ذرا آپ تصور کی آنکھ سے ایک ایسی ارضی پٹی کے بارے میں سوچیے جو 12کلومیٹر چوڑی اور 40کلومیٹر لمبی ہے۔ اِس پٹی میں 23 لاکھ افراد رہنے پر مجبور ہیں۔
اِسی تنگ سی ، جیل نما پٹی، میں سڑکیں بھی ہیں، اسکولز بھی، کالج بھی، اسپتال بھی، رہائشی عمارتیں بھی۔ یہ عمارتیں مجبورا اور عمودا کئی کئی منزلہ تعمیر گئیں کہ زمین کی بے حد کمی ہے۔
اِس ارضی پٹی کے پاس نہانے،دھونے اور پینے کا اپنا کوئی آزاد واٹر سسٹم نہیں ہے۔ اِس پٹی کے مکینوں کے پاس اپنی بجلی ہے نہ گیس اور نہ ہی روزگار کے وسائل ۔ یہاں کے مکینوں کو بجلی، پانی اور گیس اسرائیل سے فراہم کیے جاتے ہیں۔
اِس ارضی پٹی کے ایک طرف سمندر ہے اور اس پر بھی اسرائیل قابض ہے۔دوسری جانب 12کلومیٹر چوڑی سرحد مصر سے ملتی ہے اور مصر نے یہ سرحد اِس پٹی کے مکینوں پر تالے لگا کر بند کررکھی ہے ۔
اِس پٹی کے دو جانب سرحدیں اسرائیلی قابض فورسز کے پاس ہیں۔ اِس تنگ سی ارضی پٹی کے لاکھوں لوگ روزانہ محنت مزدوری اور ملازمت کے لیے اسرائیل جاتے ہیں ۔اِس تنگ سی پٹی کی اپنی کوئی سرکاری کرنسی نہیں ہے ۔ یہاں اسرائیل کی کرنسی شیکل (ISL)، امریکی ڈالر (USD) اور اردنی دینار (JOD) چلتے ہیں ۔
اِس 12کلومیٹر چوڑی اور40کلومیٹر لمبی تنگ سی زمینی پٹی کو ساری دنیا غزہ کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ یہاں کی حکمران جماعت حماس ہے ۔ فلسطینی مغربی کنارے میں بروئے کار پی ایل او کی فلسطینی حکومت (الفتح)سے قطعی مختلف ۔ پچھلے تین ہفتوں (7اکتوبر2023) سے غزہ ایک بار پھر عالمی سیاست پر بادل بن کر چھایا ہوا ہے ۔
حماس کے فدائین نے اسرائیل پر 7اکتوبر کو اچانک حملہ اور ہلہ بول دیا تھا۔ اس حملے میں اب تک تقریبا2ہزار اسرائیلی فوجی اور شہری ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ غزہ پر اسرائیلی انتقام اور بدلے کی قیامت نے اب تک 7ہزار سے زائد فلسطینیوں کو ہڑپ کر لیا ہے ۔ غزہ آج بھوک، محتاجی اور خون میں لتھڑا پڑا ہے۔
اسرائیلیوں نے غزہ میں بیدردی سے ایک ہزار سے زائد معصوم بچے بھی شہید کر دیے ہیں۔ نصف سے زائد غزہ بالکل تباہ ہو چکا ہے ۔
اسرائیلی جارحیت اور انتقام پھر بھی ٹھنڈا ہونے کا نام نہیں لے رہا ۔ مغضوب الغضب اسرائیلی وزیر اعظم، نیتن یاہو، نے کئی مسلمان ممالک کی جنگ بندی کی اپیلیں مسترد کر دی ہیں۔ صہیونی نیتن یاہو کا باالاصرار کہنا ہے کہ جب تک حماس کا مکمل صفایا نہیں ہو جاتا ، جنگ بند نہیں کروں گا۔ امریکا، برطانیہ ، فرانس، آسٹریلیا اور کینیڈا بھی اس کے ہم زبان اور ہمنوا بن چکے ہیں۔ عالمِ اسلام کے حکمران اسرائیل کے سامنے بھیگی بلی بنے بیٹھے اپنی کمزوریوں اور بزدلیوں پر ماتم کناں ہیں ۔
پچھلے تین ہفتوں سے غزہ کے مکین ادویات، روٹی، پانی ، بجلی ، گیس اور روزگار کے لیے ترس رہے ہیں کہ زندگی کا پہیہ رواں رکھنے کے لیے یہ سب اشیا تو اسرائیل سے آتی تھیں۔یہ سوچ کر ہی دل تڑپ اٹھتا ہے کہ غزہ کے 2ملین سے زائد مکین کس طرح زندگی بتا رہے ہوں گے ۔ حماس کی ساری لیڈرشپ بھی منظر سے غائب ہے ۔غزہ کے مکینوں کی دستگیری کے لیے کوئی قوت سامنے نہیں ہے۔
ایسے میں کچھ عالمی مسلمان این جی اوز حرکت میں آئی ہیں جو غزہ کے مجبور و محبوس مکینوں کے لیے فوری طور پر خورونوش کی اشیا فراہم کرنے کی تگ و دو کررہی ہیں ۔ الحمد للہ، اِن میں دو این جی اوز پاکستان کی بھی ہیں : الخدمت فاؤنڈیشن اور المصطفی ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل۔
الخدمت فاؤنڈیشن کا تعلق جماعتِ اسلامی پاکستان سے ہے اور اِس کے سربراہ ڈاکٹر حفیظ الرحمن اور سیکریٹری جنرل سید وقاص انجم جعفری ہیں۔جب کہ المصطفی ویلفیئر ٹرسٹ کا تعلق برطانیہ سے ہے لیکن اِس کے بانی اور چیئرمین (عبدالرزاق ساجد) پاکستانی نژاد برطانوی ہیں۔ دونوں این جی اوز نے پاکستان اور دیگر ممالک میں آنیوالی قدرتی آفات (سیلاب و زلزلہ)میں متاثرین کی بروقت دستگیری کرکے بڑا اعتبار اور اکرام پایا ہے ۔
الخدمت فاؤنڈیشن کی خدمات پر عوام کو کتنا اور کیسا اعتبار حاصل ہے، اِس کا اندازہ حالیہ ایام میں سامنے آنے والی ایک مثال سے لگایا جا سکتا ہے : پاکستان کے معروف گلوکار جناب عاطف اسلم نے ڈیڑھ کروڑ(15ملین روپے) کا عطیہ الخدمت فاؤنڈیشن کو دیا ہے تاکہ غزہ( فلسطین ) کے مجبور و محبوس مکینوں کو طبی اور خوردنی اشیا فراہم کی جائیں ۔ الخدمت فاؤنڈیشن کی سینئر قیادت کا کہنا ہے کہ اب تک الخدمت کی جانب سے15کروڑ روپے کا امدادی سامان غزہ کے ضرورتمندوں میں تقسیم کیا جا چکا ہے۔
یہ سامان NDMA اور دیگر عالمی اداروں کے توسط و تعاون سے غزہ بھیجا گیا ہے تاکہ مصری سرحد سے محفوظ حالت میں ( براستہ رفاہ) غزہ تک پہنچایا جا سکے۔22اکتوبر کو اِسی پس منظر میں الخدمت کے عبدالشکور اور ائر مارشل (ر) ارشد ملک کی چیئرمین NDMAسے ملاقات بھی ہوئی ہے۔ فلسطینیوں اور فلسطین سے جماعتِ اسلامی کی محبت اور کمٹمنٹ کسی سے مخفی نہیں ہے؛ چنانچہ الخدمت فاؤنڈیشن کا یہ دعوی قابلِ اعتبار ہے کہ وہ غزہ کے ضرورتمندوں کے لیے مزید 50کروڑ روپے کا فنڈ مختص کر چکی ہے ۔
المصطفی ویلفیئر ٹرسٹ کو عالمی مسلمان این جی اوز میں یہ منفرد مقام حاصل ہے کہ اس نے غزہ، القدس الشریف اور مغربی کنارے (West Bank) میں اپنا تنظیمی و ادارہ جاتی انفرااسٹرکچر استوار کررکھا ہے۔ کئی فلسطینی المصطفی ویلفیئر ٹرسٹ سے وابستہ رفاہی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
القدس الشریف کے امام، شیخ عمر الکسوانی، سے المصطفی ٹرسٹ (AMWT)اور اِس کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد سے گہرے اور تنظیمی تعلقات ہیں ۔ قبلہ اول بیت المقدس میںAMWTکے زیر نگرانی قرآن فہمی کا ایک ادارہ بھی قائم کیا جا چکا ہے۔ چیئرمین عبدالرزاق ساجد خود بھی کئی بار غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کی متنوع امداد کے لیے غزہ کا دورہ کر چکے ہیں۔ غزہ میں تازہ خونی تصادم کے پیش منظر میں متاثرہ فلسطینیوں کی امداد اور ہر ممکنہ دستگیری کے لیے المصطفینے فوری طور پر اپنے مقامی فلسطینی والنٹیئرز کو متحرک کیا ۔
اِس کے لیے المصطفی کو غزہ متاثرین کی امداد کے لیے دوسری این جی اوز کے مقابلے میں یوں سہولت و فوقیت حاصل رہی کہ اسیغزہ میں مقامی والنٹیئرز دستیاب ہیں۔ المصطفی ویلفیئر ٹرسٹ کے سربراہ عبدالرزاق ساجد نے مجھے بذریعہ فون بتایا کہ غزہ میں سب سے زیادہ طبی سامان، خیموں، حفاظتی صحت کٹس اور پکے پکائے کھانے کی ضرورت ہے۔ یہ ہم فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہم امدادی سامان مصر اور اردن سے خرید رہے ہیں۔ہم نے غزہ کی تین اہم جگہوں( خان یونس، رفاہ اور جبالیہ) پر عارضی کچنز بھی تیار کر دیے ہیں تاکہ تینوں وقت کا تازہ کھانا ضرورتمند بھائیوں، بہنوں اور بچوں میں تقسیم کیا جا سکے ۔
ساجد صاحب بتاتے ہیں کہ جس روز غزہ و اسرائیل میں تازہ خونی تصادم شروع ہوا ہے، میں پاکستان کے دورے پر تھا لیکن پھر ساری مصروفیات موخر کرکے مجھے بھاگم بھاگ لندن جانا پڑا ۔ وہ بتا رہے تھے کہ پچھلے تین ہفتوں کے دوران ہم لاکھوں برطانوی پونڈز کی اشیائے خورونوش غزہ میں تقسیم کر چکے ہیں اور میں خود بھی مصر کے راستے غزہ پہنچنے کی کوشش کررہا ہوں۔ میں نے اور ہمارے ادارے کے کئی وابستگان نے غزہ کے حق میں لندن میں ہونے والے زبردست مظاہروں میں بھی شرکت کی ہے۔ یہ شرکت انسانیت کا اولین تقاضا ہے ۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس