تبصروں، تجزیوں اور مشوروں کو چھوڑیں۔ آئیے آج جانیں کہ فیصلہ ساز مستقبل کے تانے بانے کس طرح بُن رہے ہیں ان کی سوچ، اندازے اور تخمینے کیا ہیں؟ یہ سارا کچھ جاننے کے بعد آخر میں جائزہ لیں گے کہ ان کے اندازے اور سیاسی فیصلے کتنے درست ہیں اور ان سے کیا نتائج برآمد ہونگے۔
جان لیں کہ یہ طے ہے کہ الیکشن جنوری نہیں تو فروری میں ضرور انعقاد پذیر ہونگے،کوئی حادثہ یا انہونی نہ ہوئی تو یہ بھی واضح ہے کہ کھلاڑی خان الیکشن کے دوران جیل میں ہونگے اور الیکشن سے پہلے ہی نااہل بھی قرار دیئے جا چکے ہونگے۔ اعلیٰ سطح پر اندازہ یہ لگایا گیا ہے کہ آئندہ پارلیمان ہنگ ہو گی، کسی بھی جماعت کو قطعی اکثریت حاصل نہیں ہو گی،سب سے زیادہ نشستیں لینے والی جماعت کو وزارت عظمیٰ ملے گی اور دوسرے نمبر پر آنے والی جماعت کو ملک کی صدارت ملے گی۔ذرائع کے مطاق تخمینہ یہ لگایا گیا ہے کہ نونی 75سے 80نشستیں جیتیں گے جبکہ پیپلز پارٹی بھی 60سے 65نشستیں حاصل کرلے گی ۔جب اس تخمینے کے حوالے سے کردیا گیا کہ کیا اس کا مطلب ہے کہ نونی وزارت عظمیٰ سنبھالیں گے تو جواب دیا گیا کہ نون اور جیالیوں میں نشستوں کا کم ہی فرق ہو گا۔سوال کیا گیا کہ جیالوں کی اندرون سندھ سے 40نشستوں کی بات تو عقلی طور پر سمجھ آتی ہے باقی 25نشستیں وہ کہاں سے حاصل کرینگے تو جواب آیا کہ کراچی بھی تو خالی پڑا ہے جیالے 8سے 10نشستیں کراچی سے لے جائیں گے۔نونیوں اور جیالوں میں بڑھتی ہوئی خلیج کے حوالے سے بھی معاملات طے کئے جا رہے ہیں، جیالوں کی جارحانہ گولہ باری کے بعدنونیوں نے ایم کیو ایم اور جی ڈی اے سے پینگیں بڑھانا شروع کر دی تھیں مگر لگتا ہے کہ نونیوں اور جیالوں کے درمیان سیز فائر کرا دی جائے گی۔ پنجاب اور سندھ کی نگران حکومتیں یہ ٹکراؤ نہیں چاہتیں۔ آئندہ الیکشن کے حوالے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ امریکہ اور مغربی دنیا کے ممالک یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں جلد از جلد الیکشن ہوں، ایک مغربی سفارتکار کے مطابق الیکشن جیسے بھی ہوئے وہ پاکستان کو آگے ہی لیکر جائیں گے اس لئے مغربی دنیا الیکشن، جیسے بھی ہوئے، ان کو قبول کرلے گی۔
لیجئے اور بھی سنئے، جیسے جیسے نونیوں کو یقین ہوتا جارہا ہے کہ انہیں اقتدار ملنے و الا ہے، ویسے ویسے انکے اندازو اطوار اور ان کا لہجہ تبدیل ہورہا ہے۔اس کے لیڈر اور ترجمان جو برسوں تک جمہوری راگ الاپتے رہے تھے یکایک ریاستی بیانیے کے اسیر ہوگے ہیں، مصالحت کی بات کرنے والوں پر ناراض ہوتے نظر آ رہے ہیں، حد تو یہ ہے کہ اپنی ہی سابقہ حلیف پیپلز پارٹی کو یہ دھمکی دے رہے ہیں کہ وہ 90ء کی دہائی کی طرح ایم کیو ایم اور سندھ کے انتخابی گھوڑوں سے مل کر سندھ میں پیپلز پارٹی مخالف حکومت بنا سکتے ہیں گویا ابھی اقتدار میں آئے بھی نہیں ہیں اور وہی پرانی سوچ پھر سے عود کر آئی ہے۔ خدا کرے نونی کچھ سیکھ سکے ہوں اور دوبارہ سے ملک میں محاذ آرائی کی سیاست شروع نہ کر دیں۔انہیں تو چاہئے کہ وہ انصافیوں کے ساتھ بھی مفاہمت کی راہ نکالتے، مگر وہ تو الٹا اپنی ہی اتحادی پیپلزپارٹی پر پل پڑے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ وہ اقتدار میں کسی کو بھی شریک نہیں کرنا چاہتے حالانکہ تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ پالیسی غلط ثابت ہوئی ہے، چارٹر آف ڈیموکریسی اور اٹھارہویں ترمیم نے جمہوریت،پارلیمان اور سیاست کو مضبوط کیا ہے جبکہ سیاسی جماعتوں کی آپس کی محاذ آرائی نے جمہوریت، پارلیمان اور سیاست کو ہمیشہ نقصان ہی پہنچایا ہے ۔
اوپر والوں کے تخمینے ،اندازے اور سوچ جاننے کے بعد ضروری ہے کہ اس سرکاری نقشے کا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ملک کی سیاست اور معاشرہ تار تار ہے، سیاست میں تلخی اور نفرت عروج کو پہنچی ہوئی ہے ،ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹوٹے ہوئے اس معاشرے کو جوڑنے کی کوشش کی جائے ،تقسیم زدہ سیاست کو مفاہمت کی طرف لیجایا جائے، اس کام کیلئے ایک نئے نوابزادہ نصراللہ خان کی ضرورت ہے وہی تھے جو ایم آر ڈی اور اے آر ڈی کے روح رواں تھے مگر آج کی سیاست میں ایک بھی نوابزادہ نصراللہ نہیں۔ نفرتوں کی حد یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ مفاہمت اور مصالحت کی بات کرنے والے پر نونی اور انصافی دونوں چڑھ دوڑے ہیں حالانکہ اس وقت سیاسی جماعتوں میں مفاہمت کے ساتھ ساتھ، پھر اہل سیاست اور مقتدرہ کے درمیان مصالحتی فارمولے کی اشد ضرورت ہے، نون کو کٹا پھٹا اقتدار مل بھی گیا تو وہ سیاسی انتشار کے ماحول میں حکومت کیسے چلائے گی۔ مقتدرہ کے ساتھ کوئی فارمولا طے نہ پایا تو کیا نواز شریف، کاکڑ جیسا وزیراعظم بننا قبول کریں گے ظاہر ہے کہ اس طرح نہ حکومت چل سکتی ہے اور نہ ہی نواز شریف ایسے بے اختیار وزیراعظم بننا چاہیں گے۔ پاکستان کو کامیاب بنانے کیلئے دوچار ٹر ضروری ہیں ایک سیاست دانوں کے درمیان اور دوسرا اہل سیاست اور مقتدرہ کے درمیان۔ اس گرینڈ مفاہمت میں طے ہونا چاہئے کہ سیاست دان ایک دوسرے کے خلاف دھرنے اور لانگ مارچ نہیں کریں گے فوج سے سازباز کرکے ایک دوسرے کو ہٹانے کے عمل میں شامل نہیں ہونگے۔دوسری طرف مقتدرہ اور عدلیہ کو بھی ماضی سے سیکھنا ہو گا۔سیاست دان فوج کے معاملات میں دخل اندازی نہ کریں اور فوج پاکستانی سیاست میں اکھاڑ پچھاڑ بند کردے ۔ اگر تو پاکستان کو چلانا ہے تو یہی واحد حل ہے اور اگر ماضی و حال کی طرح چلنا ہے تو پاکستان مزید تقسیم ہوگا معاشی ابتری مزید بڑھے گی اور وہ دن دور نہیں ہو گا جب پاکستان پسماندہ افریقی ممالک کی طرح مسائلستان بن جائے گا ،جس ملک کی معیشت ٹھیک نہ ہو اس کا دفاع کبھی مضبوط نہیں رہتا کیونکہ ملک کے پاس پیسے ہی نہ ہوں تو وہ جدید جہاز، ٹینک اور اسلحہ کیسے خریدے گا اور جب وہ یہ ماڈرن اسلحہ خرید نہیں سکے گا تو اسکی سیکورٹی کو بھی خطرات لاحق ہونگے۔اقوام عالم سے سبق سیکھ کر ہر ادارہ اپنی اپنی حدود میں رہے یہی ریاست کو چلانے کا واحد حل ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ