آج عالمی یومِ البلاد (اکتیس اکتوبر) ہے۔ یہ دن دو ہزار چودہ سے منایا جا رہا ہے۔اس کا مقصد شہری زندگی کو ماحولیات دوست بنانا، پسماندہ شہری علاقوں میں تعلیم و صحت سمیت بنیادی سہولتوں کی معیاری بہم رسانی کہ جن کے ذریعے ہر شہری کو اپنی اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے ذاتی زندگی اور اردگرد کو بہتر بنانے کا موقع اور تسکین مل سکے۔
شہر ہی کسی ملک کی مادی و تمدنی ترقی کا انجن ہیں۔ انجن کی دیکھ بھال بہتر ہو گی تو معاشی و سماجی ترقی کی ٹرین بھی بہتر طور پر آگے بڑھ پائے گی۔
اس وقت عالمی آبادی آٹھ ارب ہے۔یہ دو ہزار پچاس تک لگ بھگ دس ارب اور صدی کے اختتام تک بارہ ارب تک پہنچ جائے گی۔
دو ہزار پچاس تک آبادی میں جتنا بھی اضافہ ہوگا۔اس کا نصف صرف نو ممالک میں ہو گا۔ (بھارت، نائجیریا، پاکستان، کانگو، ایتھوپیا، تنزانیہ، انڈونیشیا، مصر، امریکا)۔
اس عرصے میں صحارا پار بیس افریقی ممالک کی آبادی دگنی جب کہ یورپ کی آبادی کم ہو جائے گی۔
پچھلی دو دہائیوں میں اوسطا تین فیصد عالمی آبادی نے مقامی یا بیرونی نقلِ مکانی کی ہے۔اس کی تین بنیادی وجوہات ہے۔بدامنی، معیشت اور ماحولیاتی تبدیلیاں۔آنے والے برسوں میں نقلِ مکانی کا سب سے بڑا محرک ماحولیاتی تبدیلیاں ہوں گی۔
دنیا کی کم ازکم تین ارب آبادی ان تبدیلیوں سے براہِ راست متاثر ہو گی۔اس کے زیادہ تر مضر اثرات کرہِ ارض کے جنوبی علاقوں میں دیکھنے کو ملیں گے جو پہلے ہی ہر طرح کے مسائل سے جوج رہے ہیں۔
ان مسائل کا سامنا بھی آج کی طرح پندرہ سے پچیس برس کے درمیان کی آبادی کو کرنا پڑے گا۔کیونکہ کرہِ ارض کی ساٹھ فیصد آبادی پچیس برس یا اس سے نیچے کے کام کے قابل انسانوں پر مشتمل ہے اور ان کی توانائی کے مثبت استعمال کے لیے سب سے بڑا چیلنج روزگار کے کم ہوتے مواقعے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ بے روزگاری بے چینی اور بدامنی کی ماں ہے اور اگر اس بحران میں ماحولیاتی اتھل پتھل سے جنم لینے والی بے یقینی کو بھی ملا لیا جائے تو سوچئے آنے والے کل کی کیا تصویر بننے جا رہی ہے۔اس بڑھتے ہوئے بحران کو قابلِ برداشت سطح تک رکھنے میں ہی موجودہ حکمران طبقات سمیت سب کی بقا ہے اور حکمران طبقات میں سب سے طاقتور وہ طبقہ ہے جسے ہم کارپوریٹ ورلڈ کے نام سے جانتے ہیں۔
اس دنیا کے وسائل پر ہر انسان کا حق ہے۔ وسائل پر چند انسانوں کا قبضہ اور خود غرضانہ استعمال ہی بالاخر بقائی خطرہ بنے گا۔ جب تک یہ حقیقت سب پر کھلے گی تب تک کرہِ ارض کی کشتی میں اتنے سوراخ ہو چکے ہوں گے کہ پسنے اور پیسنے والے دونوں کو اپنی اپنی بقا کے لالے پڑ چکے ہوں گے۔
اگر اس تصویر کو انسانی تہذیب کا دورانیہ ماپنے والے زمانی کلاک کی شکل میں دیکھا جائے تو اس وقت کلاک کی سوئی گیارہ بج کے پچپن منٹ پر پہنچی ہوئی ہے۔یعنی ہمارے پاس فیصلہ کن بقائی ایکشن کے لیے صرف پانچ منٹ کی مہلت بچی ہے۔
چونکہ شرح ِ عمر میں بھی پچھلے ایک سو برس کے دوران اضافہ ہوا ہے۔لہذا تاریخ میں پہلی بار دو ہزار پچاس تک ہمیں یہ بھی دیکھنے کو ملے گا کہ پچیس برس سے اوپر کی آبادی کام کے قابل پچیس برس تک کی آبادی سے زیادہ ہو گی۔
دو ہزار اٹھارہ میں انسانی تاریخ میں پہلی بار پینسٹھ برس سے اوپر کی آبادی پانچ برس یا اس سے کم عمر کی آبادی سے زیادہ ہو گئی۔لہذا حکومتوں کو ابھی سے سوچنا پڑے گا کہ معمر افراد کی بڑھتی ہوئی اکثریت کو کیسے ایسے پیداواری کاموں میں مصروف رکھا جائے کہ وہ معیشت پر اضافی بوجھ بننے کے بجائے اس میں کمی کے معاون کار ثابت ہوں۔اس کے لیے صحت، تعلیم اور سماجی فلاح کے ریاستی ڈھانچے اور حکمتِ عملی میں گہری اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔
عالمی آبادی کی نقلِ مکانی کی رفتار جو سن دو ہزار میں اوسطا دو اعشاریہ آٹھ فیصد تھی۔آج بڑھ کے ساڑھے تین فیصد تک پہنچ چکی ہے۔اس وقت ستر کروڑ تارکینِ وطن وہ ہیں جنھیں کسی نہ کسی جبریہ ضرورت کے سبب اپنی زمین چھوڑنا پڑی۔
پناہ گزینوں کی عالمی تعداد جو دو ہزار پانچ میں اکتیس ملین تھی آج ایک سو دس ملین ہے۔ان سب کا رخ شہروں کی جانب ہے۔اس وقت پچپن فیصد عالمی آبادی شہری ہے اور دو ہزار پچاس تک یہ شرح ستر فیصد تک پہنچ جائے گی۔
اس وقت دنیا کے تمام بڑے شہروں کا اجتماعی رقبہ کرہِ ارض کے کل رقبے کا دو فیصد ہے مگر اسی فیصد عالمی آمدنی یہی شہر پیدا کر کے دے رہے ہیں۔ چنانچہ ستر فیصد آلودگی بھی شہروں میں ہی پیدا ہو رہی ہے۔ شہری حدود کے اندر قریبا ڈیڑھ ارب انسان کچی آبادیوں میں رہتے ہوئے ناکافی بنیادی سہولتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ شہری آبادی میں اضافے کی شرح بنیادی سہولتوں کی فراہمی کی رفتار سے کم ازکم چار گنا تیز ہے اور یہ فرق روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔اس سنگین مسئلے سے نپٹنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔
جتنے بھی ترقیاتی منصوبے ہیں انھیں انفرادی و طبقاتی کے بجائے اجتماعی ترجیحات اور دستیاب وسائل کے چابک دست استعمال سے نتھی کیا جائے۔مثلا انفرادی گاڑیوں کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیسے ممکن ہو۔ایسے گھر اور کاروباری عمارات کیسے ڈیزائن کیے جائیں کہ توانائی کا استعمال کم سے کم ہو سکے۔
اسکولی عمارتوں کو پانچ گھنٹے کی اوسط کے بجائے دس گھنٹے کے لیے کیسے استعمال کیا جائے کہ ایک ہی عمارت دو اسکولوں کے برابر کارکردگی دکھا سکے۔روزگار کے مواقعے اور صحت کی سہولتوں کو کیسے منصوبہ بند طریقے سے مساوی انداز میں پھیلایا جائے کہ لوگ بے جا سفر پر مجبور نہ ہوں اور ماحولیاتی ابتری کہیں نہ کہیں تھمنی شروع ہو۔
اس کے لیے بلدیاتی ڈھانچے کو بااختیار ، باوسیلہ اور ٹاون پلاننگ اور وسائیل کی دیکھ بھال میں ایک موثر کردار دینے کی بنیادی ضرورت و اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے۔یہ اصلاحات احسان یا عیاشی کے خانے میں نہیں آتیں بلکہ وقت کی اشد بنیادی ضرورت ہیں۔
اس راز کو جتنا جلد سمجھ لیا جائے اتنا ہی ہم سب کے لیے بہتر ہے۔اگر ہم اب بھی زندگی گذارنے کے بنیادی تقاضے نہیں سمجھیں گے تو پھر زندگی ہم سب کو آیندہ بھی اپنی مرضی سے گذارے گی اور اس اذیت کا اختتام ہم سب کے گذر جانے پر ہی ہوگا۔
آج عالمی یوم البلاد کے موقع پر بھی اگر آپ اس بارے میں اور اپنے بارے میں نہیں سوچیں گے تو کب سوچیں گے؟
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس