امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے شہر بیومونٹ Beaumont کے رہاشی پاکستانی نژاد تاجر طاہر جاوید کانام آج کل پاکستانی میڈیا میں زیر بحث ہے کہ اس کو موجودہ نگران حکومت نے وزیر سرمایہ کاری کے عہدے پر فائز کیا تھا لیکن امریکہ اور پاکستان میں کچھ افراد نے اس کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ اس شدت سے کیا کہ اس نے وزارت کے منصب سے استعفی دینا مناسب سمجھا۔ اس نے تو پاکستان کی خدمت کے ارادے سے یہ منصب قبول کیا تھا لیکن اس کے بارے میں بے بنیاد الزامات لگا کر اسے بدنام کرنے کی کوشش کی گئی اس لئے وہ اس منصب سے علاحدہ ہوگیا۔ملک کی خدمت کے ارادے سے پاکستان جانے والے بیرون ملک پاکستانیوں کے ساتھ یہ سلوک کوئی نئی بات نہیں ہے۔اس کی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ حب الوطنی کے جذبات سے سرشار بعض کامیاب بیرون ملک پاکستانیوں نے اپنا سب کچھ بیچ کر پاکستان میں حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہا لیکن کرپٹ بیورو کریسی نے ان کے منصوبوں کو صرف اس لئے ناکام بنا دیا کہ یہ لوگ ان کےلئے کرپشن کا کوئی کھانچا نکالنے سے انکاری تھے۔طاہر جاوید کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ اس کے کاروباری حاسدوں اور امریکہ میں سیاسی مخالفین نے اس کے خلاف بے بنیاد مہم چلائی جس کی وجہ سے اس نے مناسب سمجھا کہ پاکستان کی اس گندی سیاست سے خود کو دور ہی رکھے۔ہمارے نزدیک اسے اس پیشکش کو سرے سے قبول ہی نہیں کرنا چاہیئے تھا۔
طاہر جاوید کون ہے کیا کام یا کاروبار کرتا ہے اور پاکستانی کمیونٹی میں اس کو کیا مقام حاصل ہے ؟ ہمارے پاس ان سوالوں کا براہ راست کوئی جواب نہیں ہے ہم نے تو اس کا نام چند برس پہلے سنا تھا کہ یہ ان چند مشہور پاکستانیوں میں شامل ہے جن کا نام امریکہ میں بڑے بڑے کامیاب تاجروں اور سرمایہ کاروں کے ساتھ لیا جاتا ہے اور جس نے امریکہ آنے کے بعد اپنی شناخت ایک کامیاب کاروباری شخص کی حیثیت سے بنائی اور اس کا شمار بھی ان ممتاز کامیاب کاروباری پاکستانیوں میں ہونے لگا۔اس کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ طاہر جاوید نے سرمایہ کاری اور تجارت میں کامیابی کے ساتھ ساتھ امریکہ کے سیاسی دھارے میں بھی اپنامقام بنایا اور ڈیموکریٹ پارٹی میں ایک سرگرم ورکر اور حمایتی کا کردار ادا کرنے لگا۔ہم نے یہ سب کچھ سن رکھا تھا لیکن اس سے کبھی ہماری ملاقات نہیں ہوئی تھی۔لیکن اس کی شہرت کاروباری اور امریکی سیاسی حلقوں میں یکساں طور موجود تھی۔پھر اس کے بارے میں مثبت اور منفی دونوں قسم کی باتیں بھی سامنے آئیں تو اس کو جاننے کا تجسس پیدا ہوا۔ایک بات تو یہ سمجھ میں آئی کہ جب کوئی شخص کاروبار یا سیاسی طور پر جلدی اپنی شناخت بناتا ہے تو اس کے بارے میں طرح طرح کی منفی باتیں بھی سامنے آتی ہیں جو زیادہ تر ان لوگوں کی طرف سے پھیلائی جاتی ہیں جو اس سے مقابلے کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں یا کسی اور قسم کا ذاتی یا اجتماعی بغض رکھتے ہیں۔ایسی ہی باتیں ہم نے بھی اس کے بارے میں سنی تھیں لیکن ہم نے اپنے طور پر اس کو جاننے کی کوشش جاری رکھی۔ اسی دوران ہمیں اپنے ایک صحافی ساتھی عبد القدوس فائق کے ساتھ تعاون کا معاملہ پیش آیا جو ہیوسٹن ( ٹیکساس)میں رہتا تھا تو ہم نے اسی علاقے میں رہنے والے ایک اورصحافی دوست کامران جیلانی سے بھی رابطہ کیا۔ معلوم ہوا کہ کامران تو طاہر جاوید کے یہاں کام کرتا ہے تو اس سے بھی اس کے بارے میں مزید معلومات ہوئیں اور معلوم ہوا کہ وہ کس طرح پاکستان اور پاکستانیوں کےلئے بڑھ چڑھ کر کام کرتا ہے اور ہر ضرورت مند کی مدد کےلئے ہر وقت تیار رہتا ہے۔یہ بڑا مثبت انکشاف تھا یہ بھی معلوم ہوا کہ ٹیکساس اور واشنگٹن ڈی سی میں اس کے ڈیموکریٹس ارکان کانگریس اورسینیٹ سے قریبی دوستانہ مراسم ہیں اور وہ ان تعلقات کو ہمیشہ پاکستان کے حق میں استعمال کرنے کےلئے ہر وقت کوشاں رہتا ہے۔
ہم ہر سال اکنا کنونشن میں شرکت کرتے ہیں اور وہاں اکنا کی قیادت سے ملاقاتیں بھی رہتی ہیں۔ تین سال پہلے ایک کنونشن کے موقع پر معلوم ہوا کہ طاہر جاوید بھی کنونشن میں موجودہے اور اس نے کنونشن کے تین دن اس کے پروگراموں میں گہری دلچسپی لی ہے اور وہ اکنا اور اس کے اسلامی پروگراموں کو امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کے لئے اہم سمجھتا ہے اور اس میں شرکت کو اپنے لئے بڑا اعزاز قرار دیتا ہے۔ہم مئی ۲۰۲۲ کے اکنا کنونشن میں بھی شریک تھے اور اس موقع پر لیڈرر لنچ میں ہم نے سنا کہ طاہر جاوید نا صرف کنونشن میں موجود ہے بلکہ اس نے اکنا کے ساتھ مالی تعاون بھی کیا ہے۔کنونشن کا آخری دن تھا اور ہم بھی کنونشن کے ہزاروں شرکاء کے ساتھ اپنے ہوٹل سے چیک آوٹ ہوکر اپنے سامان کے ساتھ دوسرے ساتھیوں کے منتظر تھے کہ ہمیں ہوٹل کی لابی میں کافی ہاؤس میں اپنے دو دوست ڈاکٹر عاصم اسد اور خالد منیر نظر آئے جو کافی کےلئے لائن میں تھے انہوں نے ہمیں بھی کافی کی دعوت دی اور ہم بھی اسی لائن میں کھڑے ہوگئے ہمارے آگے اچھے لباس میں ملبوس ایک نوجوان تھا۔ عاصم اور خالد بار بار اس سے باتیں کررہے تھے ہمیں تجسس ہوا کہ یہ کون صاحب ہیں۔ کافی لے کر جب عاصم اور خالد ایک میز پر بیٹھ گئے تو انہوں نے ہمیں بھی وہیں بلا لیا اور ہم نے بھی ان کے ساتھ ایک کرسی سنبھال لی۔ اتنے میں وہ نوجوان بھی وہیں آگیا اور ہمارے ساتھ ہی ایک کرسی پر براجمان ہوگیا۔ ہم نے عاصم کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا جس کا مطلب یہ تھا کہ بھئی تعارف تو کراؤ یہ کون صاحب ہیں تو ڈاکٹر عاصم نے مسکراتے ہوئے ان کا نام لیا۔ طاہر جاوید بھائی یہ ہمارے بزرگ عارف الحق عارف ہیں۔جنگ گروپ کے سینئر ترین صحافی ہیں آج کل سیکرامنٹو میں رہتے ہیں۔اس طرح ہمیں طاہر جاوید کو پہلی بار دیکھنے اور اس سے ملنے کا موقع ملا۔طاہر جاوید کا جو تخیلاتی ہیولا ہمارے ذہن میں تھا، وہ اس سے بلکل مختلف نکلا۔ تعارف کے بعد جب بات چیت ہوئی تو ہم ایسے گھل مل گئے کہ لگا کہ ہم ایک دوسرے کو برسوں سے جانتے ہیں ہماری ایک ساتھ سیلفیاں بھی بنیں اور پھر ہم اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔ہم طاہر جاوید کو بس اتنا ہی جانتے ہیں۔ لیکن طاہر جاوید کے بارے میں ہماری جماعت اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا ( اکنا ) کے قائدین ڈاکٹر محسن انصاری، زاہد بخاری، نعیم بیگ اور ڈاکٹر عاصم اسد کیا رائے رکھتے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے “ اس نے کیپیٹل ہل میں امت مسلمہ کے ہر کاز اور پاکستانیوں کے مسائل کےلئے ہمیشہ تعاون کیا، حقوق انسانی اور آزادی کی جدوجہد میں تعاون حاصل کرنے کےلئے سینیٹرز، کانگریس کے ارکان اور میئر ز سے رابطے کئے اور ان سے تعاون حاصل کیا، اس نے امریکی سیاست میں حصہ لینے کے خواہشمند پاکستانیوں کو امریکی سیاسی دھارے میں شامل کرنے میں مدد کی اور ان کو اچھے لوگوں سے ملوایا اور ان کی ہر طرح کی مالی، اخلاقی اور سیاسی مدد کی۔ اس نے ایسا تعاون ہر صدارتی یا مقامی سطح کے انتخابات کے موقع پر کیا۔ اس نے ہیلری کلنٹن اور جو بائیڈن سمیت متعدد صدارتی امیدواروں کی اپنے گھر پر شاندار میزبانی کی۔اس نے امریکہ میں آنے والی متعدد آفات ارضی و سماوی سمیت بیرون ملک تباہ کاریوں میں بھاری رقوم کے عطیات دیئے اور شیلٹرز ہوم کے قیام سمیت مستحق دکھی انسانیت کی خدمت کی۔
ہم اپنی بات کا اختتام اپنے معتمد ترین صحافی اور امریکہ میں دنیا ٹی وی نیوز کے بیورو چیف معاوذ اسد صدیقی کی طاہر جاوید کے خلاف منفی مہم پر ان کے ایک مضموںن پر کرتے ہیں۔ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ مہم کس قدر بے بنیاد ہے اور اس منفی مہم سے پاکستان کا کتنا بڑا نقصان ہواہے اور اس سے کتنے ان محب وطن پاکستانیوں کے دل ٹوٹے ہیں جو پاکستان جا کر ملک کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ معاوذ اسد صدیقی “ طاہر جاوید اور ان کے خلاف مہم “ کے عنوان سے اپنے مضمون میں لکھتے ہیں” گزشتہ کئی دنوں سے امریکہ کی معروف سیاسی اور سماجی شخصیت طاہر جاوید کے خلاف ایک مہم دیکھنے اور سننے کو ملی۔ اس کو آپ میری لا علمی سمجھیں۔مجھے یہ علم نہیں تھا کہ وہ وزیر بن گئے ہیں۔ عبوری حکومت میں وزیر بننا میرے خیال میں ویسے ہی غلط تھا مگر مجھے اندازہ ہے کہ جب بھی کوئی مخلص بیرون ملک پاکستانی پاکستان کی حکومتی راہداریوں میں جائے گا اُس کا برا حشر کردیا جاتا ہے۔ میں عموما منفی لوگوں اور جھوٹا پروپگینڈہ کرنے والوں کے جواب نہیں دیتا۔ میں نیویارک میں خود بھی اس طرح کے لوگوں کا شکار بنا ہوں مگر کبھی بھی جواب نہں دیا اور وہ خود خاموش ہو جاتے ہیں۔اسی طرح میں سب کو مشورہ دیتا ہوں کہ خاموش رہا جائے اور یہی سمجھتا رہا کہ ایسا ہی ہوگا مگر یہ سلسلہ چلتا رہا اور پاکستان میں ان کے خلاف ایسی سازش تیار کی گئی اور فضا بنائی گئی کہ ان کی وزارت کا نوٹس واپس لے لیا گیا جس کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہں تھی۔جب وہ وزیر بن گئے اور مجھ سے رابطہ ہوا تو مجھ سے کہہ چکے تھے کہ ملک میں بہت خراب نظام ہے جلد ہی چھوڑ دونگا۔میں نے اُس وقت تو کچھ نہیں لکھا اور پھر فلسطین کے بعد تو کچھ اور کرنے کا دل بھی نہیں کرتا تھا مگر جب کسی ایسے فرد کو جسے آپ جانتے ہوں کہ وہ پاکستان،پاکستانی کمیونٹی اور امریکہ کے مسلمانوں کے لیے مخلص ہے وہ اس طرح کی مہم کا شکار ہو، تو پھر جواب دینا آپ کا فرض بن جاتا ہے.
مجھے نہیں معلوم کہ طاہر جاوید کا کاروبار کیا ہے؟ وہ اپنا کاروبار کس طرح چلاتے ہیں مگر یہ ضرور جانتا ہوں کہ ان سے جب بھی ملا ہمشہ پاکستان کے لیے مخلص دیکھا بلکہ مسلمُ کمیونٹی کے لیے فکر مند دیکھا۔امریکی سیاست کا حصہ ہونے کی وجہ سے میرا ان سے رابطہ رہتا ہے.لیکن ایک ایسے موقع پر ان کو زیادہ قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو ان کی پاکستان سے محبت کی تڑپ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب انڈین لابی کی کاوشوں سے مسلم تنظیموں کے خلاف کانگریس میں بل لایا جانا تھا ۔اُس وقت انہوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا.اور ان کی کوششوں سے وہ بل پیش نہ کیا جا سکا اور مسلم تنظیمیں بڑی آزمائش سے بچ گئیں۔طاہر جاوید نے بل پیش کرنے والے کانگریس مین سے مسلم کمیونٹی کے لیڈروں کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کروایا۔ ان کے تعلقات کی وجہ سے کانگریس کے متعدد ارکان سے کرائی گئی ملاقاتوں کے نتیجے میں غلط فہمیاں دور ہوئیں اور بل خود ہی ختم ہوگیا۔طاہر جاوید کی خاص بات یہ ہے کہ وہ پارٹی لائین سے بالاتر ہو کر صرف پاکستان کے لئے ایڈوکیسی کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب عمران خان وزیر اعظم تھے تو انہوں نے کانگریس کے پچاس ارکان سے تاریخی ملاقات کروائی جو آج تک کوئی بھی اس طرح کی ملاقات کا اہتمام نہیں کروا سکا تھا۔ بہت سے لوگ اب یہ بھی کہتے ہیں وہ ملاقاتیں انہوں نے نہیں کروائی تھی لیکن جس طرح وہ ہم سے رابطے میں رہے اور وہاں نمایاں نظر آئے وہ ہم سب نے دیکھا تھا اگر ان کا ہاتھ نہیں تھا تو سارا پروگرام ان کے بنائے ہوئے شیڈول کے مطابق کیسے چل رہا تھا۔ اس سے قبل جب کپٹیل ہل ڈے میں مختلف مسلم تنظیموں کو ارکان کانگریس ملاقات کا وقت نہیں دے رہے تھے جیسے ہی طاہر جاوید وہاں آئے ارکان کانگریس سے دھڑا دھڑ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ہم بھی ان ملاقاتوں کا حصہ تھے.ہیلری کلنٹن سے لیکر صدر جوبائیڈن کی الیکشن مہم میں بھی پاکستانی کمیونٹی کی جانب سے طاہر جاوید کا نمایاں کردار رہا۔ انہوں نے اپنی جیب سے لاکھوں ڈالر خرچ کئے اور کمیونٹی سے بھی چندہ دلوایا تاکہ پاکستان کے لیے مثبت فضا تیار کرسکیں۔جو شخض اپبے پیسے خرچ کر کے پاکستان کی خدمت کرے اس کے لیے وزارت کئ کیا اہمیت ہے اور وہ بھی وزارت جو انوسٹمنٹ لانے کے لئے ہو۔جو الزامات امریکہ میں بیٹھے ایک شخص نے مہم کے طور پر لگائے اس کی ویسے بھی کوئی حثیت نہں تھئ وہ مکمل جھوٹ پر مبنی تھے.بجائے اس کے کہ ان کی کارگردگی دیکھی جاتی اور اس کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا کہ کیا یہ اپنے تعلقات کو پاکستان میں سرمایہ کاری لانے کے لئے کچھ کرسکتے ہیں یا نہیں.جو شخص بغیر عہدے کے یہ کام کرتا رہا وہ اب بھی کرسکتا ہے یا نہیں.ان بے تکے الزامات کا بہانہ بنا کر نوٹفکیشن واپس لے لیا گیا اور وہ بھی ایسے بے تکے الزمات جن کے حوالے سے خود امریکہ میں سرکاری طور پر اس الزام کی تردید کی گئی،جو وڈیو کی شکل میں موجود ہے اس شخص نے ان پر قتل تک کا الزام لگا دیا جو ایسا فضول الزام ہے کہ ایک شخض اتنے جرائم کے بعد امریکہ میں کیسے کانگریس کا الیکشن لڑ سکتا ہےاور کیسے کئی صدارتی امیدواروں سمیت کئی ارکان کانگریس اس کے ذاتی دوست ہو سکتے ہیں ؟ اور وہ کیسے اس دوستی کو پاکستان کی ایڈوکیسی کے لیے استعمال کرسکتا ہے ؟ یہ سوچنے کی بات ہے۔ویسے بھی آپ امریکہ میں کاروبار کررہے ہوں تو ایسے معاملات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اگر آپ پر کیس بنتے اور ختم ہوتے رہئتے ہیں ان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔جب آپ کاروبار کرتے ہیں تو آپ کے بہت سے دوست اور دشمن بن جاتے ہیں اور یہی حال سیاست کا بھی ہے لہٰذا ان کی دونوں رقابتوں نے پاکستان کو بڑا نقصان پہنچا دیاہے کہ وہ ایک مخلص شخص کی خدمت سے محروم ہوگیا.کیونکہ اس طرح کی حرکتوں کے بعد انسان بددل ہوہی جاتا ہے۔ میری معلومات کے مطابق جہاں ہیوسٹن میں ان کے کاروباری رقیب ہیں وہیں ربوہ سے قریبی تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر بھی اس مہم کا حصہ ہیں جو گزشتہ کئی دنوں سے پاکستان مخالف مہم چلاتے نظر آرہے ہیں.میرا تو طاہر جاوید کو یہی مشورہ ہے کہ اس گند کا حصہ بننا ہی نہیں چاہیے تھا اب کچھ دن سکون سے گزاریں ۔امریکہ میں میں ہتک عزت کا معاملہ لندن کی طرح آسان نہیں اور پھر بعض اوقات لاکھوں بھی خرچ ہوجاتے ہیں اس لئے لوگ آسانی سے غلیظ اور گھٹیا الزمات لگا دیتے ہیں. مگر طاہر جاوید کو یہ راستہ بھی اختیار کرنا چاہیئے.دوسرا مشورہ یہ ہے کہ آئندہ پاکستان کی حکومت کی راہداریوں کا حصہ کبھی نہ بنیں یا یہ کام سازشیوں اور حرام خوروں کے لیے چھوڑ دیں۔