اسٹیبلشمنٹ کی حمایت پر قومی اتفاق رائے : تحریر مزمل سہروردی


ملک میں انتخابی ماحول بنتا جا رہا ہے۔ سب کو یقین ہورہا ہے کہ انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے جو تھوڑا سا ابہام موجود ہے وہ بھی چند دن میں دور ہو جائے گا۔ تاریخ بھی سامنے آجائے گی اور شیڈول بھی سامنے آجائے گا۔

اس لیے ملک میں انتخابی سرگرمیاں آہستہ آہستہ تیز ہوتی جائیں گی۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ملک میں انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے انتخابی بگل سن کر انتخابی دنگل کا آغاز کر دیا ہے۔

جیسے جیسے انتخابی ماحول بن رہا ہے ملک میں یہ بحث بھی زور پکڑ رہی ہے کہ آیندہ آنے والے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی لاڈلی پارٹی کون ہے۔ یہ سوال اہم ہے کہ لاڈلا کون ہے۔ سب جماعتیں ایک دوسرے پر لاڈلا ہونے کا الزام لگا رہی ہیں۔

یہ سوال بھی اہم ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مخالف کون ہے۔ کل کے دشمن آج کے دوست اور آج کے دوست کل کے دشمن بنتے نظر آرہے ہیں۔ کون مستقل لاڈلا ہے کون مستقل دشمن ہیکسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی۔

میری رائے میں اس وقت تمام بڑی سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ سے دوستی اور لاڈلا بننے کی خواہش مند ہیں۔ مجھے اسٹیبلشمنٹ سے دوستی پر ایک قومی اتفاق رائے نظر آرہا ہے۔ سب ہی اسٹیبلشمنٹ سے دوستی اور اس کے ذریعے اقتدار کا دروازہ کھولنے کے لیے تیار ہیں۔

کوئی بھی ایسی جماعت نہیں جو کہہ رہی ہو کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے اقتدار ملے گا تو نہیں لیں گے۔ سب ہی تعاون اور مدد کے طلبگار نظر آرہے ہیں ۔

سب سے پہلا سوال ہے کہ کیا تحریک انصاف اسٹیبلشمنٹ مخالف جماعت ہے۔ نو مئی کے بعد یہ تاثر بہت مضبوط ہے کہ تحریک انصاف اسٹیبلشمنٹ مخالف جماعت ہے۔

لیکن دیکھا جائے تو یہ تاثر درست نہیں۔ تحریک انصاف کو پہلے دن سے گلہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ان کی مدد کیوں نہیں کر رہی۔ ان کو گلہ ہے کہ جب ان کو اقتدار سے نکالا جارہا تھا تو اسٹیبلشمنٹ نے ان کے اقتدار کو بچایا کیوں نہیں۔ انھیں اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہونے پر اعتراض ہے۔

انھیں اعتراض ہے کہ ان کی پہلے جیسی مدد کیوں نہیں کی جا رہی۔ انھیں گلہ ہے کہ ان کے بار بار درخواستیں دینے کے باجود ان سے ملاقات کیوں نہیں کی جا رہی۔ ان کو اسٹیبلشمنٹ سے گلہ ہے کہ وہ ان کے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ان کی مدد کیوں نہیں کر رہی۔ اس لیے اگر اس سب کو دیکھا جائے تو کیا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر آج اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے گی تو کیا وہ انکار کردے گی؟

کیا تحریک انصاف ملکی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کے خلاف ہے؟ نہیں وہ تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا ملک کی سیاست میں بھر پور کردار ہو لیکن یہ کردار ان کی حمایت میں ہونا چاہیے۔ اگر ان کی حمایت میں نہیں تو غلط ہے۔ اس معیار پر کیا ہم تحریک انصاف کو اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاسی جماعت کہہ سکتے ہیں۔ وہ حمایت کے طلبگار ہیں نہ ملنے پر ناراض ہیں۔

آپ پیپلزپارٹی کو دیکھ لیں۔ آج کل پیپلزپارٹی بہت شور مچا رہی ہے کہ انھیں لیول پلیئنگ فیلڈ حاصل نہیں ہے۔ یہ سب سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ کس سے لیول پلیئنگ فیلڈ مانگ رہے ہیں۔

انھیں انتخاب لڑنے میں کیا رکاوٹ ہے۔ وہ جلسے جلوس کرنے میں آزاد ہیں۔ میڈیا میں آنے پر کوئی پابندی نہیں۔ انتخابی مہم چلانے پر کوئی پابندی نہیں۔ پھر لیول پلیئنگ فیلڈ میں کیا حاصل نہیں۔ ایک رائے یہ بھی بن رہی ہے کہ نواز شریف کی واپسی سے پیپلزپارٹی ناراض ہے۔ حالانکہ یہ ناراضگی سے سمجھ سے بالاتر ہے۔ پی ڈی ایم کے اجلاسوں میں آصف زرداری مطالبہ کرتے تھے کہ اگر سیاست کرنی ہے تو نواز شریف واپس آئیں۔

ایسا لگ رہا ہے کہ چند ماہ قبل پیپلزپارٹی کو یہ احساس تھا کہ تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ڈیڈ لاک اور نواز شریف اور اسٹبشلمنٹ کے درمیان بند دروازوں کی وجہ سے وہ واحد چوائس ہیں۔ لیکن نواز شریف کی واپسی کے بعد پیپلزپارٹی کو احساس ہو گیا ہے کہ ان کی واحد چوائس کی حیثیت ختم ہو گئی ہے۔

اس لیے بات سمجھنے کی یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اسٹیبلشمنٹ مخالف جماعت نہیں ہے۔ ان کو گلہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کے بجائے ن لیگ کی طرف منہ کر لیا ہے۔ ان کو لاڈلا نہیں بنایا جا رہا ہے۔ انھیں گلہ ہے کہ نواز شریف کو واپسی پر گرفتار کیوں نہیں کیا گیا۔

کیا کوئی پیپلزپارٹی سے پوچھ سکتا ہے کہ اگر نواز شریف کو ایئر پورٹ پر گرفتار کر لیا جاتا تو کیا ان کو لیول پلیئنگ فیلڈ مل جاتی۔ نواز شریف کی گرفتاری سے پیپلزپارٹی کو کیا سیاسی فائدہ ہوتا یہ بات ناقابل فہم ہے۔

تحریک انصاف کو تو فائدہ ہو سکتا تھا۔ پیپلزپارٹی کا فائدہ ناقابل فہم ہے۔ ان کا بھی گلہ ہے کہ اقتدار کے حصول کے لیے اسٹیبلشمنٹ ان کی اس طرح مدد نہیں کر رہی جیسے 2018میں تحریک انصاف کی کی گئی تھی۔ اس لیے یہاں بھی معاملہ کوئی اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کا نہیں ہے بلکہ پہلے درجے کا لاڈلا بننے کا ہے۔

ن لیگ ایک واضح پالیسی کے ساتھ عوام کے سامنے موجود ہے۔ وہ مفاہمت کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ اور اب لگ رہا ہے کہ انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کو اپنی مستقل پالیسی بنا لیا ہے۔ وہ باقی جماعتوں کے مقابلے میں پالیسی کے اعتبار سے واضح ہیں۔ نواز شریف کی واپسی نے ن لیگ میں جان ڈالی ہے اور ان کی اسٹیبلشمنٹ سے پکی دوستی کے تاثر کو بھی مضبوط کیا ہے۔ اس لیے ن لیگ بھی اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی حمایت میں ہے۔

مولانا فضل الرحمن بھی اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے حمایت یافتہ ہیں۔ وہ بھی کوئی اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔وہ تو لیول پلیئنگ فیلڈ کی بھی کوئی بات نہیں کر رہے۔ وہ تو اسٹیبلشمنٹ سے راضی لگ رہے ہیں۔ اسی طرح اے این پی بھی خوش نظرا رہی ہے۔

ایم کیو ایم کو بھی کوئی خاص گلہ نظر نہیں آرہا۔ یہ تینوں جماعتیں سمجھ رہی ہیں کہ انھیں 2018 سے بہتر حالات میسر ہیں۔ 2018میں تو ان کا راستہ زبردستی روکا گیا تھا۔ اب اگر ان کی سہولت کاری نہیں بھی کی جا رہی تو کم از کم راستہ تو نہیں روکا جا رہا۔ اس لیے یہ تینوں جماعتیں بھی اسٹیبلشمنٹ کے حق میں ہی نظرآ رہی ہیں۔

سندھ میں جی ڈی اے بھی ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کے حق میں رہی ہے۔ آج بھی حق میں ہے۔ بلوچستان میں باپ پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے حق میں ہے۔ وہ اب بھی وہاں کی بڑی جماعت ہے۔ سردار مینگل ناراض نظرآرہے ہیں۔ لیکن یہ ناراضگی ویسے ہی ہے جیسی پیپلزپارٹی کی ہے۔ اس میں کوئی محاذ آرائی نہیں ہے۔

اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت پر ایک قومی اتفاق رائے موجود ہے۔ 2024کے انتخابات میں سب سے بڑی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت میں ہی انتخابات لڑ رہی ہیں۔ یہی حقیقت ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس