تحفظِ ختم نبوت کانفرنس اور مسئلہ فلسطین … تحریر : علامہ ابتسام الہی ظہیر


پاکستان کی دینی جماعتیں مختلف امور کے حوالے سے عوام کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتی رہتی ہیں۔ بعض تحریکوں نے اپنے آپ کو بعض اہم امور کے حوالے سے مختص اور وقف کیا ہوا ہے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت بھی ایسی ہی ایک تحریک ہے جس نے نبی کریمۖ کی ختم نبوت کے اہم مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے اپنی توانائیوں کو وقف کیا ہوا ہے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا نیٹ ورک پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ اس کے امیر مولانا ناصر الدین خاکوانی قرآن مجید اور احادیث طیبہ پر گہری نظر رکھنے والے عالم دین ہیں۔ مسئلہ ختم نبوت کو قرآن مجید کی آیاتِ بینات اور احادیث طیبہ کی روشنی میں اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ وہ دین اسلام کے غلبے کے لیے بھی اپنے پیروکاروں کی راہ نمائی کرتے رہتے ہیں۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے روحِ رواں مولانا اللہ وسایا ایک دِلنشین شخصیت ہیں۔ ان کے ساتھ میرے تعلقات کئی برسوں پر محیط ہیں۔
والدِ گرامی علامہ احسان الہی ظہیر کی شہادت کے بعد مجھے چناب نگر میں ہونے والی سالانہ کانفرنس میں دعوت دی گئی تو مولانا اللہ وسایا نے اس موقع پر انتہائی محبت اور شفقت کا مظاہرہ کیا اور بہت زیادہ حوصلہ افزائی کی۔ ان دِنوں خواجہ خان محمد عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا چہرہ ہوا کرتے تھے۔ اس تنظیم کے زیر اہتمام ہر سال چناب نگر میں ایک بہت بڑی کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں ہزاروں افراد شرکت کرتے ہیں اور ختم نبوت کے عنوان پر مقررین کے خطابات سے اپنے دِل و دماغ کو منورکرتے ہیں۔ میں بھی کئی مرتبہ اِس کانفرس میں شرکت کر چکا ہوں۔ جمعرات کو نمازِ ظہر سے شروع ہونے والی یہ کانفرنس رات گئے تک جاری رہتی ہے اور اگلے روز جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے بعد اختتام پذیر ہو جاتی ہے۔ اس کانفرنس میں تمام مکاتب فکر کے جید علما کرام اپنے اپنے خیالات کو پیش کرتے اور سامعین کی راہ نمائی کرتے ہیں۔
میں نے اس سال عصر کی نماز کے بعدختم نبوت کانفرنس سے خطاب کیا۔ عصر کی نماز کے بعد ہونے والے اس خطاب کو سننے کے لیے عوام الناس کی بڑی تعداد موجود تھی۔ سٹیج پر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے راہ نما مولانا ناصر الدین خاکوانی، مولانا اسماعیل شجاع آبادی، مولانا عزیز الرحمن اور دیگر بہت سے رہنما موجود تھے۔ اس موقع پر میں نے اپنی چند گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھا جنہیں میں کچھ کمی بیشی اور ترمیم کے ساتھ اپنے قارئین کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں:
ختم نبوت کا مسئلہ ایک انتہائی اہم اور حساس مسئلہ ہے اور یہ مسئلہ قرآن مجید کی آیاتِ بینات سے ثابت ہے۔ اللہ تبارک وتعالی نے سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 40 میں اس امر کا اعلان فرما دیا کہ ‘ ‘(لوگو!) تمہارے مردوں میں کسی کے باپ محمد (ۖ) نہیں ہیں لیکن آپ اللہ تعالی کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔ اسی طرح احادیث طیبہ میں بھی اس بات کی بہت زیادہ وضاحت کی گئی ہے۔ اس تناظر میں ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا ”میرے اور دوسرے انبیا کرام کی مثال اس طرح ہے جیسے ایک محل ہو جسے بہترین انداز میں تعمیر کیا گیا ہو لیکن ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی گئی ہو، دیکھنے والے اس کے گردچکر لگاتے ہیں اور اس اینٹ کی جگہ کے علاوہ اس کے حسن تعمیر پر تعجب میں پڑ جاتے ہیں، وہ میں تھا جس نے اس اینٹ کی جگہ کو پورا کیا اور میرے ساتھ ہی تعمیر مکمل ہو گئی اور میرے ساتھ ہی رسالت بھی مکمل کردی گئی۔ ایک دوسری روایت میں ہے ”میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں ہی خاتم النبیین ہوں۔
جس طرح یہ عقیدہ قرآنِ مجید کی آیاتِ بینات اور احادیث طیبہ سے ثابت ہے اسی طرح یہ عقیدہ اجماعِ امت سے بھی ثابت ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے منکرین ختم نبوت کے خلاف جہاد کیا اور مسیلمہ کذاب کے لشکر کو آپ کے بھیجے ہوئے لشکر نے شکست دی اور اس فتنے کا قلع قمع کیا۔ عہدِ صحابہ کرام سے لے کر آج تک جس بدبخت شخص نے بھی نبوت کا دعوی کیا اس فتنے کے انسداد کے لیے پوری امت نے یکسو ہو کر کوشش کی۔ مرزائیت اور قادیانیت کے فتنے کی سرکوبی کے لیے جہاں قرآنِ مجید کی آیات، احادیث طیبہ اور اجماعِ امت کو مسلمانوں کے سامنے رکھا گیا وہیں پاکستان کی قومی اسمبلی نے بھی اس بات کو آئینی اور قانونی طور پر پاس کیا کہ جو شخص نبی کریمۖ کی ختم نبوت کو تسلیم نہیں کرتا ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ نبی کریمۖ کی ختم نبوت کے دفاع کے لیے علما اس فیصلے کے بعد بھی یکسو رہے ہیں اور کئی مرتبہ ختم نبوت کے ڈرافٹ میں ترمیم کی کوششیں کی گئیں لیکن علما کرام کی کوششوں کی وجہ سے ایسی کوئی بھی سازش کامیاب نہ ہو سکی۔ اس موقع پر میں نے یہ بات بھی سامعین کے سامنے رکھی کہ جو لوگ ختم نبوتۖ کا انکار کرنے والے ہیں ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا پوری امت کی ذمہ داری ہے۔ اس کانفرنس میں ہزاروں کی تعداد میں افراد نے غیر مشروط طور پر نبی کریمۖ کی ختم نبوت سے والہانہ وابستگی کا اظہار کیا اور یہ کانفرنس اپنے جلو میں بہت سی اہم یادوں کو لیے اختتام پذیر ہوئی۔
اسی طرح لاہور میں متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی نے 28 اکتوبر کو ایک آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس کانفرنس میں ملک کی تمام جماعتوں کے جید علما کرام شریک ہوئے جن میں ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، مولانا امجد خان، مولانا زاہد الراشدی، مولانا عبدالروف ملک، مولانا عبدالغفار روپڑی، مولانا اشرف طاہر، مولانا الیاس چنیوٹی، مولانا عبداللطیف خالد چیمہ اوردیگر بہت سی اہم شخصیات شامل تھیں۔ اس موقع پر علما کرام نے اپنے اپنے انداز میں اظہارِ رائے کیا اور اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا گیا کہ باقاعدہ طور پر کوششیں کی جاری ہیں کہ پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کے لیے لفظ اقلیت کا استعمال ختم کر دیا جائے۔ اس بات پر علما نے گہری تشویش کا اظہار کیا کہ لفظ اقلیت کے استعمال میں کوئی ایسی منفی بات موجود نہیں کہ جس سے کسی کی حق تلفی ہوتی ہو لیکن اس لفظ کے استعمال کو روکنے کے نتیجے میں وہ اگر وہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں کو ایک آئینی اور قانونی تائید اور جواز حاصل ہو جائے تو یہ مستقبل میں امتِ مسلمہ کی شناخت اور بقاکے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
اس موقع پر فلسطین کے حالات پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور یہود کی اسلام دشمنی کو واضح کیا گیا اور اس حوالے سے پائی جانے والی مختلف آرا اور تبصروں کا بھی گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا گیا اور کئی عناصر کی طرف سے فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی پر کی جانے والی تنقید کا بھی گہرے طریقے سے جائزہ لیا گیا۔ میں نے اس موقع پر اپنی گزارشات کو علما و عوام کے سامنے رکھا اور یہ بات کہی کہ یہ حقیقت ہے کہ مارنے والے یہودی اور مرنے والے مسلمان ہیں اور یہود کی اسلام دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہود کی اسلام دشمنی کے ساتھ ساتھ انسانیت سوز مظالم بھی ہر اعتبار سے قابل مذمت ہیں۔ زخمی اور مجروح ہونے والے مسلمان بھائی کے کام آنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں اس حوالہ سے اللہ تعالی کے فرامین اور نبی کریمۖ کے ارشادات کو بالکل بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالی نے سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 10 میں ارشاد فرمایا کہ ”(یاد رکھو) سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ اسی طرح احادیث مبارکہ میں مسلمانوں کی باہمی اخوت اور تعلق کی بڑے احسن انداز میں وضاحت کی گئی ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درجہ ذیل ہے:
صحیح بخار ی و مسلم میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے ”محبت، رحمدلی اور شفقت کے اعتبار سے مومنوں کی مثال ایک جسم کی مانند ہے۔ جب بھی کوئی عضو تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو سارا جسم درد اور بخار کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اہلِ اسلام کی ذمہ داری ہے کہ فلسطینی بھائیوں کی حمایت میں اپنے جملہ وسائل، ذرائع اور توانائیوں کو استعمال کریں۔ یہ افسوس کا مقام ہے کہ امت اس وقت اوطان، ممالک اور جغرافیائی حد بندیوں میں اس اعتبار سے تقسیم ہے کہ امت کے ایک حصے پر مسلسل مظالم ڈھائے جا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود کسی بھی طور امت کے حکمران اور نمائندگان اسرائیل کے خلاف راست اقدام کا الٹی میٹم دینے پر آمادہ و تیار نہیں ہیں۔ مسلمانوں کے پاس ذرائع، وسائل اور مجموعی عسکری طاقت یہود سے کئی گنا زیادہ ہے لیکن مسلمانوں کے اقوام میں تقسیم ہونے کی وجہ سے ان کی حیثیت اس قدر کمزور ہو چکی ہے کہ وہ اتنے اہم معاملات پر بھی کوئی واضح لائحہ عمل اپنانے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
جہاں تک تعلق ہے پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کا تو یہ اس وقت تک درست نہیں ہو سکتی جب تک سود سے نجات حاصل نہیں کی جائے گی۔ سودی لین دین میں کبھی بھی برکت نہیں ہو سکتی اور اس کا نتیجہ نقصان اور انحطاط کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ چنانچہ ہمیں اس حوالے سے مضبوط لائحہ عمل کو اپنانا چاہیے اور پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے قوانینِ اسلامیہ کا نفاذ کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالی سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 66 میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ”اور اگر یہ لوگ تورات و انجیل اور ان کی جانب جو کچھ اللہ تعالی کی طرف سے نازل فرمایا گیا ہے، ان کے پورے پابند رہتے تو یہ لوگ اپنے اوپر اور نیچے سے روزیاں پاتے اور کھاتے۔ اس بات کو ہمیشہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ ایمان اور تقوی کی بدولت اللہ تبارک وتعالی آسمان و زمین سے برکات کے دروازے کھول دیتے ہیں اور اقوام کے لیے ترقی کے راستے ہموار ہو جاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالی سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 96 میں بجا طور پر ارشاد فرماتے ہیں ”اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے۔ اس موقع پر دیگر علما اور دانشوروں نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور یہ مجلس بہت سے اہم نکات پر غور و خوض اور اہم نتائج کو مرتب کرنے کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔
اللہ تبارک وتعالی ہم سب کو ختم نبوت کے دفاع اور اہلِ فلسطین کی بھرپور حمایت میں کام کرنے کی توفیق دے، آمین!

بشکریہ روزنامہ دنیا