زندگی سستی ہوتی جارہی ہے۔ مگر زندہ رہنا مہنگا ہورہا ہے۔سب سہولتیں، آسائشیں میسر ہیں۔ جو ریاست کو اپنے شہریوں کو عمرانی معاہدے کے تحت مفت فراہم کرنی چاہئیں۔ لیکن پورا ملک بازار بنا ہوا ہے۔ معمول کی سہولتیں بھی برائے فروخت ہیں۔ اکثریت کی اپنی آمدنی انتہائی ضروری اخراجات کے مقابلے میں بہت کم رہ گئی ہے جب کہ انتہائی بنیادی ضروریات بھی قیمتاً دستیاب ہیں۔کراچی سے لاہور،پھر لاہور سے کراچی۔ ایئر پورٹوں پر ایک ویرانی ہے۔ ناصر کاظمی یاد آتے ہیں۔
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
کراچی ایئرپورٹ پر صرف ایک کاؤنٹر کھلا ہے۔ جن بے شُمار کاؤنٹروں پر لکھا ہوا ہے’’ پی آئی اے کی تمام پروازیں۔‘‘ وہاں کوئی مسافر ہے نہ کوئی عملہ۔
اجڑے ہوئے بادہ کدے
ساقی کہیں ساغر کہیں
پارکنگز بہت بڑی کھلی بنوائی گئیں لیکن وہاں بھی ویرانی ہے۔ریاست چل رہی ہے۔ مگر وہ جذبہ وہ روح وہ ولولہ نہیں ہے۔ جو ایک ترقی پذیر پارلیمانی نظام والے ملک میں ہوتا ہے۔ حبیب جالب کہتے تھے۔
چپ ہیں سب زباں دراز
کسی انہونی، کسی معجزے کا انتظار ہے
لاہور، کراچی، فاصلے اتنے ہی ہیں۔ سفر میں وقت اتنا ہی لگ رہا ہے۔ مگر اصل مادر ایئرلائن میسر نہیں ہے۔ اسلئے دستیاب پرائیویٹ ایئر لائنوں کے کرائے ناقابل یقین حد تک بڑھ گئے ہیں۔ غمی خوشی والے جنہیں مجبوراً سفر کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ ہر قیمت پر سفر کرنے پر آمادہ ہیں۔ جہاز میں میرے ساتھ کی سیٹ پر نوجوان بتارہا ہے کہ اسے 75 ہزار روپے میں یکطرفہ ٹکٹ خریدنا پڑا ہے۔ اس لیے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ زندہ رہنا مہنگا ہورہا ہے۔ ایک مقبول قلمکار ناول نگار کہہ رہے ہیں کہ میں پہلے اعلیٰ متوسط طبقے میں اپنے آپ کو شُمار کرتا تھا۔ اب پیٹرول کی قیمت نے مجھے مڈل کلاس میں پہنچادیا ہے۔ اگر حالات ایسے ہی رہے تو میں یقیناً لوئر مڈل کلاس میں داخل ہو جاؤں گا۔موسم کی خبر دینے والے جس طرح درجۂ حرارت بتاتے ہیں۔ اس طرح اگر روزانہ یہ اشاریہ بھی جاری ہو کہ آج مہنگائی کی وجہ سے مزید کتنے ہم وطن غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں، کتنے مڈل کلاس سے لوئر مڈل کلاس میں۔ سب سے اعلیٰ طبقہ اور غربت کی لکیر سے نیچے والے لوگ وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔ ملک میں اعلیٰ ترین طبقوں سے تعلق رکھے والوں کے پاس تو اتنا سرمایہ اور اتنے اثاثے ہیں کہ اپنے ہی ملک میں پیدا ہونے والا ’گونگلو‘ (شلجم) اگر ایک ہزار روپے کلو بھی ہوگیا۔ تو وہ کچھ نہیں بولیں گے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ بولنا ان کا ہی سنا جاتا ہے اکثریت کا بولنا تو صدابہ صحرا ہی ثابت ہوتا ہے۔ اچھا تو نہیں لگتا لیکن محاورہ یہی ذہن میں آرہا ہے۔ بھینس کے آگے بین بجانا۔ بے شک کروڑوں بین بجارہے ہیں۔ بھینس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ البتہ دیواروں کے کان بہت صاف ہوگئے ہیں۔ وہ بہت کچھ سن رہی ہیں۔ وہ بھی جو نہیں بولا جارہا ۔عمرانی معاہدہ ریاست اور اعلیٰ طبقے کے گھرانوں تک محدود رہ گیا ہے۔ ان کی ضروریات کا خیال رکھا جارہا ہے۔ اسلئے ریاست کو پروا نہیں ہے کہ سونا اگلنے والی زمینوں میں سبزیوں گندم کپاس کی جگہ فلک بوس عمارتیں اُگ رہی ہیں۔ انہیں فکر ہے تو یہ کہ اتنا اناج ضرورلگایا جائے جو اشرافیہ کی ضرورت ہے کیونکہ وہ ہر قیمت پر اپنی خوراک خریدنے کی سکت رکھتے ہیں۔ محکمہ زراعت کو یہ فکر نہیں ہے کہ فی ایکڑ پیداوار کم ہورہی ہے۔ بعض زمینیں جان بوجھ کر بانجھ رکھی جارہی ہیں ۔بانجھ ذہنوں کو بانجھ زمینیں ہی بھلی لگتی ہیں۔میں تو اپنا درد قلم برداشتہ بکھیر رہا ہوں۔ اعداد و شُمار کے جھنجھٹ میں نہیں پڑ رہا ہوں۔ بازاروں میں گاہکوں کے چہروں پر عجب اداسی دیکھتا ہوں۔ محفلوں میں وہ سب الفاظ سننے میں آتے ہیں۔ جو قنوطیت کے اظہار کیلئے لغت میں موجود ہیں۔ اپنے اپنے انداز سے درد مند ہم وطن اپنے دکھ کو بیان کررہے ہیں۔ کچھ تجاویز بھی اگل رہے ہیں۔ لیکن وہ سب گنبد کی صدائیں بن رہی ہیں۔’’ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہو ویسی سنو‘‘۔
کون سنتا ہے فغان درویش
اور پھر وہ بھی زبان درویش
درویشوں نے خلوت اختیار کرلی ہے۔ کچھ اینکر پرسنوں کی صورت جلوہ گر ہیں۔ وہ چند کلیوں پر قناعت کررہے ہیں۔ گلشن میں دستیاب علاج تنگیٔ داماں کی طرف نہیں دیکھتے۔ غیب سے انہیں جو کہا جاتا ہے اس کو برحق سمجھتے ہیں اور سننے والوں تک وہی پہنچاتے ہیں۔نیشنل پلاننگ کمیشن،منقار زیرِ پر ہے۔ وہ واہگہ سے گوادر تک کی اشیائے ضروریہ کی قلت کم کرنے کیلئے کیا سوچ رہا ہے۔ یہ ہم بے خبروں کو معلوم نہیں ۔قیادت کی دعویداراور برسوں سے حکمرانی کے مزے لینے والی، مملکت کے رموز و اسرار سے آشنا قومی سیاسی جماعتیں ان کی مجالس عاملہ، ان کے پلاننگ پالیسی سیل بھی کسی لکھی لکھائی دستاویز کے انتظار میں ہیں۔ انہیں اپنے کارکنوں کے ذریعے یقیناً ’مرگ انبوہ‘ کا واٹس ایپ ملتا ہوگا۔ مگر وہ کوئی پالیسی بیان جاری نہیں کرتے کہ کہیں شاہوں کی طبع نازک پر گراں نہ گزرے۔یہ صورت حال خبردار کررہی ہے کہ ہماری آئندہ نسلوں کو شاید اس سے بھی زیادہ بے یقینی،بے چینی اور بے قراری کا سامنا کرنا پڑے۔ ان میں ہماری اولادیں، ہمارے اپنے بیٹے بیٹیاں،پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں شامل ہونگے۔ انکی زبوں حالی کی فکر ہی کرلیں۔کیا تحقیقی ادارے، نام نہاد تھنک ٹینک، معیشت، زراعت، تعلیم، آئی ٹی کے ماہرین اپنی اعلیٰ سوچ ، حکیموں کے نسخوں کی طرح اپنے پاس ہی مقید رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ ملکی مفاد میں اکٹھے کیوں نہیں بیٹھنا چاہتے۔ اور آئندہ دس پندرہ برس کے خدشات خطرات اور امکانات پر مبنی رپورٹیں کیوں نہیں تیار کرتے۔ لوگوں میں یہ احساس زیاں ہے۔ وہ کسی لائحہ عمل کے انتظار میں ہیں۔
پہلے ہمارا ذمہ دار میڈیا یہ مقابلہ کرتا تھا کہ وہ بہتر محفوظ اور مستقبل کیلئے اپنے ہم عصر سے زیادہ آگاہی کیسے دے سکتا ہے۔ ملک بھر کے ماہرین سے سیمیناروں میں روڈ میپ سنے جاتے تھے۔ اب صرف ایک ایک گھنٹے کے ٹاک شوز ہوتے ہیں جن میں زیادہ اینکرپرسن بولتے ہیں اور وہی سیاستدان آتے ہیں جنہوں نے ملک کو اس نوبت تک پہنچایا ہے اسلئے ان سے مستقبل کیلئے کوئی رہنمائی نہیں ہورہی۔ ہمارا مقصد لوگوں کو آسانیاں فراہم کرنا ہونا چاہئے ۔مگر حقیقت یہ ہے روز زندہ رہنا مہنگا ہو رہا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ