بے شمار موضوعات، ہفتہ بھر کے اہم واقعات بھی، نواز شریف کی وطن واپسی پر تاریخی جلسہ، تاریخی تقریر بہت کچھ رقم کر گئے، بہت کچھ رقم کرنے کو ۔ سپریم کورٹ کا ملٹری کورٹس میں سویلین ٹرائل کو ناممکن بنانا اور فیصلے پر فوری عملدرآمد نہ ہونا، تفکرات خدشات بھی ساتھ ساتھ ۔ آنے والے دنوں میں ایسے موضوعات پر طبع آزمائی رہنی ہے۔ آج مملکت خداداد،جہاں موجود، اپنے حکمرانوں کی خرمستیوں کی بدولت ہی تو ہے ۔ جمہوری یامطلق العنان ہر حکمران حصہ بقدرِ طاقت و استطاعت فراخدلی سے ڈالنے میں ہچکچائے نہ شرمائے۔ مطلق العنان حکمران تو موجد، اپنی دھاک بٹھا چکے ہیں۔ آج مملکت خداداد کے اصل مجرم کا تعین آسان، قرعہ فال بنام جنرل محمد ایوب خان ہی نکلنا ہے۔ ایک وقت تک یقینا بین الاقوامی سچائی، مجرم جنرل ایوب تھا کہ جب تک جنرل قمر جاوید باجوہ بنفس نفیس پردہِ سیمیں پر جلوہ افروز نہیں ہوئے تھے۔ آج ایوب خان کے شانہ بشانہ مقام پا چکے۔ جنرل باجوہ کا کریڈٹ، آئین چھیڑا نہ مارشل لا اور نہ ہی ایمرجنسی یعنی کہ دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ … تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو ۔ وطنی سیاسی عدمِ استحکام ، اپنے ادارے کی بے حرمتی اور نظام کی تباہی و بربادی میں ایک تاریخ رقم کی۔ کسبِ کمال، نواز شریف کو خاطر خواہ ذلیل، رسوا، خوار کر کے نکالا بھی اور پھر اپنی توسیع کا ووٹ بھی لے لیا ۔ تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے ، ساری سیاسی جماعتیں، سارے سیاسی رہنما باجماعت باوضو، وردی اور توسیع مدتِ ملازمت کو فقید ِ المثال پذیرائی میں مستعد رہے۔ ایسابڑا اتفاق رائے جو 1973 کے آئین پاکستان پر نہ ہو سکا۔ خوش قسمت جب دوسری توسیع کا معاملہ آیا توجمعیت سیاسی مسلمین بشمول عمران خان دوسری توسیع ملازمت دینے پر بھی راضی۔ شنید کہ اس دفعہ امریکہ کیساتھ دوسرے ممالک بھی مصر تھے۔ آخری دنوں تو شہباز شریف نے بھی لندن جا ڈیرے ڈالے۔ توسیع کا پروانہ لیے بغیر واپس آنے سے صاف انکاری تھے ۔ عمران خان دو قدم آگے، لانگ مارچ کر ڈالا۔ چشم تصور میں ممکنہ آرمی چیف کی تعیناتی رک پاتی تو جنرل باجوہ سرخرو رہتے۔ اس سارے عمل میں جنرل باجوہ نے کمالِ ہوشیاری سے حکومت کو سرنگوں رکھا جبکہ اپنے ایک بااعتماد قریبی ساتھی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے حقوق ِملکیت عمران خان کو منتقل کئے تاکہ عمران خان بھی موثر طریقہ سے زیر استعمال رہے۔ یہ تو بھلا ہو نواز شریف کاکہ نومبر 2022 میں رنگ میں بھنگ ڈال دیا ، باجوہ کو بے آبرو ہو کر رخصت ہونا پڑا ۔
میں فوج کا نظام نہیں جانتا، جاننے کیلئے راکٹ سائنس چاہیے بھی نہیں۔ زباں زدِ عام جنرل باجوہ جاتے جاتے نئے آرمی چیف کیلئے مشکلات کا انبار لگا گئے ۔ چند ہفتے پہلے درجن بھر اپنے اعتماد کے لیفٹیننٹ جنرل بنا ڈالے۔ اہم پوزیشنوں پر چار سو اپنی پسند کے جرنیل تعینات کر گئے۔ یوں مستقبل قریب میں بھی ادارے کے ڈسپلن پر اثر انداز ہونے کے راستے پختہ کئے۔کچھ واقعات اس سے پہلے بھی، 2019 میں جنرل باجوہ صاحب کو جب توسیع ملی تو اگلی توسیع کیلئے بے قراری اور بے یقینی کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ۔ ایک دفعہ سربراہ تو تاحیات آرمی چیف رہنے کا عزم ہمیشہ سے اپنی جگہ موجود رہتا ہے۔ جنرل ایوب خان، جنرل یحیی خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کو تو ہم نے تاحیات وردی کی تمنالئے کھلے عام سینہ سپر دیکھا ہے ۔ جبکہ جنرل باجوہ مارشل لا لگائے بغیر یہی کچھ حاصل کر نا چاہتے تھے ۔ حفظ ماتقدم ، جنوری 2021 عمران خان سے طوطا چشمی کی ٹھان لی ۔ مزید توسیع کے بارے میں تفکرات اور خدشات بنتے تھے ۔ صفحہ کو چابکدستی اور کمالِ ہوشیاری سے ایسے پھاڑاکہ عمران خان کو کانوں کان خبر نہ ہوئی ۔ بعدازاقتدار کتبہ پر لکھا ملا کہ موصوف انجانے میں مارا گیا۔
دو رائے نہیں کہ جن اجزائے ترکیبی سے عمران خان حکومت تشکیل پائی، اسی فارمولا کے تحت عمران خان کو گھر بھیجا جانا تھا۔ ایک اور توسیع کے سہانے خواب سچ ہونے کے قریب ۔ آرمی چیف کی تعیناتی توسیع کے کچھ رہنما اصول اور بھی ، بقول جنرل حمید گل،ا مریکہ کی مرضی شاملِ حال رہتی ہے ۔ جنرل باجوہ شاید ایک درجہ اوپر، موصوف امریکی پلانٹڈ تھے؟ اسی پیرائے میں چند فقرے کہ جنرل عاصم منیر پہلا آرمی چیف، جو امریکی اثر و رسوخ سے باہر ہے ۔ عین ایسے موقع پر جبکہ چین پہلی دفعہ خم ٹھونک کر حقی سچی سپر پاور بن چکا ہے۔ جنرل عاصم کیلئے چین کے پاس موثر جائے اماں موجود ہے ۔ مقدر کا سکندر، اسرائیل کی دہشت گردی میں ہم جولی بننے پر امریکہ کی پوری توجہ اس وقت مشرق وسطی پرمبذول ہے ۔ وگرنہ امریکہ جنرل عاصم منیر کیخلاف اب تک سازشوں کا انبوہ لگاچکا ہوتا ۔
مت بھولیں کہ جولائی 2019 میں جنرل باجوہ ہی تو اپنی توسیع کیلئے عمران خان کی انگلی پکڑ کر صدر ٹرمپ کے پاس جا پہنچے۔ عمر ان خان نے امریکی صدر کے آگے سر تسلیم خم رکھا ۔اس خوشی کے موقع پر جنرل باجوہ کو پینٹاگون نے 21توپوں کی سلامی دی ۔ ہمیں کیا معلوم کہ باپ بیٹامارے خوشی ، کشمیر بھارت کے حوالے کر آئیں گے ۔ 2021 میں یہ جب طے ہوا کہ عمران خان کو فارغ کرنا ہے، عدم اعتماد کی تحریک ہی سہارا بننا تھی۔ دسمبر 2021سے یہ بھی عیاں کہ اپوزیشن جنرل باجوہ کے دام میں آ چکی ہے، تحریک عدم اعتماد لا کر رہے گی۔ دسمبر 2021، جنوری فروری 2022 میں میری ایسی ساری کوششیں ناکام کہ جنرل باجوہ اور عمران خان کی دھینگا مشتی سے اپوزیشن باہر رہے وگرنہ خانہ خرابی رہنی ہے ۔ سیاسی بانجھ اپوزیشن جماعتوں سے اسٹیبلشمنٹ کی یہ بات بھی طے ہو گئی کہ اقتدار ملنے کے فورا بعد الیکشن ونیب ریفارمزاور بعد ازاں الیکشن اور نگران حکومت کا قیام ہونا ہے۔ پس پردہ جنرل باجوہ کا عزم صمیم کہ نگران حکومت کے ذریعے سپریم کورٹ کے پانچ ججز کی بھرتی، پھر قاضی فائز عیسی کی دائمی رخصتی اور پھر اپنی مرضی کی سپریم کورٹ کی مدد سے لمبی نگران حکومت کیلئے تحفظ ملنا تھا۔ از راہِ تفنن، 2019کے اواخر میں ناموافق حالات دیکھے تو مارشل لا کا بھی سوچا گیا مگر دیر ہو چکی تھی۔ آج اللہ کی اسکیم حرکت میں، جنرل باجوہ اپنے تمام تر منصوبوں میں ناکام و نامراد، بالآخر توہین آمیز رخصتی مقدر بنی۔ جنرل باجوہ پاکستان کی قسمت سے کھیلے ہیں، انکا حساب کتاب لینا ہوگا، یہ بدلہ نہیں ادلہ ہے۔ یہ تیسا نہیں یہ ایسا ہے۔
مجھے اللہ تعالی سے خیر کی امید، مملکتِ خداداد کی قسمت سے کھیلنے والوں کی ان شا اللہ نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا ، دنیا اور آخرت میں رسوائی کندہ ہے۔ پاکستان ان شا اللہ قائم رہیگا، اسکی قسمت سے کھیلنے والے یقینا برباد ہونگے ۔ (آمین)
بشکریہ روزنامہ جنگ