے تھے کہ ہمارے اس فیصلے کے بعد ہمیں اقتدار سے محروم ہونے کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ لیکن ہم مسلم کانفرنس کے تربیت یافتہ لوگ ایسے ہزاروں نقصانات تو اٹھا سکتے ہیں لیکن کشمیر کاز کو ذرہ برابر بھی نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ ہمیں مسلم لیگ ن میں ضم کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ہمیں اپنے تابع بنا کر یہ لوگ گلگت بلتتستان کو صوبہ بنانا چاہتے تھے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہمارا دو ٹوک موقف ہے کہ جب تک کشمیر مکمل طور پر آزاد نہیں ہو جاتا تب تک کسی صورت بھی نہ تو گلگت بلتتستان کو صوبہ بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی آزاد کشمیر کے سوشل سٹیٹس کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ شائد یہی وجہ تھی کہ اس بار الیکشن میں ہم صرف ایک ہی نشست جیت سکے۔ لیکن یہ نقصان ہمارے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ کیونکہ ہم نے چھوٹے نقصان کو قبول کر کے اپنی ریاست کو ایک بڑے نقصان سے بچا لیا ہے۔
آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے مستقبل کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس بدلے ہوئے حالات کے باوجود نہ صرف اپنے وجود کو برقرار رکھے گی بلکہ اپنی ماضی کی کارگزاری کو دوہرانے میں بھی کامیاب ہو جائے گی؟ جس پر سردار الطاف حسین خان کا کہنا تھا کہ ہم بھرپور جد و جہد کر رہے ہیں اور جد و جہد کا یہ سلسلہ یونہی جاری رکھیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم جلد پہلے سے زیادہ مستحکم ہو کر ابھریں گے۔ ہم عوام کو بھی قائل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں انشاءاللہ وہ وقت جلد آئے گا جب ہر کوئی اپنی ریاستی جماعت کے ساتھ ہی کھڑا ہو گا۔
ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ نے عملی زندگی کا سارا حصہ مسلم کانفرنس کے ایک انتہائی فعال اور محنتی کارکن کے طور پر گزارا۔ نئی جنریشن کے حوالے سے کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ خطہ سدہنوتی میں مسلم کانفرنس میں کوئی آپ جیسا جاندار کارکن موجود ہے؟
اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جو لوگ ہمارے ساتھ چل رہے ہیں یقیناً وہ اسی سوچ کو لے کر ہمارے ساتھ ہیں۔ انشاءاللہ آپ کو “مسلم کانفرنس” کا ہر کارکن ایسا ہی فعال اور جاندار کردار ادا کرتے ہوئے ملے گا۔
دوران گفتگو میں نے ان سے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میرے والد صاحب آپ کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے علاقے میں ایک کرکٹ ٹورنامنٹ کے فائنل میں آپ کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا۔ میچ کے دوران آپ نے نوجوان لڑکوں کو کھیلتے دیکھ کر نشاندہی کی کہ ان دونوں ٹیموں کے کھلاڑی تو اسی علاقے کے ہیں۔ مجھے تو کہا گیا تھا ٹورنامنٹ میں پوری تحصیل پلندری کی ٹیمیں شامل ہیں۔ جس پر آپ کو بتایا گیا کہ اس بار اسی علاقے نمب کی ہی دونوں ٹیمیں فائنل میں پہنچی ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا لوگوں کے ساتھ ایسا گہرا تعلق تھا کہ آپ دور دراز کے علاقوں کے بچوں کو بھی جانتے تھے لیکن موجودہ دور میں مسلم کانفرنس کی نئی قیادت کا عوام سے تعلق بہت کمزور ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہمارے علاقے سے آپ کا ڈسٹرکٹ کونسل کا الیکشن لڑنے والا جماعتی امیدوار یہاں موجود حاضرین میں سے چند آدمیوں کے نام بھی نہیں بتا سکتا۔ کیا اس طرح کے رویے سے مسلم کانفرنس کی ساکھ کو نقصان نہیں پہنچ رہا؟
جس پر سردار محمد الطاف حسین نے انتہائی خوبصورت جواب دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے عوام نے موقع دیا تو میں نے لوگوں کی خدمت کی اور لوگوں سے گہرا تعلق قائم کیا۔ ہمارے موجودہ امیدواروں کی تربیت بھی مسلم کانفرنس ہی کر رہی ہے۔ یہ ابھی تربیت کے ابتدائی مراحل میں ہیں۔ مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم پر ان کی تربیت ہو رہی ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ مستقبل میں مسلم کانفرنس کے یہ نئے قائدین بھی ہماری طرح عوام سے اپنا گہرا اور مثالی تعلق قائم کریں گے۔
دوران گفتگو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ہم نے ان سے پوچھا کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کشمیریوں میں یہ تشویش پائی جا رہی ہے کہ عمران خان دورہ امریکہ کے دوران کشمیر کے بارے میں خفیہ طور پر کوئی معاہدہ کر چکے ہیں۔ اس ضمن میں جے یو آئی ف کے مولانا فضل الرحمان، پاکستان مسلم لیگ “ن” کی نائب صدر مریم نواز ، ترجمان مسلم لیگ “ن” مریم اورنگزیب، سینیٹر مصدق ملک، پیپلز پارٹی کی شہلا رضا اور شیریں رحمان کے ساتھ ساتھ کئی دیگر سیاستدان بھی میڈیا میں واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ عمران خان نے پینٹاگون میں کشمیر کا سودا کر لیا ہے۔ کیا مسلم کانفرنس کے کارکنوں میں اس معاہدے کی کوئی بازگشت پائی جاتی ہے؟ اور اس حوالے سے مسلم کانفرنس کا جماعتی موقف کیا ہے ؟
جس پر ان کا کہنا تھا کہ میں کشمیر کے معاملے پر پاکستان کی لیڈر شپ کی سوچ کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کرتا۔ لیکن ایک بات ضرور کہوں گا کہ جب عمران خان اور مودی امریکہ کے دورے پر گئے تو مودی نے وہاں جا کر جلسہ کیا اور اس جلسے میں مسئلہ کشمیر کی بات کرتے رہے جبکہ عمران خان نے جلسہ کیا تو جلسے میں چور ڈاکو اور ڈیزل کے نعرے لگاتے رہے۔ وہاں چور ڈاکو اور ڈیزل کے نعرے لگانے کے بجائے مسئلہ کشمیر کو موثر انداز میں پیش کرنا چاہیے تھا۔ نہتے کشمیریوں پر بھارتی سیکورٹی فورسز کے مظالم کو دنیا کے سامنے لانا چاہیے تھا۔ تاہم مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مسلم کانفرنس کا واضح موقف ہے کہ جب تک کشمیر مکمل طور آزاد نہیں ہو جاتا تب تک کوئی کشمیر کے سوشل سٹیٹس سے نہیں چھیڑ سکتا اور نہ ہی گلگت بلتتستان کو صوبہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے ایک بات آپ سے شئیر کرتا چلوں کہ الیکشن سے قبل ہم کچھ دوست بیٹھے ہوئے تھے تو وہاں پہ صدر مسلم کانفرنس کی اخبار میں سٹیٹمنٹ دیکھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ گلگت بلتتستان کو صوبہ بنانے کے لئے ہماری لاشوں پر سے گزرنا پڑے گا۔ جس پر میں نے وہاں بیٹھے دوستوں سے کہا کہ یہ الیکشن تو ہم ہار گئے ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ آپ ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں کہ الیکشن ہم ہار گئے ہیں۔ جس پر میں نے کہا کہ جو لوگ گلگت کو صوبہ بنانا چاہتے ہیں وہ عتیق خان کی صلاحیتوں سے واقف ہیں اس لئے وہ ایسے شخص کو کسی صورت بھی اب اقتدار میں نہیں آنے دیں گے کیونکہ اگر ایسا شخص اقتدار میں آ گیا تو ان کے لئے اسے سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔
ہم نے ان سے سوال کیا کہ پچھتر سالوں سے ہمیں یہ کہہ کر بہلایا جاتا رہا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حل نکالیں گے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ مذاکرات سے مسئلہ کشمیر کا حل نکالا جا سکتا ہے؟
تو انہوں نے بہترین انداز میں اپنا جماعتی موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ مسلم کانفرنس کا جماعتی موقف یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل صرف مذاکرات کے ذریعے ہی نکالا جا سکتا ہے۔ لیکن مذاکرات سے مراد تقسیم کشمیر ہر گز نہیں ہے بلکہ مذاکرات کے ذریعے ایک دوسرے کو قائل کیا جائے کہ یو این او کی تسلیم شدہ قراردادوں کے مطابق متفقہ طور پر کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے۔ اور رائے شماری کے نتیجے میں جو فیصلہ آئے اسے قبول کیا جائے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری ہی اس مسئلے کا پر امن اور بہترین حل ہے اور ہندوستان کو مذاکرات اور رائے شماری کی طرف آنا ہی ہو گا۔ ہندوستان اب زیادہ دیر تک اس معاملے کو لٹکا نہیں سکے گا اور اب ہندوستان کے اندر سے ہی یہ آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں کہ اس مسئلے کا حل نکالا جائے۔
گفتگو سمیٹتے ہوئے ہم نے ان سے کہا کہ وہ کشمیریوں کے لئے کیا پیغام دینا چاہیں گے؟ تو انہوں نے تمام کشمیریوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تمام کشمیری یہ جان لیں کہ کل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس آپ کی اپنی ریاستی جماعت ہے۔ ہمارے ریاستی تشخص کو برقرار رکھنے کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم سب اپنی جماعت کے ساتھ کھڑے ہوں اور اس کا بھرپور ساتھ دیں۔
سنئیر نائب صدر مسلم کانفرنس سردار محمد الطاف حسین خان کے ساتھ ایک یادگار ملاقات اور سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ سردار محمد الطاف حسین خان اعلی پائے کے سیاستدان اور محب وطن سیاسی رہنما ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ان کا سایہ شفقت ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے اور ہم ان کے علم اور تجربات سے استفادہ حاصل کرتے رہیں ۔