شاعر، ڈرامہ نگار اور ناول نویس الیگزینڈر پشکن کو روسی ادب میں وہی مقام حاصل ہے جو انگریزی ادب میں جیفری چاسر اور امریکی ادب میں والٹ وٹمین کو دیا جاتا ہے۔ ان تینوں ادیبوں نے موضوعات اور تکنیک میں جدید رجحانات متعارف کرا کے اپنے ادب کو اس کے مخصوص قومی خدوخال عطا کیے۔ الیگزینڈر پشکن نے صرف 38 برس کی عمر پائی لیکن آئندہ عشروں میں گوگول، لرمنتوف، ترگنیف، دوستوئیفسکی، ٹالسٹائی اور چیخوف نے پشکن ہی کی روشنی میں اپنی عظمت کی راہیں تراشیں۔ الیگزنڈر پشکن نے’حکم کی ملکہ‘ کے عنوان سے ایک ڈرامہ تخلیق کیا تھا۔ زارِ روس کے ایک لالچی فوجی افسر کا قصہ ہے جسے ایک بوڑھی امیر رشتے دار خاتون کی دولت کا راز معلوم کرنے کی جستجو ہے۔ گھرانے میں سینہ بہ سینہ روایت چلی آ رہی ہے کہ بوڑھی بیوہ نے یہ دولت جوئے میں تاش کے پتوں کی ایک خاص ترتیب سے ہتھیائی تھی۔ فوجی افسر ایک رات پستول اٹھائے بڑھیا کے گھر میں گھس جاتا ہے۔ اس نے تاش کا راز تو اگلوا لیا لیکن بڑھیا دہشت زدہ ہو کر دم توڑ جاتی ہے۔ فوجی افسر یہ راز لیے جوا کھیلنے جاتا ہے لیکن پتوں کی ترتیب گڈمڈ کر بیٹھتا ہے اور حکم کی ملکہ کی بجائے غلط پتہ پھینک کر اپنا سب کچھ کھو بیٹھتا ہے۔ اس استعاراتی کہانی سے کسی بھی زمانے میں اختیار کی رعونت اور نہتے عوام کی بے دست و پائی کا انجام معلوم کیا جا سکتا ہے۔ پشکن کی یہ کہانی ہمارے ملک پر بھی منطبق ہوتی ہے۔ ہماری تاریخ دھوپ چھاؤں کا کھیل رہی ہے جس میں عوام کو چھاؤں میں بیٹھنا نصیب نہیں ہوا۔ صحافی کا منصب دھوپ اور چھاؤں کا فرق بیان کرنا ہے مگر ہماری صحافت کی کچھ پتواریں نادیدہ ہاتھوں میں رہن رہی ہیں اور کچھ قلم روشنائی سے محروم کر دیے گئے۔ شیکسپیئر نے کہا تھا کہ نام میں کیا رکھا ہے۔ ہم سے پوچھتا تو ہم بتا دیتے کہ نام میں بہت کچھ رکھا ہے۔ کون سا نام کب اور کس رنگ میں لینا ہے۔ حکم کی ملکہ کے لب شیریں سے برآمد ہونے والے حرف پندار سے قوم کا اجتماعی شعور مرتب کیا گیا ہے۔
1946 کے انتخابات میں بنگال واحد صوبہ تھا جہاں مسلم لیگ نے فیصلہ کن اکثریت حاصل کی تھی۔ بنگال کے مسلم لیگی رہنما حسین شہید سہروردی کو دستور ساز اسمبلی کی رکنیت ہی سے محروم نہیں کیا گیا بلکہ ان کی شہریت پر بھی انگلی اٹھائی گئی۔ وزیراعظم لیاقت علی نے انہیں پارلیمنٹ میں غدار کہہ کر پکارا۔ ایوب کھوڑو کا جرم کراچی کو سندھ سے الگ کرنے کی خسروانہ خواہش سے انکار تھا۔ چنانچہ وہ ہمارے پہلے ’بدعنوان‘ سیاست دان قرار پائے۔ قرارداد پاکستان پیش کرنے والے فضل الحق نے 1954 کے صوبائی انتخابات میں دو تہائی اکثریت سے حکومت بنائی مگر انہیں غدار کا خطاب ملا۔ ان کی جماعت جگتو فرنٹ کو بھٹو صاحب ستر کی دہائی تک گالی دیتے رہے۔ تحریک آزادی میں عبدالغفار خان تیس برس تک غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف سینہ سپر رہے۔ ہم نے انہیں پاکستان میں اٹھارہ برس قید یا نظربند رکھا۔ پاکستان میں ادب کے طالب علموں سے پوچھئے کہ وہ شیخ ایاز، گل خان نصیر، غنی خان اور میجر اسحاق کی تحریروں سے آشنا ہیں۔ کیا انہوں نے سوبھوگیان چندانی اور قلندر خان مومند کا نام سن رکھا ہے۔ کیا وہ جانتے ہیں کہ رسول بخش پلیجو سیاسی رہنما ہی نہیں، ایک اہم سندھی ادیب بھی تھے۔ کیا انہیں علم ہے کہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک بلوچی زبان کے اہم افسانہ نگار بھی ہیں۔
جنرل ضیا کے تاریک برسوں میں بھٹو کا نام اخبارات اور نشریاتی اداروں کے لیے ممنوع قرار پایا۔ انتظار حسین خورونوش کے مقامی ذائقوں، گل بوٹوں اور پرندوں میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ ریڈیو کے کسی پروگرام میں موسم سرما کی آمد کا ذکر کرتے ہوئے ارتجالاً فرما دیا کہ بھٹوں کی رت آ رہی ہے۔ غریب پروڈیوسر نے ہاتھ باندھ دیے کہ آپ مکئی کے بھٹے کا ذکر کر رہے ہیں۔ سیکرٹری اطلاعات جنرل مجیب الرحمن اس سے بھٹو صاحب کا نام مراد لیں گے۔ مجھ غریب کی نوکری چلی جائے گی۔ 1990 میں سیدہ عابدہ حسین وزیر اطلاعات بنیں تو حکم دیا کہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ملک کی سابق وزیراعظم کو محترمہ بینظیر کی بجائے ’بینظیر صاحبہ‘ کہا جائے گا۔ ایک سابق صدر کو آدھی آبادی آج تک حقیقی نام کی بجائے ’مسٹر ٹین پرسنٹ‘ کے نام سے جانتی ہے۔ 22 جون 2012 کو راجہ پرویز اشرف وزیراعظم بنے تو شام تک بچہ بچہ انہیں ’راجہ رینٹل‘ کے نام سے جانتا تھا۔ 21 اگست 2016 تو کل کی بات ہے۔ تمام ٹیلی ویژن چینل دن رات الطاف حسین کی طول و طویل تقاریر براہ راست نشر کرتے تھے۔ پھر ایسی کایا کلپ ہوئی کہ الطاف حسین راتوں رات ’بانی تحریک‘ بن گئے۔ 17 اکتوبر 2020 کو گوجرانوالہ میں ایک تقریر کی پاداش میں نواز شریف کا نام لینا ممنوع قرار پایا۔ آج کل ہم ’چیئرمین تحریک انصاف‘ کی تمثیل دیکھ رہے ہیں۔ اللہ کی شان ہے کہ تحریک انصاف کے شعلہ بیان رہنما اپنی جماعت ہی نہیں، سیاست تک چھوڑنے کا اعلان فرما رہے ہیں۔ جماعتی وابستگی بدلنا تو قابل فہم ہے، کوئی باضمیر شہری سیاست سے کیسے دستبردار ہو سکتا ہے۔ یہ ایسے معاشرے ہی میں ممکن ہے جہاں فلمی اداکار کو ’حاجی صاحب‘، ہدایت کار کو ’شاہ جی‘ اور سیاست دان کو ’میاں صاحب‘ یا ’خان صاحب‘ کہا جاتا ہو۔ نومبر 2022 میں چار سینئر عسکری رہنماؤں کے نام آرمی چیف کے لیے سامنے آئے۔ طریقہ کار کے مطابق ایک عسکری رہنما کو یہ منصب مل گیا۔ سرکاری ریکارڈ میں ان کا اسم گرامی محفوظ ہے۔ یہ کون صحافی ہیں جنہوں نے از رہ خوشامد ’حافظ صاحب‘ کا لقب متعارف کروایا ہے۔ یہ وہی فرقہ ہے جس نے یحییٰ خان کو ’اسلامی آئین‘ کا خالق ہونے کی نوید دی تھی۔ جنہوں نے جنرل ضیا الحق کو ’مرد مومن اور مرد حق‘ کے خطاب دیے تھے۔ یہ صحافی کے ضمیر کی آواز نہیں، حکم کی ملکہ کا حسن کرشمہ ساز سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ