ادیب اور معاشرہ : تحریر ڈاکٹر صغریٰ صدف


پنجابی سنگت پاکستان کے ہفتہ وار اجلاس میں جمیل پال کی صدارت میں ہندوستانی پنجاب سے تشریف لائے عالمی شہرت یافتہ کہانی کار سُکِیرت سنگھ آنند اپنی کہانی پڑھ رہے تھے، ساتھ زندگی کی کہانی کو ایک کلام میں سمو کر امر کر دینے والے مظہر ترمذی تشریف فرما تھے۔ہال کی ہر سیٹ پر لاہور کی نامور علمی ادبی ہستی براجمان تھی۔عجب کہانی تھی،لفظوں کو رنگوں کی طرح بڑی احتیاط اور سنبھال سے پینٹ کیا گیا تھا۔ہر لفظ علامت اور ہرجملہ ایک نظم کی صورت لگا،کبھی اس کا ذائقہ اینٹ سا ہو جاتا کبھی پتھر سا اور کبھی شیرینی کی سی مہک خیال میں گُھلنے لگتی۔ ہر فقرہ احساسات و جذبات پر مسلسل اثر انداز ہو رہا تھا۔ کہیں بھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ کہانی میں بوجھل پن آ گیا ہو یا کسی غیر ضروری تفصیل نے سننے والے کی توجہ کو بیزاری کے حوالے کر دیا ہو۔

ریل گاڑی کے ایک ڈبے میں بیٹھے خاندان کی متعصب گفتگو سے متاثر ہونیوالے اقلیتی نمائندے کی فکرمندی سے شروع ہونے والی کہانی

برِصغیر کے بدلتے ہوئے رویوں کی جھلک دکھا کر ریل گاڑی میں ہی ختم ہو گئی۔پتہ چلا حالات دونوں طرف ایک سے ہیں۔ نفرت اور تقسیم کی آندھی دونوں جانب انسانی قدروں کے گلشن میں کھلے پھولوں سے دشمنی پر اُتر آئی ہے۔ عقائد کی حدبندیوں میں جکڑے باشعور لوگ زیادہ بے بس اور قابل رحم ہو گئے ہیں۔ ہندوستان میں اصغر حمید، خود کو اے۔ ایچ گاندھی لکھتا ہے اور پاکستان میں پیٹر اور ڈیوڈ نے لیاقت اور ندیم نام رکھنا شروع کر دئیے ہیں۔ دونوں طرف بپھرے ہوئے ہجوم کے خوف کا راج ہے۔اس خوف کی آبیاری کرنے والی سوچ کو سب جانتے ہیں مگر پوچھنے کی کسی میں ہمت نہیں۔کہانی سنتے ہر لمحہ یہ احساس کچوکے لگاتا رہا کہ ہم نے بھاگ دوڑ میں زندگی کی ریل گاڑی کے اسٹیئرنگ سے توجہ ہٹا کر اسے ان دیکھی قوتوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔ اب وہ ان کے کنٹرول میں ہے وہ کب پٹڑی پر رکھیں کب اتار دیں، یہ خوف یہ دھچکا ہر مسافر کو ٹکٹ کے ساتھ دیا جاتا ہے۔

یوں تو دنیا اس وقت نفرت اور تقسیم کے شکنجے میں ہے۔عبادت گاہوں کا تقدس باقی ہے، انسان کا وقار ختم ہو گیا ہے۔ اس کائنات کا مرکزی کردار بے وقعت ہو گیا ہے۔جلد بازی میں ہر کوئی بھاگتا ہوا اُس ریل گاڑی کو پکڑنے کی جدوجہد میں ہے جس کے پہیوں پر خوف کی بوندیں چمٹی ہوئی ہیں۔سفر اذیت بن چکا ہے کہ منزل کا تعین نہیں۔ صرف معاشی اور مادی حصول اور تعیشات کا مقصود ِزندگی بن جانا،المیہ ہوتا ہے شادمانی نہیں۔ برصغیر کے افراد جو ہزاروں سال سے محبت اور یگانگت کے بندھن میں جکڑے ہوئے تھے، ان کی شناخت اور ہستی لیر و لیر ہوتی جا رہی ہے۔صرف مذاہب کا آپس میں ٹکراؤ نہیں ہے بلکہ مذاہب کے اندر بھی تقسیم جاری ہے جس طرح سکیرت کی کہانی میں سنی شیعہ خاندان میں شادی کے بعد لڑکی کا نام مسئلہ بن جاتا ہے۔ہر گزرتے دن کے ساتھ بر صغیر میں اقلیتیں خوف کے سحر میں جکڑی جا رہی ہیں۔ وہ جنہیں کوئی براہ راست نقصان نہیں بھی پہنچا ان کا بھی احساس دائمی مجروح رہتا ہے کہ اس میں نقصان کا درد رکھ دیا گیا ہے۔ کسی المناک لمحے سے جڑے حادثے اور انہونی کا خوف زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے۔ ہر لمحہ خوف کا آسیب پیچھا کرنے لگے تو زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔

آج تک علم وادب کو وسیلہ بنا کر دانشوروں اور ادیبوں نے ہی دلدل میں گرے معاشروں کو نکالا، سنبھالا اور اجالا ہےجس طرح کہانی دل پر اثر کرتی ہے اس طرح خبر اثر نہیں کرتی۔تلقین اور تبلیغ اثر نہیں کرتی۔ ادیب کبھی شعر اور کبھی نثر میں کہانی بُنتا ہے، منظر کشی کر کے مقصد کی طرف لانا پڑتا ہے اور ادیب یہ طریقہ خوب جانتا ہے دونوں ملکوں کے ادیبوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی تحریر کے ذریعے معاشرے میں پھیلتی نفرت کے طوفان کے آگے بند باندھنے کی کوشش کریں۔غور کریں تو دونوں ملکوں میں نفرت تعصب اور تقسیم کی وجہ بننے والے لوگ 10 فیصد سے زیادہ نہیں ہوں گے جو پوری آزادی اور بے باکی سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی 90 فیصد کو اپنے کام سے کام ہے وہ انہیں روکنے کی تدبیر کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ وہ متحد نہیں ہوتے، ان 90 فیصد لوگوں کو بولنا ہوگا اور اپنے عمل سے اس نفرت کی دیوار کو گرانا ہوگا۔ سنگت کے سیکرٹری نوجوان کہانی کار علی عثمان باجوہ کی کاوشوں کو سلام۔ اقبال قیصر اور یوسف پنجابی کے لیے بہت سی دعائیں کہ انہوں نے کئی سال پہلے یہ چھوٹا سا پلیٹ فارم شروع کیا تھا جو اپنے مقصد کو لے کر بہت بڑا مرکز بن چکا ہے۔ مکالمے کی فضا کو رواج دینا بھی ایک نیکی ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ